تین سالہ بجٹ حکمت عملی

ایڈیٹوریل  جمعرات 19 اپريل 2018
بجٹ پیپر سے واضح ہوتا ہے کہ ملک قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ فوٹو : فائل

بجٹ پیپر سے واضح ہوتا ہے کہ ملک قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ فوٹو : فائل

وفاقی کابینہ نے مالی سال 2018-19 سے 2020-21 تک کے لیے تین سالہ میزانیاتی حکمت عملی دستاویز (بجٹ اسٹرٹیجی پیپر) کی منظوری دیدی۔ جس کے تحت آیندہ مالی سال 2018-19 کے وفاقی بجٹ کا مجموعی حجم 52.37 کھرب روپے تجویز کیا گیا ہے جس میں نصف سے زیادہ رقم دفاع اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے مختص کی گئی ہے جب کہ ترقیاتی کاموں کے لیے کم رقم رکھی گئی ہے۔

مسلم لیگ ن نے اپنے آخری بجٹ کے حوالہ سے جو اسٹرٹیجی پیپر پیش کیا ہے اس میں ملکی سیاسی اور اقتصادی صورتحال اور زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک محتاط تخمینہ جاتی دستاویز قوم کے سامنے رکھی گئی ہے جو حتمی نہیں بلکہ آیندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاری تک اس میں متعدد شماریاتی تبدیلیاں متوقع ہیں تاہم پیپر کی تیاری متوازن طریقہ سے کی گئی ہے ۔

کابینہ اجلاس کی ایک اہم بات دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے 4 کھرب47 ارب کی منظوری ہے، ملک میں بجلی کی پیداوار اور لوڈ شیدنگ سے نجات کے لیے اس ڈیم کی تعمیر ملکی معیشت ، توانائی ، زراعت اور پینے کے پانی کی فراہمی کے تناظر میں انتہائی اہم ہے۔

علاوہ ازیں حکومت نے فرنس آئل کی درآمد کی بھی اجازت دی ہے، جیسا کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ ہم وطنوں کی آمدنی کا مستحکم ہونا اور ریونیو کا تسلسل ملکی معیشت کے لیے اربوں کے قرضوں کے حصول سے زیادہ صائب ہوگا۔

بجٹ اسٹرٹیجیکل پیپر کے مطالعہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بجٹ میں ملکی سلامتی ، داخلی سیکیورٹی کے لیے ملکی دفاع کی مد میں خاطر خواہ رقم مختص کرنے کی تجویز ہے، جب کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں، سبسڈی اور ڈیٹ سروسنگ پر زیادہ توجہ مرکوز ہوگی ، ادھر معاشی حلقوں کا کہنا ہے کہ ڈیٹ سروسنگ کا مسئلہ پیچیدہ ہوجانے کا خدشہ ہے۔

وفاقی کابینہ نے ریگولر دفاعی بجٹ کے لیے11کھرب روپے اور مسلح افواج کے ترقیاتی پروگرام کے لیے مزید 100ارب روپے مختص کرنے کی منظوری دی جو مجموعی طور پر 12کھرب روپے اور کل بجٹ کا 23فیصد بنتا ہے۔ اسی طرح مجوزہ بجٹ میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے 16.07کھرب روپے مختص کیے گئے ہیں جو کہ بجٹ کا 30.7حصہ ہے۔

ایک اخباری رپورٹ کے مطابق دفاع اور قرضوں کی ادائیگی پر مجموعی طور پر 28کھرب روپے خرچ ہونگے جو کل وفاقی بجٹ کا 53.7 فیصد بنتا ہے۔ آیندہ وفاقی بجٹ رواں مالی سال کے بجٹ کے مقابلے میں 10فیصد یا 484ارب روپے زیادہ ہوگا۔ آیندہ مالی سال کے لیے ریکارڈ بجٹ خسارہ 20.29کھرب روپے متوقع ہے جو بیرونی اور اندرونی قرضوں سے پورا کیا جائیگا۔ ٹیکس وصولیوں کا ہدف 44.35کھرب روپے مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

وزیراعظم نے وفاقی ترقیاتی بجٹ کا حجم 800ارب روپے مقرر کرنے کا فیصلہ کیا جب کہ وزارت خزانہ نے ساڑھے سات سو ارب کی تجویز دی تھی۔ ترقیاتی بجٹ کل بجٹ کا 15.2فیصد ہے جس کا اعلان ستائیس اپریل کو ہوگا۔مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ اگلے مالی سال کے لیے توسیعی مالیاتی پالیسی اختیار کی ہے، سخت مالیاتی پالیسی اپنا کر معیشت کی رفتارکو سست نہیں کرنا چاہیے۔ آیندہ مالی سال کے دفاعی بجٹ میں 20فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے۔

پیپر کے مطابق  پہلی مرتبہ وزارت خزانہ نے تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کے لیے 36ارب روپے رکھے ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ مہنگائی ، بیروزگاری اور غربت کی روک تھام کے لیے بجٹ تجاویز کو واضح اشاریے جاری کرنے چاہئیں، جمہوری حکومتوں نے بجٹ ضرور پیش کیے مگر خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں یا متوسط طبقہ کو کبھی بھی جمہوری ثمرات کے دھارے میں شمولیت کا موقع نہیں ملا، کل کی طرح عام آدمی آج بھی بجٹ کو اعداد وشمار کا مجرد گورکھ دھندہ سمجھنے پر مجبور ہے۔

وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ قرضوں کے حصول کے بجائے پائیدارآمدن اور محصولات سے ملک کو فائدہ ہوگا۔ذرایع کا کہنا ہے کہ برآمدات کا ہدف27 ارب 30 کروڑ ڈالر، درآمدات کا ہدف 56 ارب 50 کروڑ ڈالر اور تجارتی خسارے کا ہدف 29 ارب 20 کروڑ ڈالر مقرر کرنیکی تجویز دی گئی ہے۔ آیندہ مالی سال 2018-19 کے لیے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا ہدف ساڑھے بارہ ارب ڈالر مقرر کرنیکی تجویز دی گئی ہے۔

مشیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ بینکنگ سیکٹر ملکی معیشت کے فروغ میں ایک نمایاں سیکٹر ہے ، پاکستان بینکرز ایسوسی ایشن کے وفدسے ملاقات کے دوران مشیرخزانہ نے وفد کو یقین دھانی کرائی کہ حکومت بینکنگ سیکٹرکی بجٹ تجاویزکوزیرغورلائیگی اوران کوممکن حد تک ایڈجسٹ کرینگے ۔ ذرایع کے مطابق وزیر ِمملکت خرانہ رانا افضل نے کہاکہ آیندہ بجٹ سے متعلق اپوزیشن کے تحفظات درست نہیں، مسلم لیگ (ن) کی حکومت بجٹ ضرور پیش کریگی۔

بجٹ پیپر سے واضح ہوتا ہے کہ ملک قرضوں میں جکڑا ہوا ہے، تاہم عبوری عرصہ کے لیے اس سہ سالی بجٹ تجاویز کی دستاویز کی روشنی میں سالانہ میزانیہ معاشی بریک تھرو کی کوئی صورت ضرور پیدا کرے ۔ عبوری نگراں سیٹ اپ کے لیے مشاورت جاری ہے، اس لیے اس دوران عوام کو معاشی اطمینان ہونا چاہیے اور ارباب اختیار سیاسی صورتحال کے ساتھ ساتھ اقتصادی طور پر ملک کو ہر قسم کے بحران اور معاشی خدشات سے محفوظ رکھنے کے لیے عوام دوست بجٹ کی تیاری کو یقینی بنائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔