مندر تو مقدس مقام ہے مگر

توقیر چغتائی  جمعرات 19 اپريل 2018

دس جنوری کوجموں کشمیر کے چھوٹے سے گاؤں میں رہنے والے چرواہے کی آٹھ سالہ بچی گھر سے نکلی مگر واپس نہ آئی۔ غریب باپ نے پریشانی کے عالم میں سوائے قریبی مندر کے پورا جنگل چھان مارا مگر مایوسی کے علاوہ اس کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ اس کا کہنا تھا کہ مندر ایک مقدس مقام ہے اس لیے وہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ کوئی اس کی بیٹی کو اغوا کر کے وہاں لے جا سکتا ہے۔

پانچ دن گزرنے کے بعد پتھروں سے کچلی اس کی بیٹی کی لاش قریبی علاقے سے ملی جسے قتل کرنے سے پہلے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔آس پاس کے علاقے میں کہرام مچ گیا اور آصفہ کا باپ اس ظلم کے خلاف نامعلوم افراد کے خلاف تھانے میں رپورٹ درج کروانے پہنچ گیا لیکن ڈیوٹی پر موجود پولیس والوں نے اس کی ایک نہ سنی۔ لگ بھگ تین ماہ بعد نو اپریل کو جموں کشمیر کی پولیس نے آٹھ ملزمان کے خلاف چارج شیٹ درج کی تو مقامی وکلا نے پولیس کو روکنے کی بھر پور کوشش کی لیکن عوام کے بھر پور احتجاج کے بعد اس نا قابل معافی جرم میں ملوث ایک ریٹائرڈ سرکاری آفیسر، اس کے بیٹے، بھتیجے اور چار پولیس اہلکاروں کو گرفتار کر لیا گیا جس پر ’’ہندو ایکتا‘‘ تنظیم نے انتہائی ڈھٹائی سے ملزمان کی رہائی کے لیے جلوس نکالا جس میں بی جے پی کے دو وزرا بھی شریک ہوئے۔

چارج شیٹ میں جو شرم ناک حقائق درج تھے ان کے مطابق آصفہ کو اغوا کرنے کے بعد ایک ریٹائرڈ سرکاری آفیسر کے بیٹے نے اپنے دوست وشال جنگوترا کو فون کر کے کہا کہ میرے بعد اگر وہ بھی اپنی ہوس کی آگ بجھانا چاہتا ہے تو فوراًمیرٹھ سے کشمیر پہنچ جائے۔

مقامی کالج میںزیر تعلیم وشال جنگوترا فورا ًکشمیر پہنچ گیا اور مندر میں بھوکے پیٹ بیٹھی آصفہ کو نشے کی گولی کھلانے کے بعد شیطانی کھیل رچایا۔ اجتماعی ہوس کاری کے بعد ایک ملزم نے کہا کہ اب لڑکی کو قتل کر کے اس کی لاش چھپا دینا چاہیے مگر ایک پولیس آفیسر نے کہا ٹھہر جاؤ پہلے میں بھی اپنی ہوس پوری کرلوں اس کے بعد بے شک اسے قتل کر دینا۔

مقبوضہ کشمیر میں لگی ظلم و تشدد کی آگ میں جب آٖصفہ کی آگ شامل ہوئی تو اس کے شعلے بھارت کے تمام چھوٹے بڑے شہروں سے ہوتے ہوئے پوری دنیا میں پھیل گئے اور رنگ و نسل، مذہب اور علاقے کا امتیاز کیے بغیر پوری دنیا ا ن کی تپش محسوس کرنے لگی۔

پریس کونسل آف انڈیا کے سابق چیئر مین مارکنڈے کاٹجو نے سوشل میڈیا پر بھارتی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔ ’’جہاں آٹھ سالہ بچی کے ساتھ اجتماعی زیادتی میں پولیس اہل کار بھی شریک ہو۔ جہاں متاثرہ دھڑے کے وکیل کو بار ایسوسی ایشن دھمکیاں دے اور زیادتی کرنے والے کو بچانے کے لیے ہندو تنظیم اکثریتی آبادی کے ساتھ مل کر ترنگا اٹھائے ’’جے شری رام ‘‘کے نعرے لگائے ذرا سوچو اس ملک کا مستقبل کیسا ہو گا۔‘‘

کاٹجوسپریم کورٹ آف انڈیا کے سابق جج ہونے کے علاوہ دہلی اور مدراس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی رہ چکے ہیں اور اپنے بے باک خیالات و بیانات کی بنا پر بہت مشہور ہیں۔

بھارت کے غیر جانب دار حلقوں کے بقول یہ شرمناک حرکت ایک منصوبے کے تحت مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے مسلمان خانہ بدوش چرواہوں کوڈرانے کے لیے کی گئی تاکہ وہ اس علاقے سے ہمیشہ کے لیے کوچ کر جائیں۔ اس میں یہ بات بھی پوشیدہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی بھارت کو ایک ایسی ریاست بنانے کے خواب دیکھ رہی ہے جہاں ہندوؤں کے علاوہ کسی اور مذہب، ذات یا نسل کو رہنے کا کوئی حق نہ ہو مگر یہ اس لیے ممکن نہیں کہ بھارت میں صرف بنیاد پرست ہندو نہیں بلکہ بہت سارے مذاہب، ذاتیں اور قبیلے صدیوں سے آباد چلے آ رہے ہیں۔

آصفہ کے ساتھ پیش آنے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ مختلف مذاہب، فرقوں اور نسلوں کے ساتھ ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے لاکھوں روشن خیال خواتین و حضرات بھی شامل ہیں۔

اس بربریت کے خلاف جسٹس کاٹجو جیسے غیر جانبدار اور پڑھے لکھے افراد بھی چیخ چیخ کر احتجاج کر رہے ہیں، بیرون ملک مقیم سکھوں اور ہندوؤںکی سماجی تنظیمیں بھی مودی حکومت کے خلاف احتجاجی میدان میں کود پڑی ہیں اور بنیاد پرست ہندو تنظیموں کی مدد سے بننے والی حکومت پر جس طرح لعن طعن ہو رہی ہے وہ اس سے پہلے کم ہی دیکھنے میں آئی تھی۔

آصفہ کے ساتھ ہونے والے ظلم کو بے نقاب کرنے اور ملزمان کو گرفتار کرنے والے ایس ایس پی رمیش جلاکا تعلق مقبوضہ کشمیر میں آباد ہندو پنڈتوں کی ذات سے ہے جنھیں اس کیس کی تفتیش کے دوران روزانہ دھمکیاں ملتی رہیں، مگر اس کے باوجود انھوں نے مضبوط شواہد جمع کرنے کے بعد ملزمان کو انتہائی بہادری سے گرفتار کر لیا۔

مقدمے کی پیروی کرنے والی وکیل دیپکا سنگھ رجاوت کی جان بھی سخت خطرے میں ہے اور انھیں بھی مسلسل دھمکیوں کا سامنا ہے۔ دیپکا کا کہنا ہے کہ مجھے قتل بھی کیا جا سکتا ہے مگر میں ہر حال میں متاثرہ خاندان کو انصاف دلا کر رہوں گی۔

ساؤتھ ایشیاء میں کم عمر بچوں کے ساتھ زیادتی کے جو واقعات پیش آرہے ہیں ان میں ہمارے ملک کا ریکارڈ بھی ہر گز قابل ستائش نہیں بلکہ قصور، جڑانوالہ اور ملک کے دوسرے حصوں میں بچوں کے ساتھ پیش آنے والے خوف ناک واقعات کے بارے میں سوچ کر ہمارا سر شرم سے جھک جاتا ہے مگر مقبوضہ کشمیر میں پیش آنے والے اس واقعے نے جہاں پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے وہاں یہ سوال بھی زیادہ شدت سے سامنے آیا ہے کہ کسی ملک میں رہنے والی کوئی نہتی اقلیتی برادی اگر اپنے خلاف ہونے والے مظالم سے تنگ آکر آزادی کا تقاضہ کرتی ہے تواس پر بہیمانہ تشدد اور اس کے نابالغ بچوں کو درندگی کا نشانہ بنانا کہاں کا انصاف ہے۔

یاد رہے کہ تشدد سے نہ توآزادی کی تحریکیں رکتی ہیں اور نہ ہی سماجی و سیاسی مسائل حل ہوتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔