کمزور پارلیمنٹ

جاوید قاضی  جمعرات 19 اپريل 2018
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

ہماری جمہوریت اپنے ارتقائی مراحل کا سفر طے کر تو رہی ہے مگر قدرے سست رفتاری کے ساتھ۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں جو ہم نے پہلے کسی اور زاویے سے لکھی بھی ہونگی۔ مگر بنیادی حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت خود، جمہوریت کے لیے رکاوٹ ہے وہ اس لیے کہ جمہوریت لوگوں سے وجود میں آتی ہے، لوگوں کا معیار زندگی، معاشی، ثقاتی، تاریخی قدریں اور حقائق جمہوریت کے سفر کو مکمل کرتے ہیں۔

1973ء میں ہم نے آئین تو بنایا، اس سے پہلے بھی آئین بنے تھے مگر برقرار نہ رہ سکے ٹوٹ گئے۔ 1973ء کا آئین ٹوٹا نہیں لیکن اس کی روح کو تار تار ضرور کیاگیا۔ دو مارشل لاء اس پر اوپر لاگو کیے گئے اور نظریہ ضرورت بھی اس کی راہ میں رکاوٹ بنا رہا۔

نظریہ ضرورت بھی کئی اتار چڑھاؤ کا شکار رہا، اور یہ بھی ضروری نہیں کہ جو کام ماورائے آئین ہوں اس پر مہر لگائی جائے لیکن اس کو بھی Separation of ower  کہیئے یا یوں کہیئے کہ اداروں کے بیچ جو سرحدیں ہیں وہ کچھ گڈ مڈ ہوئی ہیں یہ ظاہر کیے بغیر کہ وہ ایسا کر رہے ہیں۔

نظریہ ضرورت اور Judicial activism  بھی عدلیہ کا ایک ہتھیار ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دونوں مظاہر کہاں سے وارد ہوتے ہیں؟ جب پارلیمنٹ کمزور ہوتی ہے تو وہ کورٹ کو بھی کمزور بنا دیتی ہے اور اگر پارلیمنٹ مضبوط ہے تو وہ کورٹ کو بھی مضبوط بناتی ہے۔ وگرنہ عدالت نظریہ ضرورت کی طرف ہی رخ کرتی ہے۔

ہندوستان کی جمہوریت میں یہ سوال سرے سے اٹھایا ہی نہیں گیا کہ سول قیادت کے سامنے عسکری قیادت کھڑی ہوجائے،کیونکہ وہاں ایسا کوئی خلاء ہی نہیں رہا اور نہ ہی ہندوستان کی خارجہ پالیسی اپنے ابتدائی دنوں میں ہماری خارجہ پالیسی جیسی تھی جس سے خارجی طاقتیں ہندوستان کے اندر اپنا اثر رسوخ پیدا کر سکیں۔

اس دور میں سرد جنگ کے بھی کچھ تقاضے تھے اور پاکستان تاریخی اعتبار سے کئی اکائیوں کا مجموعہ تھا، جمہوریت کے ناپید ہونے کی وجہ سے ان اکائیوں میں تضادات پیدا ہوئے۔ اقتدار سول سیاسی قیادت سے منتقل ہوا سول بیوروکریسی کی طرف اور پھر ملٹری بیوروکریسی کی طرف اور یوں ان حالات میں خارجی قوتوں یعنیٰ امریکی سامراجیت نے اپنا اثر رسوخ پاکستان میں مضبوط کیا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ یہی جمہوریت ہے، جو اس ملک کے آگے نکلنے کی راہیں ہموار کرتی ہے خواہ وہ کتنی ہی کمزور ہو۔ جمہوریت میں صرف پارلیمنٹ نہیں ہوتی ، جمہوریت وہ ہی ہے جوآئین میں وضع کی گئی ہو۔ یعنی trichotomy of Power  آئین کی رو سے تین بڑے پاور ہیں جو اپنی نوعیت میں چھوٹے یا بڑے نہیں ہوتے بلکہ برابر کی حیثیت رکھتے ہیں۔

ان تین پاورز کے اپنے اپنے وضع کیے ہوئے اختیارات اور ذمے داریاں ہیں۔ مگر پارلیمنٹ کی افادیت سب سے منفرد اور بہت اہمیت کی حامل ہے وہ اپنی طاقت لوگوں سے ڈرائیو کرتی ہے لیکن اگر لوگ مضبوط نہ ہوں تو ان سے وجود میں آئی پارلیمنٹ بھی کمزور ہوتی ہے، لوگ کس طرح کمزور ہوتے ہیں یا کیسے طاقتور ہوسکتے ہیں؟ یہ کہنا بہت غلط ہوگا کہ عوام ناخواندگی کے باعث اپنے لیڈروں کا صحیح چناؤ نہیں کرسکتے۔

اگر ہماری سوچ اس حد تک محدود ہوچکی ہے تو ہم خود دعوت دیتے ہیں ان نااہل لوگوں کو کہ وہ اقتدار پر قبضہ کریں۔ اس کے برعکس فطری حقیقت کیا ہے وہ یہ کہ ہمارا معاشرہ دیہی اور شہری تضادات کے علاوہ قبائلی، روایتی اور پنچائتی دھڑوں میں بٹا ہوا ہے اور ہماری پارلیمنٹ یا پارلیمنٹ کے ممبران اسی اٹل حقیقت کا عکس ہیں۔ یہ صورتحال کسی حد تک بہتر بھی ہوئی ہے۔لوگ اپنے ووٹ کا استعمال اب بیانیہ کی بنیاد پر کرنے لگے ہیں۔ مگر اب بھی بہت سے ممبران پارلیمنٹ روایتی طور پر پارلیمنٹ کے اندر موجود ہیں۔

مارچ 2007ء کی وکلاء تحریک، عدلیہ کی آزادی کے لیے تھی، اس کا ہدف دراصل ملک کے اندر موجود آمریت تھا۔ پارلیمنٹ اس وقت بھی تھی مگر ایک آمر کے ساتھ کھڑی تھی اورجو حقیقی پارلیمنٹ کے لیڈر تھے وہ اسوقت جلاوطن تھے۔ ملک کے اندر ان کی موجود جمہوری قوتیں مضبوط نہ تھیں ۔ لہذا یہ خلاء وکیلوں نے پر کیا اور ایک آمر کے خلاف آواز بلند کی، جب آمریت ملک سے رخصت ہوئی تو عدلیہ کا کیا کردار رہا؟

عدالت نے پارلیمنٹ کو کمزور بنایا۔ عدلیہ کو سمجہ ہی نہ آئی کہ پارلیمنٹ کو کمزور بنا کر عدلیہ خود کو کمزور بنا رہی ہے۔ عدلیہ تب آزاد ہوگی جب پارلیمنٹ مضبوط ہوگی اور پارلیمنٹ تب مضبوط ہوگی جب لوگ اپنے روایتی رویوں سے باہر نکلیں گے۔

اتنے بڑے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو ہمیں ملے مگر ان کی بھی آدھی طاقت روایتی لوگ تھے۔ یہی ماجرہ میاں صاحب کا بھی ہے۔ زرداری صاحب اپنے بارے میں بہ خوبی جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے انھوں نے ٹکراؤ کی سیاست کو ترک کیا۔ لیکن اس سیاست میں شاید یہ بدنصیبی کی بات ہوگی کہ ان کی جمہوری پارٹی آگے کے جمہوری سفر میں حصہ نہ لے سکے گی، وہ پارٹی جو کہ جمہوریت کی علمبردار تھی اور اس کو یہ حیثیت بھٹو نے دی تھی۔بھٹو بھی خود کہاں سے آئے تھے، وہ بھی ریاست اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے تھے جب شیخ مجیب وفاقی جمہوریت کی جنگ لڑ رہے تھے اور جب شیخ مجیب رخصت ہوئے تو وہ خلاء پاکستان میں NAP نے پر کیا۔

بھٹو کو یہ بات سمجھ ہی نہ آئی کہ وہ NAP  کو ختم کر کے اپنے آپ کو کمزور کر رہے ہیں۔ پھر بھٹو کی باری آئی اور پھر بینظیر باپ کی تحریک کی وارث بنی ، اس وقت نواز شریف صاحب اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے تھے جس طرح بھٹو ستر کی دہائی میں تھے۔ یہ سب کیا ماجرہ تھا، دراصل یہ پارلیمان کے اندر پارلیمنٹ کا جھگڑا تھا وہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارتے رہے۔ پہلے جو کام چھوٹے صوبوں کی قیادتیں کرتی تھیں آج نواز شریف اور سینٹرل پنجاب کررہا ہے۔

جب پارلیمنٹ کمزور ہوتی ہے تو سنجیدہ اور مخاصمانہ جھگڑے نہیں کیے جاتے۔ ہم نے ایک سنہری موقعہ گنوایا۔ چلو مان لیجیے کہ شیخ مجیب ناقابل قبول تھے مگر بھٹو تو اپنے ہی تھے۔ بھٹو کو داخلی طور پر کوئی بڑا چیلنج بھی نہ تھا جیسا کہ شیخ مجیب نے سامنا کیا۔ بس ذوالفقار علی بھٹو کا جنوں یہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو سردجنگ کے پس منظر میں ایک بڑا لیڈر ظاہر کرنا چاہتے تھے جیسے کہ جمال ناصر یا یاسر عرفات۔ اس جنوں میں وہ امریکا سے ٹکرا گئے۔ پاکستا ن کی جمہوریت شاید اور بھی مضبو ط ہو تی اگر ذوالفقار علی بھٹو اسطرح امریکا سے نہ ٹکراتے۔ میاں صاحب کا معاملہ بھی اسی حوالے سے شیخ مجیب سے ملتا ہے کہ ان کا ٹکراؤ بھی خارجی نہیں بلکہ داخلی چیلجنز سے ہے۔

مختصر یہ کہ یہ تمام تضادات پارلیمنٹ کے اندر کے تضادات ہیں اور ان تضادات کو ہموار کرنے کے لیے ایک دروازہ ضرورکھولا گیا تھا ، وہ تھا چارٹرڈاف ڈیموکریسی ۔ اس چارٹر کے تحت تمام ممبران پارلیمنٹ نے یہ حلف لیا تھا کہ وہ اپنے ذاتی تضادات میں اس حد تک نہیں جائینگے کہ اس کا فائدہ کوئی تیسری قوت اٹھا سکے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ چارٹر بھی فیل ہوا اور اس کو توڑنے والے بھی میاں نواز شریف تھے۔ اس تمام تجزیے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہماری پارلیمنٹ اب بھی بہت کمزور ہے اور ہمارے ممبران پارلیمنٹ اپنے ذاتی تضادات میں اس حد تک دور چلے گئے کہ جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی ہوتی چلی گئیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔