ملالہ سے وابستہ غلط فہمیاں اور حقائق

ملک رمضان اسراء  جمعرات 19 اپريل 2018
ملالہ یوسفزئی کی پاکستان آمد کے موقعے پر بلاگر ملک رمضان اسراء کی ملالہ یوسفزئی کے ساتھ ایک یادگار تصویر۔ (بشکریہ: بلاگر)

ملالہ یوسفزئی کی پاکستان آمد کے موقعے پر بلاگر ملک رمضان اسراء کی ملالہ یوسفزئی کے ساتھ ایک یادگار تصویر۔ (بشکریہ: بلاگر)

انتہائی افسوس اور دکھ کا مقام ہے کہ وطن عزیز کا پڑھا لکھا طبقہ بھی اب تک جہالت کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ تبھی تو ہمارا نوجوان سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی خودساختہ اور بےبنیاد جعلی خبروں پر یقین کرتے ہوئے انہیں آگے پھیلانے کی جستجو لیے، برضا و رغبت اس گناہ کبیرہ کا حصہ بن رہا ہے جس کی اسلام میں بھی ممانعت ہے۔

جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’(لوگوں کےبارےمیں) اچھا گمان رکھنا، بہترین عبادتوں میں سے ایک ہے۔‘‘ (بحوالہ: ابوداؤد، عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ)

ایک اور حدیث میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ’’جب مجھے معراج ہوئی تو (اس سفر میں) میرا گزر کچھ ایسے لوگوں پر ہوا جن کے ناخن سرخ تانبے کے سے تھے جن سے وہ اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ نوچ کر زخمی کر رہے تھے۔ میں نے جبرائیل سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں جو ایسے سخت عذاب میں مبتلا ہیں۔ جبرائیل نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو زندگی میں لوگوں کے گوشت کھایا کرتے تھے (یعنی اللہ کے بندوں کی غیبتیں کیا کرتے تھے حتی کہ ان پر جھوٹی تہمتیں بھی لگایا کرتے) اور ان کی آبروؤں سے کھیلتے تھے۔‘‘ (بحوالہ: سنن ابی داؤد)

بدقسمتی سے ہم تو وہ مسلمان ہیں جو حضور نبی کریمﷺ کے نام سے، رحمت اللعالمین سے منسوب کرکے، جھوٹی گستاخیاں جوڑ کر لوگوں کی زندگیاں زحمت بنا دیتے ہیں اور دانستہ یا نادانستہ طور پر ثابت کرتے ہیں کہ اسلام امن، محبت، بھائی چارے اور عفو و درگزر کا مذہب نہیں بلکہ (نعوذ باللہ) قتل و غارت اور دہشت گردی کا نام ہے۔ بالآخر پھر جب کوئی شخص اپنے ملک و مذہب سے منسوب کی جانے والی غلط چیزوں کے خلاف کھڑا ہوکر روشن چہرہ دکھانے کی کوشش میں دنیا کو یہ بتاتا ہے کہ ہم امن چاہتے ہیں اور ہمارے دین میں صبر و استقامت، امن، محبت، سلامتی اور بھائی چارے کے ساتھ ساتھ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، وہ کیسے دہشت گردی وغیرہ کی ترغیب دے سکتا ہے؟ جو مذہب فضول پانی بہانے تک کی ممانعت کرتا ہو، بھلا وہ کسی کا خون بہانے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟

دین کے نام نہاد ٹھیکیدار حقیقی معنوں میں ہمارے مذہب کو بدنام کررہے ہیں جن کے خلاف بولنے کی پاداش میں موت کو گلے لگانا پڑ جاتا ہے۔ اگر کوئی معجزاتی طور پر بچ جائے، جس کے بعد پوری دنیا اس کی بہادری کے اعتراف میں انعامات کے ذریعے اس کی حوصلہ افزائی کرے، تو علم سے خائف اور عقل سے عاری طبقہ بیہودہ الزامات لگانا شروع کردیتا ہے تاکہ اس شخص کو عوام میں متنازعہ بنادیا جائے جس نے دنیا بھر میں پاکستان کا خوبصورت اور روشن چہرہ سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔

لیکن یہاں پر میں جھوٹے الزامات لگانے والوں سے خفا نہیں کیونکہ ان کا یہی کام ہے۔ مجھے دکھ تو اپنی اس نئی نسل پر ہے جو مجال ہے کہ ذرّہ برابر بھی تحقیق کی زحمت کرلے کہ آیا پھیلایا جانے والا مواد سچ کے ترازو پر کھرا اترتا بھی ہے یا نہیں؟

اسی طرح صحافت جیسے عظیم اور مقدس پیشے میں بھی کالی بھیڑوں کی کمی نہیں۔ جن کےلیے صحافت مقدس نہیں بلکہ صرف ایک پیشہ ہے اور ایسے قلم فروش و پیشہ ور شعبہ صحافت میں ایک ناسور ہیں جن میں کچھ حضرات کا تو یہ معیار ہے کہ اگر آج آپ کسی نام نہاد صحافی کی کال نہ اٹھائیں، چاہے وہ کسی مجبوری یا مصروفیات کی وجہ ہی سے کیوں نہ ہو، تو کل کے اخبار میں آپ کے خلاف ایک عدد کالم یا آپ کی شخصیت کے مطابق خبر لگی ہوگی۔ اگر آپ بہت مشہور ہیں تو پھر سپر لیڈ کی توقع رکھیے وگرنہ دو یا تین کالمی خبر تو ضرور ہوگی۔ اب یہاں پر قارئین کو چاہیے کہ خود بھی اس کی چھان بین کرلیں کہ یہ کتنا سچ ہے؟

اب آتے ہیں اصل موضوع کی جانب۔ ملالہ یوسفزئی کی تعلیمی کاوشوں کی دنیا بھر میں پذیرائی ہوتی ہے، لیکن اگر نہیں ہوتی تو وہ ہے ان کا اپنا دیس پاکستان جہاں چند افراد شاید نہیں چاہتے کہ ہمارے بچے بھی علم حاصل کرکے دنیا جہان میں پاکستان کا نام روشن کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان کی ایجوکیشن کمپین سے خائف ہیں اور انہوں نے اس بغض میں حقائق کو اس قدر غلط انداز سے پیش کیا کہ ایک معصوم بچی کے خلاف پورا ایک طبقہ تیار کرلیا جو آئے روز کہتا تھا کہ یہ اب کبھی بھی وطن واپس نہیں آسکتی۔ لیکن اس جھوٹ سے بھرے غبارے کی ہوا اس وقت نکل گئی جب ملالہ یوسفزئی اپنے خاندان سمیت چار روزہ دورے پر پاکستان واپس پہنچی۔

اس وقت یقین ہی نہیں ہورہا تھا کہ انہیں اس قدر حوصلہ افزائی اور پیار ملے گا کیونکہ یہ سب اس سوشل میڈیا پر چلنے والی ملالہ مخالف کمپین کے برعکس تھا۔ لیکن پھر بھی کچھ لوگ بجائے ندامت اور خوش آمدید کہنے کے، اس معصوم بچی کو نہ بخشتے ہوئے، من گھڑت الزامات لگاتے رہے۔ اب ان الزامات کی حقیقت بھی جان لیجیے۔

’’14 اگست 1997 یوم آزادی کے دن پاکستان کے 50 سال مکمل ہونے پر ملالہ یوسفزئی کے والد نے سیاہ پٹی باندھ کر یوم سیاہ منایا (مہذب معاشروں میں احتجاج کرنے کا اصولی طریقہ بھی یہی ہے نہ کہ ہماری طرح جلاؤ گھیراؤ کرکے اپنے ہاتھ سے اپنے ہی ملک کے لوگوں کا نقصان کرڈالیں) جس پر انہیں جیل کے ساتھ جرمانہ ہوا۔‘‘

الزامات لگانے والے اصل حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ خاندان اس بنیاد پر اینٹی پاکستان ہے۔ لیکن اس کے اصل محرکات کوئی بھی بیان نہیں کرتا۔ درحقیقت ضیاء الدین یوسفزئی کے دوست احسان الحق حقانی نے، جو ایک معروف صحافی اور اب بھی پاکستان میں رہائش پذیر ہیں، اس روز ایک احتجاجی کیمپ منعقد کیا جس کا مقصد اس وقت کی حکومت پر اپنے حقوق کےلیے دباؤ ڈالنا تھا کیونکہ ان دنوں ناقص سہولیاتِ صحت کے باعث کئی بچے موت کی نذر ہوگئے تھے، اور بچوں کی تعلیم تو بالکل بھی نہیں تھی۔ اس کے ساتھ بھوک، افلاس و بیروزگاری عروج پر تھی جس کی وجہ سے انہوں نے حقانی کے حکومت مخالف احتجاجی کیمپ میں شرکت کرکے احتجاجاً سیاہ پٹیاں باندھی تھیں کیونکہ یہ اپنے آئینی حقوق کے حصول کےلیے جدوجہد کررہے تھے۔ تاہم اس وقت کے اسسٹنٹ کمشنر، مقامی پولیس کے ہمراہ ان کے کیمپ میں تشریف لائے اور انہیں منتیں کرکے تھانے لے گئے تاکہ جشن آزادی کے جلوس میں سے کوئی شخص انہیں نقصان نہ پہنچادے۔ بعدازاں باعزت طریقے سے واپس چھوڑ دیا گیا لیکن جیل جانے اور جرمانہ کرنے والی بات محض ایک جھوٹ ہے۔

ایک اور سفید جھوٹ یہ بھی ہے کہ ضیاء الدین یوسفزئی نے ملعون سلمان رشدی کی تصنیف ’’شیطانی آیات‘‘ (سیٹینک ورسز) کو آزادی اظہار کہا تھا جو بالکل ہی غلط اور بے بنیاد بات ہے کیونکہ انہوں نے ایسا کبھی نہیں کہا۔ حقیقت جاننے کےلیے کتاب ’’میں ہوں ملالہ‘‘ (صفحہ نمبر 67/68) ضرور پڑھ لیجیے گا۔

1989 میں جب سلمان رشدی کی تصنیف ’’شیطانی آیات‘‘ کے خلاف مظاہرے زور شور پر تھے تو ضیاء الدین یوسفزئی جس کالج میں زیرتعلیم تھے اس میں کھچاکھچ بھرے ہوئے کمرے میں گرما گرم مباحثہ منعقد ہوا اور بہت سے طالب علموں کا خیال تھا کہ کتاب پر پابندی لگنی چاہیے اور اسے جلادینا چاہیے۔ اب غور طلب بات یہ ہے کہ خود ضیاء الدین یوسفزئی کا نقطہ نظر بھی کتاب سے متعلق یہی تھا کہ یہ اسلام کےلیے موجب دل آزاری ہے، لیکن انہوں نے اضافی طور پر ایک تجویز بھی پیش کی اور کہا: ’’اول تو یہ کتاب ہمیں پڑھنی چاہیے اور پھر کیوں نہ ہم اس کے جواب میں اپنی کتاب لکھیں۔‘‘ یعنی علم کا جواب علم سے دینا چاہیے اور آئین و قانون کے تحت سب کچھ کرنا چاہیے نہ کہ ہم اپنی ہی عوام کو تکلیف میں ڈال کر اپنی ہی املاک کو نقصان پہنچائیں۔ پھر آخر میں ایک خوبصورت بات کہی: ’’کیا ہمارا دین اسلام اتنا کمزور مذہب ہے کہ اپنے خلاف ایک کتاب برداشت نہیں کرسکتا۔ نہیں، میرا اسلام ایسا نہیں!‘‘ درحقیقت یہ بات کہنے کا مقصد یہ تھا کہ اس وقت طالب علم شدید اشتعال میں تھے اور وہ کچھ بھی کر گرزتے جس سے صرف اور صرف اپنا ہی نقصان ہوتا۔

واضح رہے کہ جب ایک انگریز ولیم مور نے، جو مشترکہ پنجاب کا گورنر تھا، ’’دی لائف آف محمد‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تو اس کے جواب میں سرسید احمد خان نے بھی ’’خطبات احمدیہ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی جس میں اس کی دشنام طرازیوں کا تفصیل سے جواب دیا گیا تھا۔

جولائی 2009 میں امریکا کی طرف سے افغانستان اور پاکستان کےلیے مقرر کردہ نمائندہ خصوصی رچرڈ ہال بروک، سیرینہ ہوٹل اسلام آباد میں وزیرستان اور سوات سے تعلق رکھنے والے آئی ڈی پیز سمیت کچھ سول سوسائٹی کے لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں جن میں ملالہ اور ان کے والد کو بھی امتیاز نامی (صحافی) دوست بلوا لیتا ہے کیونکہ وہ ان کے دفتر میں کام کرتا تھا۔ یہ ملاقات کوئی چوری چھپے نہیں ہوئی تھی بلکہ اس میں بہت سارے لوگ موجود تھے۔ لیکن ہمارے کچھ کم ظرف لوگوں نے اس ملاقات کی ایک تصویر نکالی اور ملالہ فوبیا میں آکر جھوٹ کی انتہاء کرتے ہوئے اس میں موجود سماجی خاتون شاد بیگم کو ملالہ کی والدہ یعنی تورپکئی قرار دے دیا اور رچرڈ ہال بروک کو سی آئی اے کا ایجنٹ قرار دیتے ہوئے عام لوگوں میں یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی کہ جیسے ملالہ خاندان پہلے سے سی آئی اے سے ملا ہوا تھا۔ یہ وہ جھوٹ ہے جس کے نہ ہاتھ ہیں اور نہ ہی پاؤں۔ اس کی حقیقت جاننے کےلیے میٹنگ میں شریک شاد بیگم سمیت متعدد لوگوں سے میں نے بذاتِ خود رابطے کیے جن سے معلوم ہوا کہ یہ ملاقات بہت سارے لوگوں کی موجودگی میں ایک ساتھ ہوئی نہ کہ بطور خاص ملالہ سے، کیونکہ وہ تو انہیں ملاقات سے قبل جانتے تک نہیں تھے۔ یاد رکھیے کہ رچرڈ ہال بروک وہ انسان تھے جنہوں نے بوسنیا کی جنگ کی روک تھام میں مسلمانوں کےلیے ایک مثالی کردار ادا کیا تھا۔ اگر یقین نہ آئے تو تاریخ کا مطالعہ کرلیجیے۔

ایک اور بےبنیاد پروپیگنڈہ یہ ہے کہ ملالہ یوسفزئی، تسلیمہ نسرین (ملعونہ) کی موجودگی میں سلمان رشدی (ملعون) سے ایوارڈ وصول کر رہی ہے جبکہ اس کی حقیقت بھی کچھ اور ہے۔ سخاروف ایوارڈ کےلیے ملالہ کو بلایا جاتا ہے جس میں تسلیمہ نسرین بھی موجود ہے۔ کیونکہ جس طرح ماضی کے انعام یافتہ لوگوں کو نوبیل امن ایوارڈ کی تقریب میں ہر سال بلایا جاتا ہے، اسی طرح انہیں بھی بلایا گیا تھا لیکن ملالہ اس سے قبل اس موصوفہ کو جانتی تک نہیں تھی اور نہ ہی اب کوئی ان سے تعلق یا واسطہ ہے۔ ملالہ کے ساتھ اس تقریب میں کھڑا شخص سلمان رشدی نہیں بلکہ یورپین پارلیمنٹ کا صدر مارٹن شولز ہے جسے ایوارڈ دینے کےلیے بطور خاص بلایا گیا تھا۔

جو عقل کے اندھے ملالہ یوسفزئی اور تسلیمہ نسرین کو ایک جیسا سمجھتے ہیں، وہ ذرا ان دونوں کے نظریات کو بھی سمجھ لیں کیونکہ جب گل مکئی نے ایک تقریب کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کیا تو اس پر تنقید کرتے ہوئے تسلیمہ نسرین نے جو ٹویٹ کی تھی، وہ بھی دیکھ لیجیے اور اسی کے ساتھ اس موصوفہ نے ملالہ کے نام کھلا خط بھی لکھا تھا وہ بھی پڑھ لیجیے، جس کا جواب نہیں دیا گیا کیونکہ ملالہ سمجھتی ہے کہ کسی بھی مذہب کی توہین درحقیقت اپنی ذات کی توہین کرنا ہے اور یہ کسی صورت آزادی اظہار نہیں کہ آپ ان لوگوں کی دل آزاری کریں جو اپنے عقیدے کو دل و جان سے چاہتے ہیں۔ لہذا ہمیں اپنے سمیت دوسروں کے مذہب کا بھی احترام کرنا چاہیے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ملالہ ایک عالم دین کی پوتی کی نسبت سے اللہ اور اس کے رسولﷺ پر مکمل ایمان رکھتی ہے جبکہ وہ اس کی رائے کے بالکل یکسر برعکس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تسلیمہ نسرین، ملالہ یوسفزئی کے دوپٹہ اوڑھنے تک پر تنقید کرتی ہے۔

ملالہ نے یہ کیوں نہیں کیا ملالہ نے وہ کیوں نہیں کیا؟ مطلب اِس مسئلے پر، اُس مسئلے پر آواز کیوں نہیں اٹھائی؟ ایسے بلاجواز سوالات اٹھانے والوں کے عرض خدمت ہے کہ کیا آپ نے انہیں ووٹ دے کر نوبیل پرائز دلوایا ہے یا پھر یو این اسمبلی کا سفیر مقرر کرایا ہے؟ اس وقت ان کا کام ہے بچوں کی تعلیم پر توانا آواز اٹھانا اور اس بارے دنیا کو متوجہ کرنا۔ سیانے بھی تو کہتے ہیں کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔

باقی رہی بات دوسرے مسائل کی جیسے مسئلہ کشمیر، میانمار اور فلسطین وغیرہ تو ان پر بھی پس پردہ بحث ہوتی لیکن ہاں، وہ ہماری طرح فارغ بیٹھی ہوئی شعبدہ باز نہیں جو ہر بات کا ذکر سوشل میڈیا پر کرے کیونکہ وہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ملالہ فنڈ کی مدد سے شام اور نائجیریا جیسے ممالک میں بچوں کی تعلیم کےلیے کام کررہی ہے۔ ان میں اور ہم میں فرق صرف یہ ہے کہ وہ دکھاوا نہیں بلکہ عملاً کام کرتی ہیں۔

لوگ بغیر تحقیق کے یہ افواہ پھیلا دیتے ہیں کہ ملالہ کے ساتھ زخمی ہونے والی دو بچیاں شازیہ رمضان اور کائنات ریاض اس وقت بھی پاکستان میں زیر تعلیم ہیں۔ اس حقیقت کو جاننے کےلیے میں نے شازیہ سے خود رابطہ کیا اور پھر دونوں کے بارے پوچھا کہ آپ اس وقت کہاں پڑھ رہی ہیں؟ اس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ جب ہم پر حملہ ہوا تھا تو چونکہ ملالہ سر میں گولی لگنے سے زیادہ زخمی ہوگئی تھیں تو انہیں علاج کےلیے برمنگھم بھیجا گیا تاہم بعد میں ان کے والد ضیاءالدین یوسفزئی نے ہمیں بھی برطانیہ بلا لیا اور اس وقت ہم ایڈنبرا میں پڑھ رہی ہیں، اور یہ سب کچھ ملالہ خاندان کی بدولت حاصل ہوا؛ اور یہاں پر ہم ایک خاندان کی طرح ہیں اور وہ ہمارا بہت ہی زیادہ خیال رکھتے ہیں۔

اس کے علاوہ ایک اور بہت ہی غیر شائستہ کام یہ ہے کہ کچھ بغض کے مارے نفسیاتی جہلاء، ملالہ یوسفزئی اور اے پی ایس میں زخمی ہونے والے دو بچوں احمد نواز اور ولید خان کی تصویریں پیش کرکے موازنہ کرتے ہیں کہ ہماری ہیرو ملالہ نہیں بلکہ یہ دو بچے ہیں۔ یقیناً اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ یہ بچے ہمارے ہیرو ہیں لیکن یہاں یہ جاننا انتہائی ضروری ہے کہ یہ بچے کہاں رہائش پذیر ہیں اور تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ تو ایسے لوگوں کےلیے عرض ہے کہ یہ نوجوان بھی برمنگھم میں مقیم ہیں اور ملالہ خاندان ان کے ساتھ بھی مکمل تعاون کررہا ہے جبکہ ہماری وفاقی حکومت نے تو ان کا حال تک نہیں پوچھا۔ لہذا ملالہ اور ان کے درمیان موازنہ تو بنتا ہی نہیں کیونکہ ان بچوں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ایک حادثہ تھا جبکہ ملالہ یوسفزئی کو بطور خاص ان کی ایجوکیشن کمپین کے حوالے سے متحرک ہونے کے سبب ٹارگٹ کیا گیا تھا۔ لہذا کسی کے بغض میں دوسرے کو مدمقابل ٹھہرا کر انہیں کمزور ثابت کرنا، میرے خیال میں یہ ان دونوں کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہوگی کیونکہ انکی تعلیم سے متعلق اپنی اپنی قربانیاں ہیں جنہیں سراہنا چاہیے۔

اور ملالہ تو خراج تحسین کی زیادہ مستحق ہے کہ وہ احمد اور ولید کو بھی اپنے ساتھ لے کر نہ صرف چل رہی ہے بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کررہی ہے۔ ملالہ کو تو مارا ہی اسی وجہ سے گیا تھا کہ وہ تن تنہا بچیوں کے حقوقِ حصولِ تعلیم کی خاطر کھڑی ہوگئی تھی جس میں اس کے والد کا بہت اہم اور بہترین کردار ہے۔

یقین نہ آئے تو یہ تازہ ترین ویڈیو اور تصویر ملاحظہ کیجیے جس میں ولید خان نہ صرف اپنا تعارف خود کرا رہے ہیں بلکہ یوکے یوتھ پارلیمنٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان بھی کررہے ہیں:

اسی طرح ایک اور اعتراض یہ ہوتا ہے کہ اس ملک میں باقی بھی بہت سارے لوگ ہیں، صرف ملالہ ہی کیوں؟ چلیے اب آپ یہ بھی بتادیجیے کہ پاکستان بنانے میں لاتعداد لوگوں کی جدوجہد اور قربانیاں تھیں لیکن ہمیں صرف قائداعظم محمد علی جناحؒ ہی کیوں یاد ہیں؟ بھارت کے ساتھ 1965 کی جنگ میں بےشمار نوجوانوں نے قربانیاں دی تھیں لیکن نشان حیدر کے مستحق میجر راجہ عزیز بھٹی ہی قرار پائے۔ ان کے علاوہ شاید ہی کوئی اور شہید یا غازی ہمیں یاد ہو، ایسا کیوں؟ ذرا عقل سے کام لیجیے، مفروضوں پر کان نہ دھریئے۔ کسی بھی میدان میں اچھا نام بنانے والوں سے اختلاف رائے کا اظہار آپ کا آئینی حق ہے لیکن ان کے اچھے کام پر انہیں داد بھی دیجیے کیونکہ یہ آپ ہی کا بہتر اور روشن مستقبل ہیں۔

باقی رہی ملالہ کو غدار کہنے والی بات، تو وہ ہر اس محب وطن پاکستانی کو کہا گیا جس نے عام اور غریب عوام کے حقوق کی بات کی۔ علامہ اقبالؒ سے لے کر قائداعظم محمد علی جناحؒ اور مادر ملت فاطمہ جناحؒ سمیت، کئیوں کو گستاخ اور غدار کہا گیا۔

ان تمام ہیروز کی مثال دینے کا مقصد ہرگز تشبیہ دینا نہیں بلکہ کچھ نادانوں کو یہ بتانا مقصود ہےکہ ہر بندہ اپنی جدوجہد میں بہترین کارکردگی کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے اور پھر جاکر وہ مقام و مرتبہ حاصل کرتا ہے۔ غلط معلومات سے ہمیشہ غلط رائے ہی بنتی ہے۔ خدارا جھوٹ کو رد کیجیے اور صحیح رائے قائم کرنے کےلیے حقیقت کی کھوج لگائیے تاکہ آپ کسی سے متعلق غلط نہیں بلکہ ایک صحیح رائے بناسکیں۔

اگر اب بھی آپ ملالہ پر حملے کو ایک ڈراما سمجھتے ہیں تو پھر یہ بھی کہہ دیجیے کہ اس ڈرامے میں ہماری سول حکومت سمیت فوج بھی شریک تھی جس نے زخمی ملالہ کو نہ صرف ریسکیو کیا بلکہ بروقت طبی امداد بھی دی۔ کیا آپ میں سے کوئی شخص اپنی بچی کے ساتھ مل کر مجھے اس طرح کا ڈراما کرکے دکھا سکتا ہے؟ بڑے مقصد کےلیے زخم کھانا بڑے نصیب والوں کو ملتا ہے؛ اور جو طبقہ زمینی حقائق کو نظرانداز کرکے ایسے لوگوں پر جھوٹے اور بےبنیاد اعتراضات کرتے ہوئے، ان کے زخموں پر مرچیں ڈال کر، ان کا مذاق اڑاتا ہے تو ایسے لوگوں کو ہم بدنصیب ہی کہہ سکتے ہیں… اور ایسے بدنصیبوں کےلیے تو صرف ہدایت کی دعا ہی کی جاسکتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ملک رمضان اسراء

ملک رمضان اسراء

مصنف صحافی و قلم کار ہیں۔ ان سے ٹوئٹر، فیس بک اور انسٹاگرام آئی ڈی malikramzanisra اور ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔