عمران خان اور میڈیا منیجرز

طارق محمود میاں  اتوار 14 اپريل 2013
tariq@tariqmian.com

[email protected]

یہ تحریر لکھنے سے قبل میں ایک دلچسپ مضمون پڑھ رہا تھا۔ اس کا موضوع تھا ’’اپنے ڈیسک پر بیٹھے بیٹھے ورزش کرنے کے طریقے‘‘۔ ہاتھوں سے پیروں کو چھولو، پاؤں سیٹ پر رکھ لو، گھٹنے ماتھے سے لگاؤ، ماتھا میز پر ٹکا کے ہاتھ پیچھے کمر پر باندھ لو وغیرہ وغیرہ۔ گویا اس وقت تک ایسی حرکتیں کرتے رہو جب تک کوئی آپ کو ڈنڈا ڈولی کرکے اسپتال نہ پہنچادے کہ مرگی کا دورہ پڑگیا ہے۔

عمران خان کے میڈیا منیجرز ایسی ہی بیٹھی بٹھائی جدوجہد کرکے اپنی پارٹی کا جھنڈا پورے ملک میں گاڑنے کا عزم رکھتے ہیں۔ ان کا ایک ہجوم ہے جو میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہر دم موجود رہتا ہے لیکن سوچنے کی بات ہے کہ وہ موثر کتنے ہیں؟ موثر کوئی تبھی ہوسکتا ہے جب وہ سنجیدہ ہو، اپنے سر سے سوچنے کا کام لے سکتا ہو اور ٹین ایجری کی رنگینیوں سے باہر نکلنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ افسوس کہ ایسا نہیں ہے۔ سب گونگلوؤں پر سے مٹی جھاڑنے میں لگے ہوئے ہیں اور صورت حال یہ ہے کہ سارا بوجھ خود عمران خان پر آن پڑا ہے۔ آج تک اپنا اور اپنی پارٹی کا سب سے اچھا دفاع خود اسی نے کیا ہے۔ باقی یا تو معلومات کی کمی کی وجہ سے رونے لگ جاتے ہیں یا پھر کوئی بھاری سا پتھر اٹھا کے کسی کے بھی سر پہ دے مارتے ہیں۔

کوئی دو سال پہلے جب تحریک انصاف ایک نئے ولولے کے ساتھ میدان میں اتری تھی تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس قلیل عرصے میں وہ ایک لمبی مسافت طے کرلے گی۔ فلموں کی طرح سیاسی جماعتیں بھی اگر ریلیز ہونے کے ’’پہلے ہفتے میں‘‘ فلاپ ہوجائیں تو پھر ان کا ڈبہ گول ہوجاتا ہے لیکن تحریک انصاف نے اس بات کو غلط ثابت کردیا۔ اس کی واحد وجہ اس کے لیڈر کی ان تھک محنت تھی۔ وہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں میں سب سے زیادہ محنتی شخص ہے۔ اسی محنت کا پھل ہے کہ آج اس کی پارٹی ملک کی تین بڑی سیاسی قوتوں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔ اور میرے خیال میں گزشتہ پانچ سالہ جمہوری دور میں ہمارے ملک کے ساتھ جو ایک اچھی چیز ہوئی ہے وہ یہی ہے کہ جمہوریت پر ایمان رکھنے والی نئی نسل پورے جوش کے ساتھ سیاسی عمل کا حصہ بن چکی ہے۔ یہ کارنامہ سرانجام دینے والے ’’نوجوان‘‘ کی اپنی عمر ساٹھ برس ہے۔ اسی سے اس کی ہمت کا اندازہ کرلیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی کامیابی کی طرف گامزن ہے تو میں اس کے میڈیا منیجرز کو طعنے کیوں مار رہا ہوں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انتخابی عمل کے آغاز کے ساتھ ہی اس پارٹی کے امکانات پر ایک دھند چھائی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ میڈیا منیجرز اسے دور کرنے میں ناکام ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جونہی تحریک انصاف کی گاڑی اپنے پارٹی الیکشن کے اسپیڈ بریکر سے ٹکرائی تو اس کا انچر پنچر ڈھیلا ہوگیا۔ اس کے بعد ذرا آگے بڑھی تو انتخابی ٹکٹوں والی دیوار میں ٹکر ماردی۔ اب چاروں طرف ڈینٹ ہی ڈینٹ ہیں اور اسٹپنی غائب ہوگئی ہے۔ سنا ہے کہ کہیں سندھ میں آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہی ہے۔

آئیے! دیکھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے میڈیا منیجرز نے کہاں کہاں غلطیاں کی ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ تحریک نے کئی ایشوز پر موقف تبدیل کیا اور ان لوگوں نے ڈھنگ سے اس کی وضاحت نہیں کی۔ مثلاً کینیڈا سے وارد ہونے والے قادری کا ساتھ دینے والا معاملہ اور خواتین کی نشستوں کو ختم کردینے کی بات۔ اسی طرح دہری شہریت والے ایشو پر بھی بار بار موقف تبدیل کیا گیا اور آج بھی یہ لوگ اسے اوورسیز پاکستانیز کے ساتھ خلط ملط کرتے ہیں۔

لوٹوں یعنی پارٹی بدلنے والوں کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ جونہی یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ تحریک انصاف میں بدنام زمانہ مشرف کے ساتھی بھی آگئے ہیں تو عمران خان کے ڈھیلے ڈھالے میڈیا منیجرز جواباً مسلم لیگ (ن) پر الزام تھوپنے لگ جاتے ہیں۔ یہ کیا بات ہوئی؟ ایسا تو ہر بے موقف شخص کرتا ہے۔ پھر آپ کی تبدیلی کہاں ہے؟ میرا موقف یہ ہے کہ انتخابات کے نزدیک تمام صفیں نئے سرے سے مرتب دی جاتی ہیں۔ اس وقت پارٹی تبدیل کرنا کوئی غیر اخلاقی فعل نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی اپنی سیٹ چھوڑ کر آتا ہے یا اسمبلی ختم ہونے کے بعد آتا ہے تو اس میں لوٹا بننے والی کیا بات ہے؟ اصل چیز یہ ہے کہ وہ اپنی نئی حیثیت میں خود کو عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ اپنے نئے موقف کی بنیاد پر کامیاب ہوگئے تو ٹھیک، ہار گئے تو غلط فیصلے کی سزا مل گئی۔ پی ٹی آئی نے یہ بات اپنے دفاع میں کبھی نہیں کی۔

یہ میڈیا منیجرز اور خود عمران خان بھی سیاستدانوں کے پیسے باہر پڑے رہنے کا الزام بارہا دہراتے رہتے ہیں، ثبوت کوئی نہیں۔ سب اگر مگر اور خیال آرائیاں۔ ہوسکتا ہے سطحی سوچ رکھنے والوں کو یہ الزام اپیل کرتا ہو لیکن کاروباری لوگ جانتے ہیں کہ اس گلوبل ولیج میں سرمایہ کاری اور صنعت کسی سرحد کی محتاج نہیں رہی۔ جو پیسہ کسی دو نمبر بینک میں نہیں رکھا ہوا اور کاروبار میں لگا ہے تو وہ غیرقانونی کہاں سے ہوگیا۔ وہاں کے قوانین اتنے سخت ہیں کہ منی لانڈرنگ کرنے والوں پر سب سے پہلے گرفت ہوتی ہے۔

دراصل ہم لوگ زرمبادلہ کو ترسے ہوئے ہیں اس لیے بہت جلدی میں ہیں کہ باہر سے سب کچھ اٹھا کے لے آئیں اور لاکے ٹھپ کردیں۔ حتیٰ کہ باہر کے اچھے کاروباری حالات میں ضرب در ضرب ہوتا ہوا سرمایہ بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں امن وامان ہو، کاروباری حالات اور انفرااسٹرکچر بہتر ہو تو کسی سے گلہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ پاکستانیوں کو معلوم ہے کہ ان کا سرمایہ سب سے محفوظ اپنے ملک میں ہی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب باہر معاشی حالات خراب ہوتے ہیں یا کوئی 9/11 ہوتا ہے تو کس رفتار سے زرمبادلہ کی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ سمجھدار میڈیا منیجرز لٹھ مارنے کے بجائے پیار اور محبت کا پیغام دے سکتے ہیں کہ ہم ملک میں کاروباری حالات کو اس طرح موافق بنائیں گے جن میں باہر گیا ہوا ایک ایک پیسہ واپس لوٹ کے آسکے۔

اسی طرح انھوں نے سیاسی رہنماؤں کے نام لے لے کر انھیں بھی براہ راست نشانہ بنایا ہے اور ان کے چاہنے والوں کی نفرت مول لی ہے۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ عمران خان اور نواز شریف کے ووٹرز ایک ہی ہیں گویا ایسے ووٹرز جو دونوں کو ایک ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں کیا پی ٹی آئی کا طرز سیاست درست ہے؟ مجھے اس میں شک ہے۔ بہتر ہوتا کہ توپوں کے دہانے کھولے بغیر اپنا پیغام پہنچایا جاتا۔ اب کیا ہوا ہے؟ ایسی گولہ باری دیکھ کے مسلم لیگ (ن) کے پکے حامیوں کے ساتھ ساتھ کچے حامی بھی جلدی سے رائے ونڈ کے کیمپ میں اکٹھے ہوگئے ہیں اور ڈٹ گئے ہیں۔ نتیجہ آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔ وہ آج پہلے سے کہیں مضبوط پارٹی ہے اور پی ٹی آئی کے میڈیا منیجرز اکتوبر 2011 والی سڑک کے پتھر پر بیٹھے آگے جانے والی بس کے انتظار میں ہیں۔ آگئی تو ٹھیک ورنہ ’’ڈیسک پر بیٹھے بیٹھے ورزش کرنے کے طریقے‘‘ تو وہ جانتے ہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔