کچھ ذمے داریاں والدین کی بھی ہیں

نسیم انجم  اتوار 14 اپريل 2013
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

پچھلے دنوں دو سالہ معصوم بچی جعلی بابا کے ہاتھوںاپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی، یہ پہلا واقعہ ہرگز نہیں ہے، اس قسم کے واقعات ہمارے معاشرے میں آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں لیکن ان جعلی پیروں کو کوئی گرفتار کرنے والا نہیں، یہ بڑی آسانی کے ساتھ اپنے ٹھکانوں پر بیٹھ کر جادو ٹونہ کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو مصیبت میں مبتلا کرکے دولت اور نذرانے وصول کرتے ہیں۔

پچھلے دنوں کی بات ہے، اس بات کو غالباً ہفتہ بھی نہیں گزرا ہوگا، جب ایک صاحب اپنی بچی کو لے کر پارک میں گھمانے گئے، اسی اثناء میں ایک جعلساز شخص نے ان صاحب سے کہا کہ آپ کی بچی پر جن کا سایہ ہے، لہٰذا اسے جلد سے جلد اتروالیں۔ بچی کے باپ نے جب اس بات کا اظہار کیا کہ میں تو ایسے لوگوں کو بالکل نہیں جانتا ہوں جو اثرات اتارتے اور دم وغیرہ کرتے ہیں، اس شخص نے موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے فوراً ہی اپنی خدمات پیش کردیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ بچی کے باپ نے حالات و واقعات کا جائزہ لیے بغیر نہ کہ حامی بھری بلکہ اس کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہوگیا، اس سادہ لوح باپ نے اس کا حلیہ اور پھٹکار زدہ چہرہ بھی نہ دیکھا جس پر اﷲ کی لعنت برس رہی تھی اور وہ مجسم لعنتی اور مکروہ نظر آرہا تھا۔

دو تین دفعہ میاں بیوی کا اس بدبخت کے ٹھکانے پر آنا جانا رہا اور آخری دن اس نے بچی کو کچھ سنگھایا یا پلایا، چونکہ اخبار کی خبر کے مطابق اس نے کوئی سیال مادہ سنگھایا لیکن نجی ٹی وی میں دکھایا گیا کہ اس نے اپنی بیوی کے منع کرنے کے باوجود اسے زہریلا مادہ پلادیا۔ اور افسوس صد افسوس ماں باپ تماشائی بنے رہے اور اپنی بیٹی کے ساتھ ہونے والے سلوک پر انھوں نے خاموشی اختیار کرلی۔

ابھی وہ اپنی پھول جیسی خوبصورت بچی کو لے کر گھر بھی نہیں پہنچ سکے تھے کہ بچی نے دم توڑ دیا اور اب یہ بدنصیب اور کوتاہ عقل والدین ہاتھ ملتے رہ گئے۔ اس واقعے کی تفصیل نجی ٹی وی چینل پر دکھائی گئی۔ اس کے گھر یا آستانے سے جہاں وہ جادو، ٹونہ، سفلی علم کیا کرتا تھا وہاں سے مورتیاں، سیندور، زہریلا مادہ اور نہ جانے کیا کیا الا بلا نکلا۔ لوگوں نے بتایا کہ اس واقع سے قبل بھی وہ دو تین معصوم بچیوں کی جانیں لے چکا ہے۔ اس قدر گندے میلے اور جاہل انسان پر آخر والدین نے اعتبار کس طرح کرلیا کہ یہ کوئی علم جانتا ہوگا۔

والدین کی اپنی اولاد کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے حوالے سے بھاری ذمے داری ہے جو اﷲ رب العزت نے والدین کے کاندھوں پر ڈالی ہے، لیکن بات بڑی کربناک ہے کہ والدین کی لاپرواہی، حماقت و بے وقوفی سے معصوم بچے مصیبت میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور سفاک قاتل اپنے تشدد کے ذریعے ان کی جانیں لے لیتے ہیں۔ مذکورہ واقعہ ہی دیکھ لیجیے کہ بچی کو کسی قسم کی تکلیف نہیں تھی نہ بخار نہ ٹی بی اور نہ یرقان اور نہ ہی اثرات کی زد میں تھی۔ ایک شیطان نے ورغلایا اور یہ آگئے اس کی باتوں میں، اگر انسان ہر دم اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے اﷲ کا کلام یا اس کا صفاتی نام ورد کرتا رہے، تب شیطان کا وار خالی جاتا ہے، اﷲ خود ہی عقل و شعور دے دیتا ہے، علم میں اضافہ کرتا ہے، لیکن جب انسان مکمل طور پر اپنے آپ کو دنیا اور دنیاوی کاموں کے سپرد کردیتا ہے تب روحانی طاقت، غیبی مدد اس کے کام نہیں آتی ہے۔

آئے دن معصوم بچے اغوا کرلیے جاتے ہیں، اس کی بھی وجہ والدین کی غیر توجہی ہے، وہ اپنے معصوم ننھے منے بچوں کو بازار میں سودا سلف لینے کے لیے بھیج دیتے ہیں اور باہر کی دنیا میں جرائم پیشہ افراد گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں جو موقع پاتے ہی حیلے بہانے سے بچے کو قبضہ میں کرلیتے ہیں، کوئی ٹافی دے دیتا ہے، بچہ فوراً لے کر اس لیے کھالیتا ہے کہ اسے گھر سے تعلیم و تربیت ہی نہیں ملی کہ بیٹا! کوئی بھی کچھ کھانے پینے یا استعمال کی چیز دے کبھی نہ لینا اور چیزیں لینے والے تو فقیر ہوتے ہیں، ہم فقیر تھوڑی ہیں، ہم تو عزت دار لوگ ہیں، رزق حلال پر یقین رکھتے ہیں۔ تربیت یافتہ بچے کبھی نہ کسی سے کوئی چیز لیتے ہیں اور نہ ہی غیر شخص کی بات کا یقین کرتے ہیں لیکن ایک مسئلہ اور درپیش ہے کہ اکثر گھرانوں میں گھر کے افراد ہی بچے کو لے اڑتے ہیں۔

ابھی حال ہی میں بچے کے چچا نے تاوان کے لالچ میں نہ کہ اسے اغوا کیا بلکہ قتل بھی کردیا۔ ہوس زر نے لوگوں سے ان کی شرم وغیرت چھین لی ہے ضمیر مردہ ہوچکا ہے۔ لہٰذا یہاں بھی غلطی والدین کی ہی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو کوئی کتنا بھی عزیز کیوں نہ ہو تنہا ہرگز نہ بھیجیں، اندھا اعتماد کرنا ہی بدترین حماقت ہے، یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ حالات کس طرح کے چل رہے ہیں، لہٰذا اپنے بچوں کی خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے ان کی دیکھ بھال، نگہداشت اور تحفظ کے لیے خود ہی سرگرم عمل رہنا پڑے گا۔ کوئی کسی کا ہمدرد اور غمگسار نہیں ہے۔

تھوڑے ہی عرصے کی بات ہے جب ہمیں بھی ایک ایسا موقع میسر آیا جس سے ہم نے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی، ایک ہماری قریبی عزیز تھیں جو بیرون ملک سے تشریف لائی تھیں، بقول ان کے ان پر کسی نے سفلی علم کیا ہے، جس کی وجہ سے وہ برباد ہوچکی ہیں لہٰذا پاکستان میں اس علم کا توڑ کرنے والے بے شمار لوگ ہیں، انھوں نے ہماری مدد چاہی، ہم نے انھیں ٹکا سا جواب دے دیا، بھئی! اس معاملے میں ہم صفر ہیں۔ ہم تو ہر معاملے میں اپنے ربّ سے مدد مانگتے ہیں اور الحمدﷲ ہماری مراد برآتی ہے، لیکن انھوں نے کچھ ایسی دلیلیں پیش کیں کہ ہمیں خاموش ہونا پڑا اور اتنا تعاون کرنے کی بھی حامی بھرلی کہ ہم ان کے ساتھ چلیں گے، ان جگہوں پر جہاں نورانی علم سے فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔

پہلے دن تو گلستان جوہر میں واقع ایک مسجد کے پیش امام سے ملے جنھوں نے انھیں کچھ ایسی باتیں بتائیں کہ انھیں یقین آگیا کہ یقیناً یہ عالم ہیں۔ شروع میں توڑ کرنے کے لیے ایک ہزار کی رقم وصول کی اور پھر یہ رقم بڑھتے بڑھتے 5 ہزار تک پہنچ گئی، لیکن فائدہ بالکل نہ ہوا، مسائل اپنی جگہ پر برقرار رہے۔ مسجد کے احاطے میں ایک قبر بھی تھی جو عالم صاحب کی بیگم کے پہلے شوہر کی تھی۔

اندھا اعتقاد پیدا کرانے میں قبروں کی موجودگی بھی اہمیت رکھتی ہے، دوسرے دن دوسری جگہ ان صاحب نے بھی تعویذوں کو ریوڑیوں کی طرح مریضوں میں تقسیم کردیا، اور سب خوشی خوشی گھر کو لوٹ گئے بالکل ایسی ہی کہانی پیروں فقیروں کی کٹیا، مساجد اور گھروں میں نظر آئی۔ تو یہ حال ہے، پیسہ بٹورنے والوں کی کمی نہیں۔ لیکن انسان کو خود بھی پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے، نوسرباز ہر جگہ موجود ہیں کب آپ کی حماقت یا ذرا سی بھول چوک سے فائدہ اٹھالیں اور ساری عمر اولاد کی جدائی میں، ہجر کے زنداں میں دھکیل دے۔

ہمارے شہر کراچی میں پولیس کی غفلت کے باعث آئے دن بچے اغوا ہوجاتے ہیں، چند روز کی ہی بات ہے جب سچل سے 6 سالہ مدیحہ کو مدرسے آتے ہوئے اغوا کرلیا گیا، مدیحہ اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھی، بیٹی کی جدائی میں ماں جیتے جی مرچکی ہے۔ اس کے درد کا مداوا کتنے دن گزرنے کے بعد اب تک نہ ہوسکا ہے۔ یہاں بھی صورت حال والدین کی طرف سے مایوس کن ہے۔

6 سالہ بچی کو والدہ یا والد کو مدرسہ خود چھوڑ کر اور اپنے ساتھ لے کر آنا چاہیے نہ کہ معصوم بچوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے، ان کے اغوا ہونے کے بعد جو گھر میں قیامت اتر آتی ہے اس کی اذیت اور تکلیف والدین ہی برداشت کرتے ہیں، کیا ایسا ممکن نہیں کہ قبل از وقت ہی زندگی کا لائحہ عمل تیار کریں کہ کون سے کام کس طرح کیے جاسکتے ہیں اور خطرات سے بچنے کی کون سی تدابیر اختیار کی جائیں تو شاید معصوم بچے موت کے منہ میں جانے سے بچ سکیں۔ بس فہم و فراست کی شدید ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔