مڈل کلاس کی سیاسی جماعتیں

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 20 اپريل 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

عدالت عظمیٰ ملک میں کرپشن کے خلاف پہلی بار اعلیٰ سطح کے زعما کے گلے میں رسی ڈال رہی ہے جس کی وجہ سے ’’خواص‘‘ میں سخت بے چینی پیدا ہوگئی ہے اور وہ عدلیہ کے ان اقدامات کو ناکام بنانے کے لیے ہر ممکن جتن کر رہی ہے، اس حوالے سے عوام کو استعمال کرنے کی کوشش شروع کردی گئی ہے۔ ہوسکتا ہے اپنے زیر اثر لوگوں کو روڈوں پر لاکر ہنگامہ آرائی کرائی جائے اور عدلیہ پر دباؤ بڑھانے کے لیے اس ممکنہ ہنگامہ آرائی کو تحریک میں بدلنے کی کوشش کی جائے۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وارننگ دی ہے کہ عوام کے ذریعے عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی تو ہم اسے روکنے کی کوشش کریں گے۔ اگر اپوزیشن کی دوسری پارٹیاں عمران خان کا ساتھ دیں تو پھر ایک بڑے تصادم کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے جس کا نتیجہ مارشل لا کی شکل میں بھی نکل سکتا ہے۔

پاکستان اصل میں کرپشن کا گڑھ بن گیا ہے، 70 سال اس کلچر میں بیت گئے بدقسمتی سے اقتدار میں وہی جماعتیں آتی رہیں جو کرپشن کو اپنی جمہوری ذمے داریوں کا حصہ سمجھتی تھیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کرپشن حکومتوں کی سرکاری ذمے داریوں کا حصہ بن گئی۔ اس وبا نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور عوام کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے جو اربوں کھربوں روپے استعمال کیے جاسکتے تھے وہ اعلیٰ سطح کرپشن کی نذر ہوگئے۔

اشرافیہ کے مضروب طبقے بڑی چالاکی کے ساتھ یہ واویلا مچا رہے ہیں کہ یہ احتساب نہیں دشمنی ہے، جس کا مقصد ملک میں جمہوریت کو کمزور کرنا ہے۔ بدقسمتی سے اس موقف کی حمایت وہ لوگ بھی کر رہے ہیں جو کرپشن سے ملک کو پہنچنے والے نقصانات کا ادراک رکھتے ہیں۔

اس حوالے سے یہ تاثر پھیلایا جا رہا ہے کہ یہ احتساب نہیں انتقام ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ عدلیہ کے احتساب کا دائرہ بہت محدود ہے ملک میں کرپشن کا ارتقاب کرنے والی صرف ایک حکومت نہیں ہے بلکہ صورتحال یہ ہے کہ ملک میں ایک بھی جمہوری حکومت شاید ایسی نہ رہی ہے جس نے اپنے ہاتھ کرپشن سے نہ رنگے ہوں گے۔ اس حقیقت کی روشنی میں عدلیہ کی کارروائیوں کے شکار حلقوں کی اس بات میں وزن پیدا ہوجاتا ہے کہ یہ احتساب نہیں انتقام ہے۔

اس نازک صورتحال سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ کرپشن کی مرتکب ساری اشرافیہ کے خلاف بلاامتیاز بلاتفریق یکساں طور پر سخت اقدامات کیے جائیں۔ عدلیہ کا موقف ہے کہ وہ ملک کو ایک باکردار قیادت فراہم کرنا چاہتی ہے۔ بلاشبہ یہ ارادے بڑے نیک ہیں اور اس قسم کے اقدامات کی ضرورت بھی ہے تاکہ ملک میں کرپشن سے پاک حکومتوں کے متعارف کرانے کا مثبت کام شروع ہوسکے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کرپٹ حکومتوں کا تسلسل جاری رہے یا اس سلسلے کو روکا جائے اگر اس تباہ کن سلسلے کو توڑنا ہے تو پھر کہیں سے تو اس کام کا آغاز کرنا پڑے گا۔ کرپشن کے خلاف عدلیہ کے اقدامات کے خلاف ایسی سخت زبان استعمال کی جا رہی ہے کہ ایک نہیں سو بار توہین عدالت کا ارتکاب ہو رہا ہے اس کلچر سے جہاں عدلیہ کی تضحیک ہو رہی ہے وہیں عوام میں عدلیہ کا احترام بھی متاثر ہو رہا ہے اور یہ صورتحال اس قدر خطرناک ہے کہ فوری اس کا ازالہ نہ کیا گیا تو ملک و ملت پر اس کے سنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

ملک میں اشرافیہ اقتدار کا جو کلچر مستحکم ہوگیا ہے اس کا براہ راست نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی سیاسی پارٹیاں اس کلچر کی وجہ سے کبھی اقتدار میں نہ آسکیں۔ اشرافیہ اربوں کھربوں کی سرمایہ کاری الیکشن پر کرکے اقتدار میں آتی ہے اور یہ ایک فطری بات ہے کہ الیکشن پر لگایا ہوا اربوں کا سرمایہ منافع کے ساتھ واپس لیا جائے، یہی وجہ ہے کہ ملک کرپشن کے گڑھ میں بدل گیا ہے۔ مڈل کلاس پر مشتمل سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو ایک گولڈن چانس مل رہا ہے کہ ان کے اقتدار میں آنے کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔ 70 سال  میں یہ پہلا موقع ہے کہ مڈل کلاس کی جماعتوں کے لیے اقتدار میں آنے کی راہ ہموار ہورہی ہے۔

اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہی اشرافیہ کے اقتدار سے نجات ہے اور اسے اتفاق کہیں یا خوش قسمتی کہ بغیر کسی تحریک کے مڈل کلاس کو یہ اپرچونیٹی مل رہی ہے کہ اقتدار کے لیے راستے کھلتے نظر آرہے ہیں۔

کرپشن کے خلاف عدلیہ کی مہم سے متاثر اشرافیہ اس نازک صورتحال سے بچنے کے لیے ایک تو جمہوریت کو لاحق خطرے کا بہانہ بناکر سیاستدانوں اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے دوسرے اسے انتقامی کارروائیوں کا نام دے کر عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

مڈل کلاس کی جماعتوں کی یہ ذمے داری بلکہ خوش نصیبی ہے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے اشرافیہ سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کریں۔ اس کا مثبت اور منصفانہ طریقہ یہ ہے کہ عدالت کے کرپشن کے خلاف اقدامات کی حمایت کریں اور یہ مطالبہ بھی کریں کہ کرپشن کے خلاف اقدامات بلاامتیاز اور ہمہ گیر ہوں تاکہ ملک کو کرپشن کی لعنت سے آزاد کرایا جاسکے۔

انتخابات چند ماہ کے فاصلے پر کھڑے ہیں مڈل کلاس کی ذمے داری ہے کہ وہ ان انتخابات سے فائدہ اٹھانے کے لیے احتساب کی حمایت کریں اگر مڈل کلاس پر مشتمل سیاسی و مذہبی جماعتوں نے جمہوریت کے نام پر اشرافیہ کی حمایت کرنے یا غیر جانبدار رہنے کی کوشش کی تو یہ کوشش اس کی خودکشی کے مترادف ہوگی۔

70 سال کی المناک تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ مڈل کلاس کی سیاسی جماعتوں کو یہ موقع مل رہا ہے کہ وہ الیکشن میں سرمائے کے مقابلے سے آزاد ہو رہے ہیں، مڈل کلاس کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے پاس اتنا سرمایہ نہیں کہ وہ موجودہ الیکشن سسٹم میں حصہ لے سکیں اس لیے مڈل کلاس کی سیاسی جماعتوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اشرافیائی اقتدار کے تسلسل کو توڑنے کی ذمے داری ادا کریں۔

ہماری ملک کے 20 کروڑ عوام کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ اشرافیائی حکومتوں نے اپنے وعدے پورے کرنے کے بجائے اپنا سارا وقت دولت کے انبار جمع کرنے میں لگادیا اور یہ وہ دولت ہے جسے عوام کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے تھا۔ کیا عوام اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ 70 سال سے ان کی تباہ حال زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، مہنگائی، بیروزگاری، تعلیم اور علاج جیسی بنیادی ضرورتوں سے وہ اس لیے محروم ہیں کہ کرپٹ اشرافیہ ان کے سروں پر سوار ہے، جب تک وہ اس کرپٹ اشرافیہ سے نجات حاصل نہیں کریں گے نہ ان کے مسائل حل ہوسکیں گے نہ ان کی تباہ حال زندگی میں کوئی تبدیلی آسکے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔