میئر کراچی کو حقائق کا سامنا

محمد سعید آرائیں  جمعـء 20 اپريل 2018

دنیا بھر میں دس سال قبل دنیا کے 13 میگا سٹیز میں شمار کیا جانے والا ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی اب دنیا میں گندے ترین شہروں میں شامل ہو چکا ہے اور ملک میں کچرا شہر کے نام سے پکارا جا رہا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے بہترین ضلعی نظام میں جس کو دور آمریت کہا جاتا ہے میں کراچی کی ترقی ملک والوں ہی نہیں بلکہ دنیا میں تسلیم کی گئی تھی مگر جمہوریت کی دعویدار پیپلز پارٹی کی سندھ کی دس سالہ حکومت میں ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ساتھ جو سوتیلی ماں کا سا رویہ رکھا گیا۔

اس کے نتیجے میں آج ماضی کا روشنیوں کا ترقی یافتہ شہر تباہ حالی کے باعث ایسا پس ماندہ شہر بن چکا ہے جس کو لاوارث بنانے میں پی پی حکومت نے کوئی کسر نہیں چھوڑی اور دس سال میں کراچی کو سونے کی چڑیا سمجھ کر جس طرح لوٹا گیا، کرپشن کو فروغ دیا گیا، اس کے نتیجے میں کراچی کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا اور کراچی کو صرف کمائی کے لیے استعمال کیا گیا۔

کراچی سے اتنی رشوت سمیٹی گئی کہ رشوت کی رقم نے اندرون سندھ جائیدادوں کی قیمت کراچی سے بھی بڑھا دی تھی، جو اب کم ہونا شروع ہوئی ہے۔ سندھ حکومت کے ہر محکمے میں رشوت کے کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے۔

ملازمتوں میں تقرر و تبادلوں میں محکمہ بلدیات نے صحت اور تعلیم کے محکموں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا، جہاں لاکھوں روپے میں چھوٹے عہدوں پر اور ایک کروڑ سے زیادہ رقم پر تقرر و تبادلے ہوئے۔ سرکاری وسائل شیر مادر سمجھ کر ہضم کیے گئے اور ڈکار بھی نہیں لی گئی۔ محکمہ بلدیات کا ایک بااثر سابق وزیر پانچ سال سے ملک سے باہر رہنے پر مجبور ہے۔

ایک مکمل بااختیار سابق وزیر بلدیات اپنی اہمیت کے باعث مزید اونچے عہدے پر موجود ہے جن کے زیر استعمال اب بھی محکمہ بلدیات کی 23 گاڑیاں مبینہ طور پر بتائی جاتی ہیں اور ایک سابق وزیر عدالتوں میں حاضریاں بھگت رہا ہے جو وزیر بلدیات کی وجہ سے تو گرفت میں نہیں آسکا، مگر محکمہ اطلاعات میں کرپشن کے الزامات میں ملک واپس آکر جیل جا پہنچا۔

محکمہ بلدیات ایسا محکمہ ہے جس کے افسران اور انجینئروں کے تقرر و تبادلے لاکھوں روپے میں ہوئے مگر کسی نے شکایت نہیں کی اور کمائی کے عہدے پر آکر اس نے اپنی دی ہوئی رشوت کی رقم کئی گنا زیادہ کما کر وصول کی اور آرام سے ہیں اور بہت کم افسر گرفت میں آسکے ہیں۔

ایک بلدیاتی افسر نے راقم کو بتایا تھا کہ ہم اگر کوئی اور کرپشن نہ بھی کریں تو تعمیری و ترقیاتی کاموں میں کمیشن کی رقم گھر بیٹھے آرام اور کسی شکایت کے بغیر بڑی مقدار میں مل جاتی ہے۔ ضلعی حکومتوں کے دور میں قومی تعمیر نو بیورو کے دو اعلیٰ افسران نے پی ایم سیکریٹریٹ اسلام آباد میں راقم سے کہا تھا کہ ہر یوسی کو دو لاکھ روپے ماہانہ ملتے ہیں جس میں سے وہ اگر 20 فیصد رقم بھی کاموں پر لگائیں تو بھی ان کے کام نظر آسکتے ہیں۔

مذکورہ بالا دو اعلیٰ افسروں کی بات سے محکمہ بلدیات میں کرپشن اور ناجائز کمائی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ بلدیاتی اداروں سے عوام کا سب سے زیادہ واسطہ پڑتا ہے اور یہیں عوامی ڈیلنگ بھی زیادہ ہے۔ جنرل پرویز کے بااختیار ضلعی نظام میں کراچی سٹی حکومت کے دو سٹی ناظمین کے دور میں کراچی میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے جن کا جماعت اسلامی اور متحدہ سے تعلق تھا۔

دس سال بلدیہ عظمیٰ سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کے ہاتھ لٹنے کے بعد ڈیڑھ سال قبل متحدہ کے وسیم اختر جیل سے میئر منتخب ہوئے تھے جو ضمانت پر ہیں اور سوا سال سے اپنے بے اختیار ہونے کی جو شکایات کر رہے ہیں وہ غلط نہیں کافی حد تک درست ہے کیونکہ وہ بااختیار میئر نہیں بلکہ سندھ حکومت کے آگے مجبور اور بے بس میئر ہیں جو سپریم کورٹ کے حکم پر ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں میئر ضرور ہیں مگر سپریم کورٹ انھیں سندھ حکومت سے وہ بلدیاتی اختیارات نہ دلا سکی جو دنیا بھر میں بلدیاتی اداروں کو حاصل ہیں۔

میئر وسیم اختر نے اپنے دفتر میں ایک ملاقات میں بتایا کہ جب میئر اور ڈی ایم سیز چیئرمین منتخب ہوکر آئے تو بلدیہ عظمیٰ اور ڈی ایم سیز کے پاس صفائی و کچرا اٹھوانے کے لیے گاڑیاں تھیں نہ عملہ و مشینری۔ مجبور ہوکر ڈی ایم سیز کو اپنا یہ بنیادی کام سندھ حکومت کے نئے ادارے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کو دینا پڑا جس پر سپریم کورٹ بھی عدم اعتماد کا اظہار کرچکی ہے میئر کراچی نے کہا کہ بلدیہ عظمیٰ سو روزہ صفائی مہم میں کامیاب نہ ہوسکی۔

کراچی ہمیں کچرے کے ڈھیر کی صورت میں ملا جہاں روزانہ بارہ تیرہ ہزار ٹن کچرا جمع ہوتا ہے اور آدھا بھی نہیں اٹھایا جاتا۔ کراچی کی حالت پر ورلڈ بینک کی رپورٹ پڑھ لی جائے تو حقائق کا پتا چل جائے۔ جو ہمارا کام تھا ہم سے لے لیا گیا، فراہمی و نکاسی بلدیہ عظمیٰ کے پاس نہیں۔ بلدیہ میں میئر اپنی مرضی کے اچھے افسر لا سکتا ہے نہ اٹھارہ گریڈ کے افسر کا تقرر و تبادلہ کرسکتا ہے۔

ایس این جی ڈی سے ہمیں مطلوبہ افسر نہیں مل رہے۔ تجاوزات ہٹانا چاہیں تو ہمارے دو افسروں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوگئی گزشتہ دس سال میں کراچی کے لیے جو عالمی اداروں سے رقم ملی وہ کہاں گئی۔ مجھے کام کرنے نہیں دیا جا رہا۔

منتخب بلدیاتی اداروں سے قبل عالمی تنظیموں نے عوام کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے دس سالوں میں جو رقم دی وہ کہاں استعمال ہوئی۔ بلدیاتی وسائل کہاں اور کیسے استعمال ہوئے ان کا کچھ پتا نہیں جس کے نتیجے میں آج کراچی بدترین تباہی کا شکار ہے، بلدیاتی ادارے تنخواہیں مشکل سے دے پا رہے ہیں تو ایسے حالات میں بے اختیار بلدیہ عظمیٰ اور ڈی ایم سیز اپنے شہریوں کے مسائل کیسے حل کراسکتے ہیں اور یہی حقائق موجودہ صورتحال کے ذمے دار ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔