شہر میں پبلک ٹوائلٹس کی قلت، عوام کو مشکلات کا سامنا

سید اشرف علی  جمعـء 20 اپريل 2018
بلدیہ عظمیٰ کراچی نے6 سال قبل200مقامات پر 800 پبلک ٹوائلٹس تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ فوٹو : ایکسپریس

بلدیہ عظمیٰ کراچی نے6 سال قبل200مقامات پر 800 پبلک ٹوائلٹس تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ فوٹو : ایکسپریس

 کراچی:  کراچی کی آبادی 2کروڑ سے زائد ہوچکی ہے لیکن اہم شاہراہوں، سرکاری عمارتوں، کھیل کے میدان اور بازاروں میں پبلک ٹوائلٹ کی شدید قلت ہونے کی وجہ سے شہریوں بالخصوص خواتین، بزرگوں اور بچوں کو سخت پریشانی کا سامنا رہتا ہے۔

سابقہ شہری حکومت کے دور میں شاہراہ فیصل پر بس اسٹاپوں سے ملحق 4 پبلک ٹوائلٹ تعمیر ہوئے لیکن کبھی استعمال میں نہیں لائے گئے۔ ڈسرکٹ ساؤتھ میں 15 پبلک ٹوائلٹ انتظامیہ کی غفلت کے باعث برسوں سے بند ہیں، بلدیہ عظمیٰ کراچی نے 6 سال قبل200مقامات پر 800 پبلک ٹوائلٹس تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی تاہم بعدازاں یہ منصوبہ سرخ فیتے کا شکار ہوگیا۔

ماضی میں سی پی ایل سی نے53پبلک ٹوائلٹ تعمیر کیے تھے جن میں33 آپریشنل ہیں،13تعمیراتی منصوبوں کی نذر ہوگئے جبکہ بقیہ7 خستہ حالی، پانی کی فراہمی منقطع ہونے اور دیگر وجوہ کی بنا پر بند پڑے ہیں، پبلک ٹوائلٹ کی کمی کی وجہ سے کراچی کے شہری آج بھی سڑکوں اور گلیوں میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف گندگی میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ عوام کی صحت کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔

ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے مختلف طبقے اور عمرکے افراد نے پبلک ٹوائلٹ کی قلت پر اپنی پریشانیوں کا ذکر کیا، گلشن اقبال کی رہائشی خاتون ارم احمد نے کہاکہ کراچی کے بیشتر شاپنگ سینٹرز میں پبلک ٹوائلٹ موجود ہی نہیں ہیں۔

اگر کہیں تعمیر کیے بھی گئے ہیں تو وہ صرف اپنے اسٹاف کیلیے ہیں جہاں کسٹمرز کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ 70سالہ بزرگ محمد ابراہیم نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ شہر میں پبلک ٹوائلٹس کی کمی کی وجہ سے بزرگوں کو بہت مسائل کا سامنا رہتا ہے، شہر میں جگہ جگہ پٹرول پمپ موجود ہیں جہاں اسٹاف کیلیے ٹوائلٹ بنے ہوئے ہیں اگر حکومت پٹرول پمپ مالکان کو پابند کرکے اسے عوام کیلیے کھول دے تو بہت آسانی ہوگی۔

معذور شخص احمد علی نے ایکسپریس کو بتایا کہ حکومت نے مختلف جگہوں پر جو پبلک ٹوائلٹ تعمیر کیے ہیں اس میں معذور افراد کا خیال بالکل نہیں رکھا گیا، اگر ان پبلک ٹوائلٹ پر ریمپ اور دیگر ضروریات کا خیال رکھا جائے تو معذور افراد بھی انھیں استعمال کرسکتے ہیں۔

بلدیہ عظمیٰ کراچی سمیت کسی ادارے کے پاس پبلک ٹوائلٹس کی تعداد کا ڈیٹا ہی موجود نہیں، اس معاملے میں منصوبہ بندی کا فقدان اس حدتک ہے کہ کسی ادارے نے یہ زحمت نہیں کی کہ شہر کی سرکاری عمارتوں، اسپتالوں، کھیل کے میدان، شاپنگ سینٹرز، پٹرول پمپس، مساجد، اہم شاہراہوں اور دیگر مقامات کا سروے کرکے پبلک ٹوائلٹس کی تعداد کا ڈیٹا مرتب کرلے۔

اس ضمن میں نمائندہ ایکسپریس کی بلدیہ عظمیٰ کراچی کے سینئر ڈائریکٹر مسعود عالم سمیت دیگر بلدیاتی اداروں کے متعلقہ افسران سے بات چیت ہوئی تاہم کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

ایکسپریس سروے کے مطابق شہر میں پبلک ٹوائلٹس کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے 2 بار جامع منصوبہ بندی کی گئی، سندھ حکومت کی ہدایت پر 1999 میں ڈائریکٹر جنرل کچی آبادی تسنیم صدیقی کی سربراہی میں ٹاسک فورس آن میونسپل سروسز قائم کی گئی جس نے ٹریفک منیجمنٹ پروجیکٹ، سالڈ ویسٹ منیجمنٹ، قبرستان، پبلک ٹوائلٹس اور دیگر بلدیاتی امور پر سفارشات مرتب کیں۔

ان سفارشات کی روشنی میں سٹیزن پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) نے2013 تک 53پبلک ٹوائلٹ تعمیر کیے، 2012 میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کے میٹروپولیٹن کمشنر متانت علی خان کی ہدایت پر فوکل پرسن ڈاکٹر حامد مصطفیٰ نے دیگر متعلقہ اداروں کی معاونت سے 200مقامات پر800پبلک ٹوائلٹ تعمیر کرنے کی جامع منصوبہ بندی کی، میٹروپولیٹن کمشنر متانت علی خان کا ٹرانسفر ہونے کے بعد سے یہ منصوبہ سرخ فیتے کا شکار ہوگیا۔

شاہراہ فیصل پر 4 پبلک ٹوائلٹ کبھی آپریشنل نہیں ہوئے

ادارہ ترقیات کراچی کے محکمہ ٹریفک انجینئرنگ بیورو کے متعلقہ افسران نے ایکسپریس کو بتایا کہ سابقہ شہری حکومت نے2004 میں نجی کمپنی سے بلٹ آپریٹ ٹرانسفر (بی او ٹی) معاہدہ کر کے شاہراہ فیصل پر بس شیلٹرز بنائے تھے، اس نجی کمپنی نے شاہراہ فیصل کے 4 مقامات عوامی مرکز، نرسری اور ایف ٹی سی پر بس شیلٹرز تعمیر کیے، معاہدے کے تحت بس شیلٹرز کے ساتھ دکانیں اور پبلک ٹوائلٹ بھی تعمیر کیے گئے۔

متعلقہ افسران کے مطابق نجی کمپنی نے ان مقامات پر پبلک ٹوائلٹس تعمیرضرور کیے تاہم یہ ایک روز بھی آپریشنل نہیں ہوئے اور بعدازاں انھیں گودام میں تبدیل کردیا گیا، 2016 میں ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی کی ہدایت پر ان دکانوں کو سیل کردیا گیا، اس وقت نجی کمپنی کی اپیل پر مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔

بلدیہ جنوبی کی انتظامیہ کے مطابق ضلع جنوبی کی حدود میں21پبلک ٹوائلٹ ہیں جس میں صرف6آپریشنل ہیں اور وہ بھی صرف مرد حضرات کیلیے ہیں، یہ 6 ٹوائلٹ لی مارکیٹ، سول لائن، ایمپریس مارکیٹ، کھوڑی گارڈن، لائٹ ہائوس اور بوہری بازار پر واقع ہیں، بقیہ15پبلک ٹوائلٹ عمارات کی خستہ حالی اور دیگر وجوہ کے باعث برسوں سے بند پڑے ہیں۔

بلدیہ جنوبی کے متعلقہ افسر نے ایکسپریس کو بتایا کہ سابق ٹائون انتظامیہ کے دور میں 2 موبائل پبلک ٹوائلٹ خصوصی طور پر بنوائے گئے تھے جس میں ایک اسکریب ہوگیا جبکہ دوسرا مکینیکل خرابی کے باعث مرمت کیلیے ورکشاپ میں ہے۔

پبلک ٹوائلٹ کیلیے مخیر حضرات فنڈ دے دینگے، سابق ڈپٹی ڈائریکٹر

سابق ڈپٹی ڈائریکٹر میونسل سروسز کے ایم سی ڈاکٹر حامد مصطفی نے بتایا کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے سابق میٹروپولیٹن کمشنر متانت علی خان کی نگرانی میں 2013ء میں پبلک ٹوائلٹس تعمیر کیلیے ایک جامع منصوبہ تیار کیا۔

اس ضمن میں ایک سروے کیا گیا تاکہ ان مقامات کی نشاندہی ہوسکے جہاں عوام کی آمد ورفت ہو، منصوبہ میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ پبلک ٹوائلٹس ان مقامات پر بنائے جائیں جہاں باآسانی پانی و سیوریج اور بجلی کی فراہمی ممکن ہو سکے، اس منصوبے کے تحت شہر میں مجموعی طور پر 200مقامات پر 800پبلک ٹوائلٹس تعمیر کیے جانے تھے۔

بلدیہ عظمیٰ کراچی کی حدود میں 50مقامات پر 200پبلک ٹوائلٹس تعمیر کیے جانے تھے جبکہ ہر ضلع میں 120 پبلک ٹوائلٹس تعمیر کرنے کی منظوری دی گئی تھی، انھوں نے کہا کہ اس پروجیکٹ پر عملدرآمد کیلیے سرکاری فنڈکے بجائے مخیر حضرات سے رابطہ کیا گیا تھا۔

مختلف فارماسیوٹیکل کمپنیوں اور دیگر کاروباری حضرات نے مالی امداد کی یقین دہانی بھی کرادی تھی تاہم میٹروپولیٹن کمشنر متانت علی خان کے تبادلے کے بعد یہ منصوبہ آگے نہ بڑھ سکا۔ حامد مصطفیٰ نے کہا کہ ابھی بھی متعلقہ بلدیاتی ادارے ان مخیر حضرات سے رابطہ کریں تو وہ اس منصوبے پر عملدرآمد کیلیے فنڈز مہیا کردیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔