تازہ ہوا بہار کی

رئیس فاطمہ  اتوار 14 اپريل 2013

کیا یہ ایک المیہ نہیں ہے کہ فطرت کے سارے رنگ ہماری زندگیوں سے نکل گئے ہیں۔ اب نہ آسمان نظر آتا ہے، نہ ستارے دکھائی دیتے ہیں۔ چاند طلوع بھی ہوتا ہے، مہِ کامل بھی بنتا ہے، لیکن کسی کو خبر ہی نہیں ہوتی کہ خوف، دہشت اور بدامنی نے سارے رنگ سیاہ کر دیے ہیں۔ اب تو لوگ شفق بھی بھول گئے ہیں۔ شفق کیسے پھوٹتی ہے، کس طرح دن کا راجہ اپنی روپہلی کرنیں سمیٹتا ہے اور افق کا طشت نارنجی رنگ آسمان پر بکھیر دیتا ہے۔ ایک حساس اور صاحب دل انسان کو فطرت کے رنگ اپنی جانب کھینچتے ہیں تو وہ اقبال کی طرح بے اختیار کہہ اٹھتا ہے۔

سورج نے جاتے جاتے شام سیہ قبا کو

طشت افق سے لے کر لالے کے پھول مارے

پہنا دیا شفق نے سونے کا سارا زیور

قدرت نے اپنے گہنے چاندی کے سب اتارے

کبھی لوگوں کی زندگیوں میں فطرت پوری طرح دخیل تھی۔ ہم سب اپنے اپنے گھروں سے سورج کے غروب اور طلوع ہونے کے منظر کھلی آنکھوں سے دیکھا کرتے تھے کہ گھر کے رہنے والے خصوصاً اہل کراچی اونچی اونچی دیواروں اور لوہے کی جالی دار کھڑکیوں میں محبوس نہیں تھے۔ سمندر کو جانے والے راستے محفوط تھے۔ بہار آتی تھی تو پورے ملک کے لوگ اس کا استقبال بھرپور طریقے سے کرتے تھے۔ کیونکہ یہ برصغیر کا کلچر تھا۔ بسنت کے موسم میں جب سرسوں پھولتی تھی اور اپنے پیلے پیلے پھولوں کی مہک سے ماحول کو معطر کر دیتی تھی تو امیر خسرو تک نے اس کا اظہار اپنے اشعار میں کیا ہے۔

اسی بسنت کے مہینے میں جو بہار کا موسم کہلاتا ہے رنگ برنگی پتنگیں فضا میں اڑتی نظر آتی تھیں، جھولے پڑتے تھے، پکوان تلے جاتے تھے۔ فضا میں کوئل کوکتی تھی، فاختہ اور چڑیاں چہچہاتی تھیں، آموں کے درختوں پر بور لگتے تھے، پپیہے بولتے تھے، برسات میں رنگین لہریے دار دوپٹے رنگے جاتے تھے، باغوں اور آنگنوں میں جھولے پڑتے تھے، لیکن آہستہ آہستہ سب ختم ہوتا گیا۔ بڑھتی ہوئی بے پناہ آبادی اور مہنگائی نے گھروں کے آنگن اور لان ختم کر دیے اور دہشت گردی نے لوگوں کے ان کے گھروں میں قید کر دیا، زندگی صرف صبح ملازمت پہ جانے اور واپس آنے تک محدود ہو کر رہ گئی۔

فطرت تو اب بھی وہی ہے۔ وہی سمندر ہے، وہی دریا ہیں اور وہی جھیلیں ہیں، لیکن سب کے ساحل گندے اور ویران۔۔۔۔ چاند اب بھی چمکتا ہے، لیکن اس کی طرف کوئی دیکھتا ہی نہیں کہ چاندنی راتوں میں چہل قدمی کو دہشت گردی کھا گئی، شام کا سہانا موسم اب بھی آتا ہے، لیکن سڑکوں پر ٹریفک جام میں پھنسے لوگوں کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب شام ہوئی اور کب رات ان کے سامنے اپنے بال کھولے آن کھڑی ہوئی، بہاریں اب بھی پھول برساتی ہیں، موتیا اور موگرہ اب بھی کھلتے ہیں، لیکن ان کی خوشبو گاڑیوں کے بدبودار دھوئیں میں کھو گئی۔

لوگوں کی زندگیاں بے روزگاری، مہنگائی، خوف اور مفلسی کے چکر میں ایسی پھنسیں کہ انھیں یاد ہی نہ رہا کہ گیندا اور تلسی صرف مچھر بھگانے کے لیے ہی نہیں بلکہ دوا کے طور پر بھی استعمال ہوتے تھے۔ تلسی کو گھر کے باہر اسی لیے لگاتے تھے کہ مچھر اور مکھی اندر نہ آ سکیں۔ گیندا صرف آنکھوں کو طراوت ہی نہیں بخشتا تھا بلکہ کان کے درد کا علاج بھی تھا۔ ذرا کان میں درد ہوا یا کسی جگہ پھوڑے پھنسیاں ہوئے فوراً گیندے کی پتیوں کا عرق نکال کر دو تین دفعہ کان میں ٹپکایا اور درد غائب۔ پھوڑے پھنسیوں پر گیندے کی پتیوں کو ململ کے کپڑے میں باندھ کر گرم پانی میں ڈبو کر باندھ دیا جاتا تھا، زخم کی عفونت دو تین دفعہ ہی ایسا کرنے سے ختم ہو جاتی تھی اور جلد پر کوئی داغ بھی نہیں پڑتا تھا۔

فطرت سے دوری نے بہت کچھ ہم سے چھین لیا۔ اب تو ہار سنگھار خواب و خیال ہوگیا۔ نارنجی ڈنڈی والے ننھے ننھے ہلکے پیلے پھولوں کی مہک کیا ہوتی ہے، یہ وہی جانتے ہیں جنہوں نے انھیں دیکھا ہے۔ دہلی کے ماہر باورچی ہمیشہ زردے میں رنگ کے بجائے ہار سنگھار کی ڈنڈیاں ڈال کر چاول ابالتے تھے۔ مغلئی بریانی میں بھی انھی ڈنڈیوں کو پانی میں گھول کر ڈالا جاتا تھا۔ زعفران، ہار سنگھار اور جوتری کی خوشبو سے مہکتی بریانی کی خوشبو آس پاس کے گھروں میں پہنچتی تو لوگوں کے منہ میں پانی بھر آتا تھا۔ لیکن فطرت سے دوری نے یہ سب بھی چھین لیا اور تو اور پیاز کا عرق تک کان کا درد یوں چٹکیوں میں دور کرتا ہے کہ بس حیران ہو جائیے۔

کوئی بد ذوق ہی ہو گا جسے برکھا رت کا انتظار نہ ہو، چھاجوں مینہ برستا دیکھنا کسے اچھا نہیں لگتا، سب کچھ دھل جاتا ہے، فضا نکھر جاتی ہے، مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو سے بسی ہوا دل کا سارا ملال لے جاتی ہے۔ تبھی تو عزیز حامد مدنی کہہ اٹھے:

تازہ ہوا بہار کی دل کا ملال لے گئی

پائے جنوں سے حلقہ گردش حال لے گئی

لیکن کراچی والے اب اس معاملے میں بھی تہی دست ہیں کہ برسات کی پہلی بوچھاڑ کے ساتھ ہی ر فیڈر ٹرپ ہو جاتے ہیں، بجلی کے تار ٹوٹ جاتے ہیں، متعدد لوگ کرنٹ سے مر جاتے ہیں۔ رکشہ، ٹیکسی والے ایک کلومیٹر کا کرایہ دو سو روپے مانگتے ہیں۔

وہ دن کتنے خوبصورت ہوں گے جب برسات کی بہار میں نیم کے پیڑ میں جھولا ڈالا جاتا تھا کہ نیم کے درخت کو زندگی کا درخت بھی کہتے ہیں۔ بھلا کون سا گھر ہوتا ہو گا پہلے جہاں گھر کے اندر اور باہر کہیں نہ کہیں نیم ضرور ہوتا تھا۔ تقسیم نے بہت کچھ چھین لیا، دلوں کی محبت، گرم جوشی، ہمسائے کا پیار، نیم کا درخت، بیلے کی کلیاں، چنبیلی کی خوشبو، سب کچھ… لوگ بتاتے ہیں کہ غیر منقسم ہندوستان میں نیم کے پتوں کو سکھا کر ریشمی اور گرم کپڑوں کی تہہ میں رکھا جاتا تھا تا کہ کیڑا نہ لگے۔ نیم کی نبولی کا ذائقہ میٹھا ہوتا ہے اور یہ خون کی عفونت ختم کرتی ہے۔

اطبا کہتے ہیں کہ اگر لگاتار سات دن تک صبح نہار منہ تین چار نبولیاں پانی سے نگل لی جائیں تو فساد خون کی تکلیف نہیں ہوتی، کیل مہاسے جھائیاں اور دانوں سے نجات مل جاتی ہے۔ خسرہ یا چیچک نکلنے پر نیم کے پتوں کی ہوا دی جاتی ہے، بچوں کے بستر کے نیچے اور آس پاس نیم پھیلا دیا جاتا تھا کیونکہ نیم کی افادیت مسلم ہے۔ آیورویدک اور یونانی طریقہ علاج میں خسرہ میں مبتلا بچوں اور بڑوں کو خاکسی (خاک شیر) منقیٰ اور سونف جوش دے کر پلایا جاتا ہے تا کہ جسم کے اندر سے بخار نکلے۔ لیکن اب نیم سڑک کے کنارے تو نظر آتے ہیں لیکن گھروں میں نہیں۔ البتہ قصبوں اور دیہاتوں میں یہ اب بھی بہار دکھلاتا ہے۔ لیکن اکثریت اس کے طبی خواص سے نابلد ہے۔

نیم کا درخت ثقافت کا مظہر بھی تھا۔ اب کوئی ثقافت ہی نہیں ہے تو کوئی درخت اس کی علامت کیوں کر ہو سکتا ہے۔ کہنے کو چنبیلی قومی پھول ہے لیکن کہیں نظر نہیں آتا۔ پھولوں کا ذکر ہوا اور گلاب کو یاد نہ کیا جائے، یہ کیوں کر ممکن ہے۔ میں نے اپنے گھر میں صرف سات رنگ کے گلاب دیکھے ہیں۔ سرخ، سفید، ہاف وائٹ، ہلکا گلابی، پیازی، سیاہ اور نارنجی، بہت بڑے بڑے خوبصورت گلاب۔ لیکن جو خوشبو اور مسحور کن مہک دیسی سرخ گلاب میں ہوتی ہے وہ کسی دوسرے گلاب میں نہیں اور گل قند بھی تو اسی سرخ گلاب کا بنتا ہے۔ میں نے گھر میں گل قند آفتاب بنتے دیکھا بھی ہے اور خوب کھایا بھی ہے۔

میری والدہ شاخوں پر سے گلاب توڑ کر آہستہ سے اس کی پتیاں الگ کرتی تھیں، پھر ان کو ایک قلعی دار تانبے کی دیگچی میں ڈال کر اوپر سے چینی ڈال کر چالیس دن کے لیے دھوپ میں رکھ دیتی تھیں، شام ڈھلنے پر اس دیگچی کو گھر کے اندر لے جاتی تھیں اور صبح سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی وہ دھوپ میں دوبارہ رکھ دی جاتی تھیں، لکڑی کے چمچے سے اسے دو تین بار الٹ پلٹ دیا جاتا تھا، مدت پوری ہونے پر اس مزیدار گل قند کو نہ صرف پان میں بلکہ بہت سے پیٹ کے امراض میں بھی کھایا جاتا تھا۔

پھول، موسم، رنگ یہ سب فطرت کے خوبصورت تحفے ہیں۔ ہرا رنگ آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا ہے، نیلا رنگ اعصاب کو سکون بخشتا ہے، سرخ اور نارنجی طبیعت میں شوخی اور تازگی پیدا کرتا ہے۔ لیکن یہ سب ہماری زندگیوں سے نکلتا جا رہا ہے۔ پھول، موسم اور رنگوں کی دنیا ہمارے ہاتھوں سے پھسلتی جا رہی ہے۔ نفرت، علاقائی تعصب، مذہب اور لسانی اختلافات نے پھولوں اور موسم کی جگہ لے لی ہے، یہی اب پاکستان۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے چار صوبوں کی قسمت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔