ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے

غلام محی الدین  اتوار 14 اپريل 2013
ذکر ان رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کا ، جن کا نام بھی کوئی نہیں جانتا۔ فوٹو: فائل

ذکر ان رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کا ، جن کا نام بھی کوئی نہیں جانتا۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: پاکستان الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ کے ریکارڈ کے مطابق پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی مجموعی تعداد 247 ہے جن کی مکمل تفصیل اس ویب سائیٹ پر موجود ہے۔

سیاسی جماعتوں کی اتنی بڑی تعداد کے حوالے سے دل چسپ امر یہ بھی ہے کہ اب تک ملک میں جتنے بھی انتخابات ہوئے ان میں صرف دس سے پندرہ جماعتوں نے ہی انتخابی عمل میں حصہ لیا جب کہ  باقی تمام سیاسی جماعتوں نے اس عمل کے بغیر ہی سیاست کی دکان چمکانے کا دھندا جاری رکھا ہوا ہے۔ اس دھندے میں یہ جماعتیں کبھی کام یاب اور اکثر و بیش تر ناکام ہی نظر آتی ہیں۔ ان جماعتوں کے منشور بہت متاثرکن ہوتے ہیں۔ بعض جماعتوں کے منشور تو اتنے جان دار ہوتے ہیں کہ اگر ان پر صحیح معنوں میں عمل ہوجائے تو وطن عزیز کی ساری مشکلات پہلے سال ہی میں ختم ہوجائیں۔

کوئی شہری اگر اپنی معلومات میں اضافے کے لیے ان سیاسی جماعتوں کے بارے میں تفصیل سے جاننا چاہتا ہو تو وہ الیکشن کمیشن کی ویب سائیٹ پر ان کے سربراہوں کے نام اور مرکزی دفاتر کے پتے بل کہ ٹیلی فون نمبر بھی حاصل کر سکتا ہے۔ چند بڑی سیاسی جماعتوں کے سوا تمام غیرمعروف سیاسی جماعتیں وہی ہیں جن کے نام تک کوئی نہیں جانتا مگر یہ پاکستان کے قانون کے مطابق ہر لحاظ سے ملک کی سیاسی جماعتیں کہلانے کا استحقاق حاصل کر چکی ہیں جو ان سے کوئی نہیں چھین سکتا کیوں کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر۲۰۰۲ کی رو سے یہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے قیام کے تمام تقاضے پورے کرتی ہیں۔

ان پارٹیوں کے سربراہ پارٹی منشور کے تحت صدر، چیئرمین، مرکزی چیئرمین، امیر، مرکزی صدر، چیف پیٹرن، کنوینیئر، ڈپٹی کنوینیئر، چیئرپرسن، سنٹرل چیف ایگزیکٹیو، فاؤنڈنگ چیئرمین، نیشنل چیئرپرسن، فاؤنڈر لیڈر، ادنیٰ خادم پاکستان، قائد تحریک، چیف آرگنائزر، خادم اعلیٰ پاکستان اور جنرل سیکرٹری کے ناموں سے پکارا جانا پسند کرتے ہیں۔

قانون کے تحت ہر پارٹی کو اپنے شائع شدہ منشور کی ایک کاپی الیکشن کمیشن کو فراہم کرنا ہوتی ہے اور یہ منشور پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی پارٹی کو اپنے مالی اثاثوں (آمدنی اور اخراجات) سے متعلق جملہ تفاصیل بھی ہر سال، مالی سال کے ختم ہو نے سے پہلے یعنی ساٹھ دنوں کے اندر الیکشن کمیشن کو فراہم کرنا ہوتی ہیں۔ ان اثاثوں کے سا تھ کسی مستند چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ کمپنی کا سرٹیفکیٹ بھی منسلک کرنا پڑتا ہے تاکہ اثاثوں کی جامعیت قائم رہے۔ پارٹی لیڈر کو ایک حلف نامہ بھی فراہم کرنا ہوتا ہے کہ اس نے کسی ایسے ذریعے سے فنڈ حاصل نہیں کیے جو ملکی قانون کی پکڑ میں آتا ہو۔ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 میں بارہ مختلف عنوانات کے تحت سیاسی پارٹیوں کو متعدد امور کے بارے میںآگاہ کیا گیا ہے تاکہ قواعدوضوابط پر عمل درآمد ہو سکے۔

سابق جج محمد اسلم خان۔ فوٹو: فائل

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے حال ہی میں ان سیاسی جماعتوں کے مطالبے پر پہلے سے موجود 171 انتخابی نشانات میں مزید23 نئے نشانات کااضافہ کیا ہے مگر ایک نشان ’’لوٹے‘‘ کو بعض وجوہات کی بناء پر فہرست سے خارج بھی کرنا پڑا۔ اس طرح اب انتخابی نشانات کی مجموعی تعداد 193 ہو چکی ہے جن میں سے من پسند نشانات انتخاب میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کو الاٹ کیے جائیں گے۔

قارئین ! آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ اگر اب تک صرف دس سے پندرہ سیاسی جماعتوں نے ہی ملکی تاریخ کے تمام قومی اور صوبائی انتخابات میں حصہ لیا تو پھر اتنی بڑی تعداد میں سیاسی جماعتیں معرض وجود میں آئیں کیوں کر؟ یہ ہی وہ سوال ہے جو ہمارا اصل موضوع ہے، جو ان سیاسی جماعتوں کے قیام کی حقیقی وجوہات کے علاوہ دیگر ایسے مقاصد کوبھی سامنے لائے گا جن کے باعث یہ جماعتیں قائم ہوئیں۔

دنیا بھر میں سیاسی جماعتوں کے قیام کے محرکات کا اگر تاریخی سطح پر اجمالی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مختلف ممالک میں معروف سیاسی جماعتیں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ، معاشی اورمعاشرتی سطح پر فلاح و بہبود کے  قیام اور بر سرِ اقتدار طبقے کی معاشی اور معاشرتی سطح پر ناانصافیوں کے خلاف ردعمل کی وجہ سے ہی وجود میںآئی تھیں اور ان میں شامل ہر سیاسی جماعت کا ارتقائی سفر گو کہ متعدد حوالوں سے مختلف ہے مگر بنیادی حوالے سے ہر جماعت کا سفر قریباً ایک جیسا ہی ہے جو انسان کی ہر سطح پر بھلائی کا خواہاں ہے اور رہے گا۔ کیا پاکستان میں بھی ایسا ہی ہے، اس ضمن میں جب غیرمعروف سیاسی جماعتوں کے حوالے سے سیاست، صحافت، علم اور قانون کی باریکیوں کو جاننے والوں سے بات ہوئی تو ان کی گفت گو کا لب لباب کچھ یوں رہا۔

گورنمنٹ میونسپل ڈگری کالج فیصل آبادکے ایسوسی ایٹ پروفیسر آف سائیکالوجی محترم مسعود ریاض نے پاکستان میں سیاسی جماعتوںکی اتنی بڑی تعداد پر کچھ یوں کہا ’’اس عمل کودو انداز میں دیکھا جا سکتا ہے، پہلا یہ کہ پاکستان میں مکمل سطح پر جمہوری آزادی ہے، ہر شہری اپنی سیاسی جماعت بہت آسانی سے بنا سکتا ہے، جمہوری اقدار کی نشو و نما کے لیے ہمارے ہاں قانونی سطح پر جو یہ آسانی اورنرمی دی گئی ہے، اسے خوش آئیند کہا جائے تو غلط نہ ہو گا لیکن جب ہم قانون کے تحت بننے والی ان غیرمعروف سیاسی جماعتوںکے غیرفعال کردار کو دیکھتے  ہیںتوجمہوریت کے نام پر ان کا قیام شکوک وشبہات کی نذر ہو جاتا ہے۔

گروہی یا انفرادی سطح پراس طرح کے رویے کو خود نمائی یا نمود و نمائش کا جذبہ کہا جاتاہے جومنفی ہوتا ہے اور احساس کم تری کی ہی ایک قسم ہے۔ یہ احساس یا جذبہ، کسی بھی فرد یا گروہ کواپنی ناآسودہ خواہشات کی تکمیل پر اکساتا ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ زیادہ تر گروہوں یا افراد کو علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ ایک منفی نفسیاتی کش مہ کش کا شکار ہو چکے ہیں اگر ان کو اس سے متعلق بتا بھی دیا جائے تو وہ اس کو تسلیم کرنے کے بہ جائے دلائل اور جواز پیش کرنے پر تل جاتے ہیں تاکہ ان کی ناآسودہ خواہشات سامنے نہ آ سکیں۔ اس مزاحمتی رویے کو  ہی احساس کم تری کی ایک خاص قسم کہا جاتا ہے۔

غیر معروف سیاسی جماعتوں کے قیام پر دیے جانے والے دلائل ایک عام آدمی یا شہری کے لیے تو لچھے دار اورخوش نما ہو سکتے ہیں مگر نفسیاتی تجزیے میں ان کی اصلیت مکمل طور پر کھل کر سامنے آجاتی ہے، جس میں معاشرتی اور معاشی سطح پر بلیک میلنگ میں آسانی، منفی اور باغیانہ ردعمل سے تسکین کا حصول، پدرم سلطان بودکی آڑ میں رہنا، جوڑ توڑ کا چسکا پورا ہونا، ’’ادھر تم ادھر ہم‘‘ کے فائدے، مالی مفادات کے گورکھ دھندے کا کھیل جاری رہنا، سیاست کو بہ طور طاقت ور پیشے کے استعمال کرنا، شہرت کی بھوک اوراقتدارکی ہوس اور اسی نوعیت کے دیگراجزا  اس میں شامل ہوتے ہیں‘‘۔

غیرمعروف سیاسی جماعتوں میں بہ تدریج اضافے پر اسلام آباد کے سینیئر ماہرِ بشریات اور صحافی عبدالجبار ذکریا، جن کی صحافت کے ساتھ معاشرتی اور سماجی تغیرات پر بھی گہری نظر ہے، کہتے ہیں’’سب سے پہلے ہمیں سیاسی جماعت کے لغوی معنی سمجھنے ہوں گے۔ سیاسی جماعت، سیاسی گروہ بندی کا نام ہے جو کسی بھی خطے میںایک ریاست کے اندر قائم حکومت یا اس حکومت میں حصے دار بننے کے لیے سیاسی طاقت کے حصول کے لیے تشکیل دی جاتی ہے تاکہ ریاست میں انتخابی مہم، تعلیمی اداروںمیں فعالیت یا پھر عوامی احتجاجی مظاہروں کی مدد سے اپنی موجودی اور طاقت کا مظاہرہ کیا جا سکے۔

 

پروفیسر مسعودریاض، سینئر صحافی عبدالجبار ذکریا۔ فوٹو: فائل

سیاسی جماعتیں اپنے نظریات، منصوبے اور اپنے نقطۂ نظر کو تحریری شکل میں جب عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں تو وہ تحریری دستاویز ان کا منشور کہلاتی ہے جس سے سیاسی جماعت کی ذہنیت اور مخصوص اہداف کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، ان ہی اہداف کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کے مابین اتحاد بنتے یا ٹوٹتے ہیں۔ پاکستان میں بہ ظاہر تو سب کچھ ایسا ہی ہے مگر عملی سطح پر ایسا ہر گز نہیں ہو رہا۔ ایک مصدقہ رپورٹ کے مطابق قومی سطح پر معروف صرف 13 سیاسی جماعتیں ہیں، اس حقیقت کے بعد ہم سب کی سمجھ میں آجانا چاہیے کہ سیاسی جماعتوں کی اتنی بڑی تعدادکی اصل وجہ کیا ہے؟ وجہ صرف اور صرف ایک ہے ’’ طاقت کا حصول‘‘۔

طبقاتی معاشروں میں ہر سطح پر طاقت کا حصول وہاں کے کم زور عوام کی لاشعوری اور بااثر طبقوں کی شعوری ضرورت اور خواہش بن جاتی ہے پھر اس طاقت کے حصول کی راہ میں کسی طرح کا کوئی اخلاقی جواز ٹہھر نہیں سکتا، اس ضرورت یا خواہش کی تسکین کے لیے صاحب ثروت طبقات اور موقع پرست لوگ یا تو پہلے سے موجود سیاسی پارٹیوں میں شامل ہو جاتے ہیں، پرانی پارٹی بدل لیتے ہیں یا پھر اپنی نئی پارٹی بنا کر دولت و اقتدار کی مچھلی پھانسنے کے لیے کانٹے پر کیچوا اڑس کر پانی میں ڈال دیتے ہیں۔  تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد جتنی بھی سیاسی جماعتیں معرض وجود میں آئیں، ان کے بننے کے محرکات یہ ہی تھے، سو غیرمعروف سیاسی جماعتوں کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ اگر ہم نے اس بارے میں قانونی، سماجی اور علمی سطح پر نہ سوچا تو آنے والے دنوں میں اس زکام میں اور بھی بے شمار مینڈکیاں مبتلا ہوں گی‘‘۔

لاہور ہائی کورٹ کے سینیئر وکیل اورسابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد اسلم خان، جنہوں نے دوران ملازمت متعدد اضلاع میں ضلعی سطح پر قومی اور صوبائی انتخابات کی نگرانی کے فرائض سرانجام دیے اور بہ حیثیت جج احتساب کورٹ سیاسی اور مالی بدعنوانیوں کے ریفرینسز پر مبنی مقدمات کے فیصلے بھی کیے ہیں، اس بارے میں کہتے ہیں ’’سیاسی جماعتوں کے قیام سے متعلق پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002  اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے بعض فیصلوں کی روشنی میں موجودہ ایکٹ کے اندر شقوں کاجائزہ لینا ہو گا، جب تک یہ موجود ہیں، اس وقت تک غیرمعروف سیاسی جماعتوں کی سرسوں  پھولتی رہے گی۔

پولیٹیکل پارٹیز آرڈر میں ترمیم کا اختیار تو قومی اسمبلی کو ہے مگر ملک کی اعلیٰ عدالتیں بھی اس قانون میں اُس وقت ترمیم کرنے کا اختیار رکھتی ہیں جب کوئی شہری عدالت میں اِس آرڈر کو چیلنج کرے اور اس کے اندر موجود سُقم ثابت کر دے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’قانون بُرا نہیں مگر ہمارے ہاں اِس کی آڑ میں مفاد پرست سیاسی اور غیرسیاسی طبقوں نے اِس کو جس بری نیت کے ساتھ استعمال کیا ہے وہ برا ہے، بالکل اُسی طرح جس طرح چھری سے پھل بھی کاٹا جا سکتا ہے اور کسی کی گردن بھی اڑائی جا سکتی ہے۔

اِس آرڈر کی شقیں بادی النظر میں بُری نہیں لیکن سیاسی پارٹیوں کے قیام کی آڑ میں جو کچھ ہو رہا ہے اُس کو ہم اخلاقی اور معاشرتی اقدار کے تناظر میں اچھا یا بُرا ضرور قرار دے سکتے ہیں‘‘۔ جج صاحب کے مطابق ’’پولیٹیکل پارٹیز آرڈر2002 قانون کے تحت آئین کی شق ’’فریڈم آف ایسوسی ایشن‘‘ کی وضاحت کرتا ہے، جس کی آڑ میں غیرمعروف سیاسی جماعتیں اور ان کے ارکان اپنے ذاتی اور گروہی رعب و دبدبے کے زور پر ہر طرح کے فائدے اٹھا رہے ہیں۔ اس میں ملک کے اندر اور باہر چندے اکٹھے کرنے کی قانونی اجازت سے لے کر تھانہ کچہری کی سیاست تک سب کچھ آ جاتا ہے‘‘۔

ہمارا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہماری مقتدر اشرافیہ تاریخ کو بھی اپنی پسندیدہ شکل دینے کی مکروہ کوشش کرتی رہتی ہے۔ ایک حکومت اقتدار سے الگ ہوتی ہے تو دوسری آکر اپنی پیش رو پر الزامات دھرنا شروع کر دیتی ہے۔ فوج جب کسی سیاسی حکومت کو گھسیٹ گراتی ہے تو پٹاری کھول دیتی ہے اور اس میں سے ایک سے ایک الزام برآمد کرنا شروع کر دیتی ہے اسی طرح جب سیاست دانوں کو ایوانوں میں بیٹھنے کا موقع ملتا ہے تو وہ بھی اسی عمل کا اعادہ شروع کر دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی معصومیت اور تقدس کا پراپیگنڈا کرنا نہیں بھولتے یعنی ہر کہ آمد عمارتِ نو ساخت (جو آتا ہے نئی عمارت تعمیر کرتا ہے)۔

وہ اور تو اور معصوم بچوں کو تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے والی کتابوں کو بھی اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے استعمال کرتے ہیں، اس طرح تاریخ کا چہرہ بار بار مسخ کیا جاتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری نوجواں نسل حقیقی تاریخ کا شعور و ادراک نہیں رکھتی اور جب اسے سچائی کی طرف مبذول کرایا جاتا ہے تو وہ مخمصوں اور شکوک میں مبتلا ہوجاتی ہے، اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کس پر یقین کیا جائے۔ چہ کنم کی یہ کیفیت انتہا پر پہنچ جائے تو قاری ’’بھاڑ میں جائے‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے تاریخ اور اس کے عمل پر تین حرف بھیج کر بے گانہ ہو جاتا ہے۔

اس انفرادی اور اجتماعی رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو سیاسی جماعتوں کے بے طرح ’’اُگاؤ‘‘ کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے اور اس کے بعد ملک میں کتنی جماعتیں کارفرما تھیں اور آج کیا صورتِ احوال ہے؟ ہندسے خود بتائے دیتے ہیں کہ سیاسی استحکام کی آڑ میں کھڑی ان جماعتوں نے کس بری طرح سے عوامی مفادات کو نظرنداز کیا اور یہ شترِ بے مہار کھیل اب بھی جاری ہے، نکیل کون ڈالے؟

ہماری سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ آج تک کسی بھی سیاسی جماعت نے اپنے منشور پرعمل نہیں کیا، اگر کسی جماعت کے رکن نے منشور پر عمل درآمد کی بات کی تو سیاسی پارٹی کے سربراہوں نے ایسے نظریاتی کارکن کے ساتھ ایسا ایسا کھلواڑ کیا کہ وہ بے چارا ’’بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا‘‘ کی دردناک آہیں بھرتا بگٹٹ ہو جاتا ہے، بعض سخت جاں ڈٹے ہیں تو ’’قائدین گرامی قدر‘‘ کے ہاتھوں دوسروں کے لیے عبرت کا نشان بنے۔

سچ تو یہ بھی ہے کہ بعض سیاسی جماعتیں معروف ہوں یا غیر معروف، وہ اپنی ساری توانائیاں بلیک میلنگ، جوڑ توڑ، بد عنوانی، لسانی، علاقائی، مذہبی اور طبقاتی تقسیم اور استحصال کے ذریعے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے وقف کر دیتی ہیں، طُرفہ تماشا یہ بھی کہ عوام ہی ان جماعتوں کو اپنا لہو دے کر برسوں سے پال پوس رہے ہیں، جس بے سوچے سمجھے عمل کو لوگ جمہوریت کے لیے قربانی سمجھتے ہیں، وہی عمل ان کے لیے عذاب بن چکا ہے۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں اور یقیناً درست ہی کہتے ہیں کہ ہماری سیاسی جماعتیں اگر اپنی مٹی سے مخلص ہوتیں تو اس سرزمین پر  آمریت کے یہ گوشت خور پودے اگنے اور پنپنے ہی کیوں پاتے۔

سیاسی جماعتوں کی فہرست

یہاں ان تمام سیاسی جماعتوں کے نام دیے جا رہے ہیں جو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس باقاعدہ رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں چند نام تو وہ ہیں جو آج کل کثرت کے ساتھ آپ کی بحث کی گرما گرمی کو بڑھاوا دے رہے ہیں لیکن بے شمار ایسے نام بھی آپ کی نظر سے گزریں گے جنہیں پڑھ کر آپ کو حیرت ہوگی کہ اچھا یہ بھی ہماری نمائندگی کی دعوے دار ہیں۔ ان کے سربراہوں کے نام اور صدر دفاتر کے مقامات کی بھی فہرست موجود ہے تاہم اس میں الجھانا قاری کو بے زار کر سکتا ہے، البتہ یہ امر قاری کی دل چسپی کے باعث ضرور بنے گا کہ ان جماعتوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، گذشتہ برس ان کی کل تعداد  223 تھی تو اس سال  ان کی تعداد بڑھ کر 247 ہو چکی ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی،عوامی قیادت پارٹی، عظمت اسلام موومنٹ، بلوچستان نیشنل کانگریس، بلوچستان نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، ہزارہ قومی محاذ، اسلامی سیاسی تحریک، جمعیت مشائخ پاکستان، استقلال پارٹی، اتحاد ملی ہزارہ، جماعت اہل حدیث پاکستان (روپڑی)، جمہوری وطن پارٹی، مرکزی جمعیت علمائے پاکستان (شریف رضوی)، جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت علمائے پاکستان (نفاذ شریعت)، جاموٹ قومی موومنٹ، کاکڑ جمہوری پارٹی پاکستان، مرکزی جماعت اہل حدیث (زبیر)، مرکزی جمعیت اہل حدیث (لکھوی گروپ)، مہاجر قومی موومنٹ پاکستان، مہاجر اتحاد تحریک، مہاجر کشمیر موومنٹ، محب وطن نوجوان انقلابیوں کی انجمن، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، نیشنل پیپلز پارٹی ورکرز گروپ، نظام مصطفی پارٹی، پاک وطن پارٹی، پاک مسلم الائنس، پختونخوا قومی پارٹی، پاکستان عوامی قوت پارٹی، پاکستان عوامی تحریک، پاکستان عوامی تحریک انقلاب، پاکستان بروہی پارٹی، پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی، پاکستان فریڈم پارٹی، پاکستان غریب پارٹی، پاکستان ہم وطن پارٹی، پاکستان اتحاد تحریک، پاکستان جمہوری امن پارٹی، پاکستان مقصدحمایت تحریک، پاکستان مزدور کسان پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان مسلم لیگ (قاسم)، پاکستان مسلم لیگ (قیوم گروپ)، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی (شہید بھٹو)، قومی وطن پارٹی (شیرپائو)، پاکستان پیپلز پارٹی (پارلیمنٹیرین)، پاکستان پروگریسو پارٹی، پاکستان پروگریسو پارٹی (ثریا فرمان گروپ)، پاکستان سرائیکی پارٹی، پاکستان شیعہ پولیٹیکل پارٹی، پاکستان سوشل ڈیموکریٹک پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، پاکستان ورکرز پارٹی، پنجاب نیشنل فرنٹ، پنجاب نیشنل پارٹی، قومی انقلاب پارٹی، قومی تحفظ پارٹی، سرائیکی صوبہ موومنٹ پاکستان، شان پاکستان پارٹی، سندھ اربن رورل الائنس، پاکستان سنی تحریک، تعمیر پاکستان پارٹی، تحریک حسینیہ پاکستان، تحریک جمہوریت پاکستان، تحریک وفاق پاکستان، تحریک استقلال، تحریک مساوات، متحدہ مجلس عمل پاکستان، اسلامی تحریک پاکستان، جمعیت علمائے اسلام(س)، جمعیت علمائے اسلام (ف)، جمعیت علمائے پاکستان (ن)، جماعت اسلامی پاکستان، مرکزی جمعیت اہل حدیث (س م)، نیشنل الائنس، سندھ نیشنل فرنٹ، نیشنل عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)، ملت پارٹی، نیشنل پیپلز پارٹی، عوامی حمایت تحریک پاکستان، صوابی قومی محاذ، پروگریسو  ڈیموکریٹک پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز (پیٹریاٹ)، پاکستان مسلم لیگ، پاکستان مسلم لیگ (ف)، پاکستان مسلم لیگ (ض)، سندھ ڈیموکریٹک الائنس، غریب عوام پارٹی، پاکستان فاطمہ جناح مسلم لیگ ، نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل موومنٹ، افغان نیشنل پارٹی، پشتون قومی تحریک، تحریک استقلال پاکستان، قومی جمہوری پارٹی، پاکستان امن پارٹی، پاکستان پیپلز موومنٹ، جنرل پرویز مشرف حمایت تحریک، جمعیت اہل حدیث پاکستان (الہی ظہیر)، مرکزی جمعیت مشائخ پاکستان، پاکستان سٹیزن موومنٹ، پاکستان تحریک انقلاب، روشن پاکستان پارٹی، پاکستان قومی لیگ، بیدار پاکستان، پاکستان تحریک پیغام، پاکستان سوشل جسٹس پارٹی، پاکستان قومی پارٹی، آزاد پاکستان پارٹی، سندھ یونائٹیڈ پارٹی، پاکستان بچائو پارٹی، پاسبان، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، کرسچین پروگریسو موومنٹ، پاکستان محافظ پارٹی، مسیح عوامی پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (شیربنگال)، سلام پاکستان پارٹی، تحریک تبدیلی نظام پاکستان، پاکستان گرین پارٹی، عوامی مسلم لیگ پاکستان، انسانیت پارٹی (پاکستان)، مستقبل پاکستان، پاکستان نیشنل مسلم لیگ، لوئر مڈل پارٹی، پاکستان میو اتحاد، پاکستان قومی تحریک آزادی، پاکستان اوورسیز لیگ، جیوے پاکستان پارٹی، پاکستان ڈویلپمنٹ پارٹی، کاروان ملت پاکستان، پاکستان ڈیموکریٹک لیگ،  پاکستان مدرلینڈ پارٹی، ہزارہ عوامی اتحاد پاکستان، جمعیت علمائے اسلام (نظریاتی)، پاکستان اتحاد یقین تنظیم پارٹی، جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی پاکستان، پاکستان ینگ بلڈ کرسچین لیگ، پاکستان مسلم لیگ’’ایچ‘‘ حقیقی، پاکستان دھرتی ماں پارٹی، عوامی جسٹس پارٹی، پاکستان پٹیریاٹک موومنٹ، سندھ ترقی پسند پارٹی، اللہ اکبر تحریک، پیپلز ڈیموکریٹک لیگ، عوامی جمہوری اتحاد پاکستان، عوامی تحریک بحالی صوبہ بہاولپور پاکستان، پاکستان بیسک رائٹس موومنٹ، تحریک صوبہ ہزار، آل پاکستان مسلم لیگ، اسلامک ری پبلک پارٹی، پاکستان راہ حق پارٹی، روشن پاکستان لیگ، پاکستان پیپلز الائنس، احیائے کلام اللہ فرمان رسولؐ، جنت پاکستان پارٹی، تحریک استحکام پاکستان، پاکستان مہاجر لیگ، بہاولپور نیشنل عوامی پارٹی، متحدہ مسلم لیگ، اتحاد عالم اسلام، مسلم موومنٹ پاکستان، عوامی تحریک، سندھ دوست اتحاد، پاکستان لبریشن لیگ، عوامی اتحاد پارٹی، پاکستان مسلم لیگ(متحدہ)، پیپلز مسلم لیگ پاکستان، متحدہ قبائل پارٹی، پاکستان کنزرویٹو پارٹی، آل پاکستان مینارٹیز الائنس، پاکستان مسلم لیگ کونسل، صدائے پاکستان پارٹی، تحریک اتحاد آدم، آل پاکستان یوتھ ورکنگ پارٹی، خود مختار پاکستان پارٹی، پاکستان یونائیٹڈ انقلاب پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ڈیموکریٹک، پاکستان مسلم لیگ (صفدر)، وطن نیشنل لیگ پاکستان، کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان، پاکستان جسٹس پارٹی، پاکستان محمدی پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ہم خیال، پبلک فورم، پاکستان فلاح پارٹی، پاکستان حزب اللہ پارٹی، آل پاکستان پیپلز قومی موومنٹ، آل پاکستان کرسچین لیگ، پاکستان نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی، متحدہ کاروان پاکستان پارٹی، تحریک عوامی انقلاب پارٹی، تحریک تحفظ پاکستان، مددگار پاکستان، پاکستان جمہوری اتحاد، استحکام پاکستان موومنٹ پارٹی، تحریک اسلام پاکستان، اسلامی نظریاتی تحریک پاکستان، متحدہ بلوچ موومنٹ پاکستان، پاکستان قومی موومنٹ، پاک جسٹس پارٹی(حقیقی) ، پاکستان غرباء پارٹی، پاکستان عوامی انقلاب، جمعیت علمائے پاکستان(سواد اعظم)، تحریک اتحاد امت پاکستان، پاکستان انقلابی خدمتگار تحریک، موو آن پاکستان، عوامی ورکرز پارٹی، پاکستان پروگریسو پارٹی (حقیقی)، سرائیکستان قومی اتحاد، پاکستان ویلفیئر لیگ، سنی اتحاد کونسل، میناکریسی ایشن پارٹی، پاکستان انسانی حقوق پارٹی، پاکستان ری پبلکیشن پارٹی، افغان قومی موومنٹ (پاکستان)، تحریک دفاع پاکستان، پاکستان مسیحی لیگ، پاکستان محافظ وطن پارٹی۔

اب ذیل میں ان جماعتوں کے نام دیکھیے، جو خیر سے تازہ تازہ اس ’’وادیٔ پر خار‘‘ میں داخل ہوئی ہیں:  محب وطن روشن پاکستان،  مجلس وحدت مسلمین پاکستان،  ہیومن ڈویلپمنٹ موومنٹ،  حقیقی جاموٹ قومی موومنٹ،  تحریک پس ماندہ عوام پاکستان،  تحریک احساس پاکستان، اسلامی انقلاب پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (جے)،  تنظیم اہل سنت، نیشنل پیس اینڈ جسٹس پارٹی،  تحریک ایمان پاکستان، سیاسی تحریک نجات،  آل پاکستان بے روزگار پارٹی،  پاکستان مسلم لیگ (نظریاتی)،  متحدہ جمعیت علمائے پاکستان، تاجر عوام موومنٹ پاکستان،  پیپلز ریولوشنری کانگریس،  پاکستانی اسلامی جسٹس پارٹی،  محب وطن موومنٹ،  جسٹس جسٹس پارٹی،  آپ جناب سرکار پارٹی،  پاکستان ہیومن پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (زہری گروپ)،  پاکستان کسان اتحاد۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔