یہ چھوٹی چھوٹی کاوشیں جو معاشرے کو تبدیل کرسکتی ہیں

منال علی خان  اتوار 14 اپريل 2013
دنیا میں مثبت رویوں کے فروغ کے لیے ہم اپنا کردار ادا کرنا بھول چکے ہیں۔. فوٹو: فائل

دنیا میں مثبت رویوں کے فروغ کے لیے ہم اپنا کردار ادا کرنا بھول چکے ہیں۔. فوٹو: فائل

موجودہ دور میں کوئی بھی شخص زمانے سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔

یہ کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ دنیا میں مثبت رویوں کے فروغ کے لیے ہم اپنا کردار ادا کرنا بھول چکے ہیں۔ آج کے دور میں زندگی کی مصروفیت اور پریشانیوں میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ عوام کی اکثریت کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔

اس صورت حال میں ہمارے لیے یہ بہت اہم ہے کہ ہم بحیثیت ایک شہری، پڑوسی، دوست اور ساتھی کارکن کے، اپنے عمل سے دوسروں کو اہمیت دیں، مسکراہٹیں بانٹ کر نہ صرف ہم لوگوں کے دل جیت سکتے ہیں بلکہ ہمارا یہ عمل ان کی صحت پر بھی مثبت طور پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ اس طرح ہم دوسروں کو متاثر کرکے مثبت سوچ و عمل اور ایک دوسرے کے لیے احترام کے جذبے کو یقینی طور پر فروغ دے سکتے ہیں۔ ملک میں امن و امان اور معیشت کی موجودہ مخدوش صورت حال کے باعث، ہماری ذاتی زندگی سے جڑے رشتوں کی بقاء کے لیے مثبت رویوں کا مظاہرہ کرنا اور بھی ضروری ہوجاتا ہے۔

ایک روز فیس بک پر آنے والی نیوز فیڈ سے مجھے اندازہ ہوا کہ تقریباً ہر شخص نے ملک کی صورت حال پر مایوس اور منفی تبصرے کیے ہیں۔ شہر میں ہونے والی ہڑتال کے باعث کوئی ایروبک کلاس لینے جِم نہیں جا پایا تو کوئی اور ضروری کام نہیں سرانجام دے پایا۔ جیسے جیسے میں تبصرے پڑھتی جا رہی تھی مجھے محسوس ہورہا تھا جیسے یہ ناامیدی اور مایوسی ہماری زندگیوں کوایک وائرس کی طرح متاثر کررہی ہے، جو کبھی ختم نہیں ہوگا۔ لوگ ملک کی خوف ناک صورتحال پر اپنی اپنی رائے کا اظہار تو کر رہے تھے، مگر کوئی بھی صورت حال کی بہتری کے لیے اپنے رویوں اور عمل میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کا خواہاں نہیں تھا۔ اس کی وجہ شاید خود پرستی اور خود غرضی ہے۔

اس تمام صورت حال کے باوجود آپ کو ایسے لوگ ملیں گے جو بے لوث اور مخلص ہو کر چھوٹی چھوٹی کوششوں سے دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹیں اور خوشیاں بکھیر کر ان کو یہ احساس دلا رہے ہیں کہ وہ واقعی بہت اہم ہیں۔ آپ ایسے لوگوں کو دیوانہ کہیں گے مگر در حقیقت یہی لوگ انسانیت کے جذبے سے مالا مال ہیں۔ ان کے بے لوث اعمال ہماری ستائش و تحسین کے بجا طور پر حق دار ہیں۔

فوٹو: فائل

ہم نوجوانوں کے اس گروپ کی مثال دے سکتے ہیں جس نے اُس کوڑے کرکٹ کو صاف کرنے کے لیے آپریشن ’کلین اپ‘ شروع کیا جو ایک اسلام مخالف فلم کے خلاف کیے جانے والے احتجاج کے دوران، توڑپھوڑ کے نتیجے میں پھیلا تھا۔ ان نوجوانوں نے دیواروں پر از سرِنو رنگ کیا، سڑکیں صاف کیں۔ جھاڑو لیے نوجوانوں کا ساتھ دینے کے لیے موجود ایک چھے سالہ بچی کا کہنا تھا کہ اگر میں صفائی کا کام کر سکتی ہوں تو پھر دوسرے بچے بھی کرسکتے ہیں۔

آپ نے اسلام آباد کے اس بائیس سالہ لڑکے کے بارے میں سنا ہوگا جس نے اپنی بائیسویں سال گرہ کو بائیس اچھے کام کرکے منایا۔ جیسے، گاڑیوں کے گندے شیشے صاف کرنا، بچوں کو غباروں کے تحفے دینا وغیرہ۔ اس لڑکے کا مقصد دوسروں کو متاثر کرکے ان پر یہ واضح کرنا تھا کہ اگر ہر کوئی اچھائی کے ایسے ہی چھوٹے چھوٹے کام کرنے لگے تو ہم دنیا کو بہتر اور پرمسرت بنا سکتے ہیں۔

اسی طرحThe Citizens Archive of Pakistan کا منصوبہ، Humans of Karachi ہے، جس کا مقصد تخلیقی تصاویر کے ذریعے کراچی کے مختلف رنگوں کو پیش کرنا، پاکستان کی ہمہ جہت تاریخ کو دستاویز کی صورت دینا، باہمی اتحاد کا فروغ اور شہری ذمہ داری کے جذبے کو اجاگر کرکے، بہتر مستقبل کی تعمیر کی بنیاد رکھنا ہے۔ ان لوگوں نے تصاویر کے ذریعے پاکستانیوں کا مثبت رخ اور پاکستان میں ہونے والے اچھے کاموں کو سوشل میڈیا، خاص کر فیس بک کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلادیا ہے تاکہ دنیا کو یہ تاثر ملے کہ پاکستان رہنے کے لیے برا ملک ہر گز نہیں ہے۔ کوئی بھی شخص اس فورم پر اپنی تصاویر دوسروں تک، دنیا تک پہنچا سکتا ہے۔ مثلاً انہی تصاویر میں سے دو تصاویر نے میرے لبو ں پر بے ساختہ مسکراہٹ بکھیر دی۔

ایک تصویر کا عنوان تھا ، The Girl With April In Her Eyes ، یہ تصویر بوٹ بیسن پر بیس روپے میں گلاب بیچنے والی ایک چھے سالہ بچی کی تھی۔ فوٹو گرافر ، جو پاکستان میں چائلڈ لیبر پر لکھے جانے والے مواد کی مصنفہ بھی ہے، اس بچی کی چند تصاویر لینا چاہتی تھی۔ بچی نے اس سے دریافت کیا کہ و ہ یہ تصاویر کیوں لے رہی ہے، اور وہ فوٹوگرافر سے یہ جان کر خوش ہوگئی کہ اس کی تصاویر کسی میگزین میں شائع ہوں گی۔ وہ مشہور ہوگئی تھی۔ فوٹوگرافر نے لکھا کہ اگر کبھی آپ اس علاقے میں ہوں تو یہ بچی بات کرنے کے لیے سب سے حسین انسان ہوگی۔ Humans of Karachi کی طرح Humans of Lahore اور Humansof Islamabad کے پیجز بھی اسی طرح کی تصاویر سے مزین ہیں۔

پولینڈ سے تعلق رکھنے والی Elzbieta Domagalska نے کراچی پر تقریباً ایک سال کام کیا ہے۔ وہ ایک دن اپنے دوست کے ساتھ بائیک پر سفر کے لیے جانے والی تھی۔ اپنے دوست کے انتظار میں کھڑی وہ سڑک پر رہنے والے پس ماندہ بچوں سے گفتگو کرنے لگی ۔ وہ اور اس کا دوست ان بچوں کو کچھ دور تک بائیک پر سیر کرانے لے گئے اور بائیک کے ساتھ ان بچوں کی تصاویر بھی لیں۔ یہ بچے غیر ملکیوں کے ساتھ گھوم پھر کر اور تصاویر کھنچوا کر خوشی سے نہال ہوگئے تھے۔

فوٹو: فائل

کراچی کی ایک رہائشی خاتون نے بلوچ کالونی کے قریب تیس منٹ کے ٹریفک جام پر اپنے اور اپنے آس پاس موجود لوگوں کے رویے پر ندامت محسوس کرتے ہوئے فیس بک پر اپنا اسٹیٹس اپ ڈیٹ کیا۔ اس نے اس وقت ایک پولیس والے کو دیکھا جو تنہا بے ہنگم اور بے ترتیب ٹریفک کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اسی دوران رنگ اڑی ٹی شرٹ پہنے ایک بائیک سوار نے، جس کی عمر بمشکل بیس سال ہوگی، اچانک ایک نعرہ لگایا، چلو۔ یوں لگا جیسے وہ کسی ان دیکھی فوج کو بلا رہا ہو، مگر چند ہی منٹوں میں بولی وڈ اسٹائل میں کئی لڑکے موٹر سائیکلوں پر آگئے (ان لڑکوں کے بارے میں، میں غلط اندازہ لگا بیٹھی تھی) ان لڑکوں نے پولیس والے کے ساتھ مل کر ٹریفک کو کنٹرول کرنا شروع کردیا۔ کچھ ہی دیر میں ٹریفک کی روانی بہتر ہوگئی، ڈرائیور خواتین و حضرات نے کھڑکیوں سے ہاتھ ہلاکر ان بلند حوصلہ نوجوانوں کا شکریہ ادا کیا۔

یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ چند با ہمت نوجوان لڑکوں نے ، ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ کر شکایتیں کرنے کے بجائے، رضاکارانہ طور پر کچھ وقت مثبت تبدیلی کے لیے وقف کیا۔ تیز رفتار زندگی، ذاتی مسائل اور پریشانیوں میں گھرے ہونے کے باعث، ہم میں سے اکثر لوگ ، دوسروں کے لیے اس طرح کے اچھے کام کرنے کے جذبے سے محروم ہوچکے ہیں، اسی لیے اس طرح کے چھوٹے مگر اچھے کاموں کو ہم بے زاری سمجھتے ہیں اور ان کی اہمیت کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں، حالاںکہ سوچا جائے تو سمندر کا ہر قطرہ ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

اچھائی کے لیے ہماری ایک چھوٹی سی کوشش، دوسروں کو متاثر کر کے اور منفی رجحانات / رویوں کو ختم کرکے مثبت طرز فکر اور طرز عمل کو فروغ دے سکتی ہے، جس کی ہمارے ملک کو اشد ضرورت ہے۔ Intuition Coach اور مصنفہ Angela Artemis نے ایک بار کہا تھا،’’اچھائی کا ایک عمل تالاب میں اس پتھر کی مانند ہے، جس سے پانی کی سطح پر دور دور تک لہریں پیدا ہوجاتی ہیں۔ ہم اپنے پڑوسیوں سے حُسنِ سلوک سے پیش آرہے ہوں تو یہ مثبت رویہ، پانی کی لہروں کی طرح دوسرے پڑوسیوں تک بھی پہنچنے لگتا ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔