کیا جمہوریت، صرف الیکشن کانام ہے؟

راؤ منظر حیات  ہفتہ 21 اپريل 2018
raomanzar@hotmail.com

[email protected]

“ہمارے ملک کی سیاست نرسری اسکول کی سطح پرجاچکی ہے۔یہ وقت ہے کہ میں ایک بالغ انسان کی طرح فیصلے کروں”۔پاکستان کی سیاست کے متعلق بات نہیں ہورہی جہاں سیاست کوذمے داری کے ساتھ منسلک کرنے میں اجتماعی طورپرناکام ہوچکے ہیں۔یہ جملہ ناروے کی وزیر  انصاف سلوی لستھوگ(Silvi Listhaug)کاہے۔کوئی پرانی بات بھی نہیں۔صرف چندہفتے پہلے کاواقعہ ہے۔ سلوی،ناروے کی حکومتی پروگریس پارٹی کی اہم ترین وزیر تھی۔

بیرون ملک سے آنے والے لوگوں کی شہریت لینے کے متعلق اس کے خیالات انتہائی سخت تھے۔دوسری جنگِ عظیم کے بعدپہلی مرتبہ ہواتھاکہ ناروے میں دائیں بازو کی حکومت قائم ہوئی تھی۔پروگریس پارٹی کامنشورہی یہ تھابلکہ ہے کہ باہرسے آنے والے لوگوں کوشہریت بہت چھان بین کرکے دینی چاہیے کیونکہ آنے والے چندافراددہشت گردی اور  بنیادپرستی کومعاشرے میں ساتھ لے کرآتے ہیں۔

ناروے کی واضح اکثریت سلوی کے خیالات سے متفق تھی۔ناروے میں کچھ واقعات ایسے ہوئے تھے جن میں مہاجرین نے دہشت گردی کی واردات کرنے کی کوشش کی تھی۔سلوی کا نکتہِ نظربہت واضح اورپختہ تھا۔یہ سب کچھ ایک طرف۔ مگر جو واقعہ سلوی کی پوری سیاست کوختم کرگیا،انتہائی اہم ہے۔

وزیرکے طورپراس نے پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیا۔بل میں درج تھاکہ اگرناروے میں کوئی شخص بھی دہشت گردی میں ملوث ہوااوریہ اَمرثابت ہوجائے تواس کی ملکی شہریت ختم کردی جائے۔پارلیمنٹ میں ممبران نے اس انتہائی قدم کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قراردیااورووٹنگ میں بل مستردہوگیا۔سلوی سے غلطی یہ ہوئی کہ فیس بُک پرایک پیغام لکھ دیاکہ شائدممبران دہشت گردوں کے حقوق کو ناروے کی سلامتی سے اہم سمجھتے ہیں۔

صرف ایک جملے نے پورے ملک میں ہیجان برپاکردیا۔پارلیمنٹ اوراس کے باہرلوگوں نے سرِعام کہناشروع کردیاکہ بے شک وہ اصولی طورپر بیرون ملک سے آنے والے کوشہریت دینے کے خلاف ہیں۔مگریہ فقرہ ظاہرکرتاہے کہ سلوی،مہاجرین کی عزتِ نفس کواہم نہیں سمجھتی۔اس کے نزدیک انسانی حقوق کی کوئی قدرومنزلت نہیں ہے۔اگرکسی بھی کمیونٹی کاکوئی شخص دہشت گردی میں ملوث ہوتاہے تواس کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے۔

مکمل طورپرسفیدفام سوسائٹی میں اتناارتعاش پھیل گیاکہ سلوی نے ٹی وی پرآکرپوری قوم سے معافی مانگی اوروزارت سے استعفیٰ دیدیا۔میرامقصداس واقعہ سے صرف یہ ثابت کرناہے کہ جمہوریت دراصل بھرپورذمے داری کانام ہے۔ آپ اس نظام میں کسی کاحق نہیں مارسکتے۔اپنے دشمن کابھی نہیں۔برطانیہ میں جمہوری قدروں کی ایک مثال انتہائی اہم ہے۔ صرف چندماہ پہلے پریتی پٹیل کابینہ کی اہم ترین ممبرتھی۔برطانیہ کاای یوسے نکلنے کی مہم میں خاتون سیاستدان کاکلیدی کردارتھا۔اسے “بین الاقوامی ترقی”کی وزارت دی گئی ۔چندماہ پہلے پٹیل افریقہ کے سرکاری دورے پرگئی۔یہ عام ساسرکاری دورہ تھا۔

افریقہ کے سرکاری دورے کے درمیان پٹیل نے ایک جگہ اسرائیلی افسران سے ملاقات کی۔اس میں بھی کسی قسم کی غیرمعمولی بات نہیں تھی۔برطانیہ اوراسرائیل کے انتہائی قریبی تعلقات ہیں اوردونوں ممالک ایک دوسرے کے نزدیکی اتحادی ہیں۔پریتی پٹیل سے غلطی یہ ہوئی کہ اسرائیلی اہلکاروں سے ملاقات کاتذکرہ سفارت خانے سے نہیں کیا۔بلکہ جب وہ بطوروزیرملنے گئی،تو  سفارت خانے کاکوئی افسربھی اس کے ساتھ نہیں تھا۔دیکھنے میں یہ معمولی سی غلطی تھی۔مگرجب برطانوی حکومت کومعلوم ہواکہ بغیراجازت کے وزیرنے غیرملکی اہلکاروں سے ملاقات کی ہے اورکسی کوبھی اعتمادمیں نہیں لیاتوپورے ملک میں شورمچ گیا۔

اخباروں میں چھپناشروع ہوگیاکہ آخرکیاوجہ تھی کہ وزیرنے اپنے ہی ملک کے سفارت خانے کومطلع کیے بغیر،  خفیہ ملاقات کرنے کی جرات کی۔ملاقات میں کیاباتیں ہوئیں۔کون سی ایسی اہم ضرورت تھی جسکی بدولت اسے خفیہ ملاقات کرنی پڑی۔حکومتی وزیرنے بذات خودسفارتی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔سرکاری آداب کے مطابق وزیر کے ساتھ ایک افسرہوناچاہیے تھاجو ملاقات کے تمام اہم نکات کوقلمبندکرتا۔آپ جمہوری حکومت کی طاقت اور احساسِ ذمے داری دیکھیے۔جیسے ہی ملاقات کی خبریں شایع ہونی شروع ہوئیں،پریتی پٹیل نے پوری برطانوی قوم سے معافی مانگی اوراستعفیٰ دیدیا۔اس کے آخری الفاظ تھے۔

“ملاقات کرنے میں میری کسی قسم کی بدنیتی نہیں تھی۔مگر سمجھتی ہوں کہ میرے اس اقدام سے شفافیت اورسیاست کی اصولی ِ اقدارکوٹھیس پہنچی ہے۔یہی وہ صفات تھیں جسکے لیے میں سیاسی جدوجہدکرتی رہی ہوں۔میں بطوروزیر،اپنی ہی اقدار پرپوری نہیں اُترسکی۔لہذامجھے حکومت میں رہنے کاکوئی حق نہیں”۔پیش کی گئی مثالوں سے صرف یہ ثابت کرنے کی جسارت کررہاہوں کہ اپنے ملک میں جسے ہم جمہوریت سمجھ رہے ہیں وہ قطعاًجمہوریت نہیں ہے۔

مغربی ممالک میں بہترین نظام اورجمہوری طرزِ حکومت کی انتہائی لازوال مثالیں موجود ہیں۔ان دو واقعات کے علاوہ ہزاروں روشن مثالیں موجودہیں۔جہاں حکومت کے اہم ترین وزیربلکہ وزراء اعظم،بذات خود،اپنی غلطی تسلیم کرکے حکومت سے استعفیٰ دیتے رہے ہیں۔مگراپنے ملکی نظام پرغورکرنااتناہی اہم ہے جتنااوپردی گئی مثالوں سے سیکھنا۔المیہ یہ ہے کہ ہم الیکشن کے محض انعقادکوجمہوریت کا نام دے دیتے ہیں۔یعنی محض ایک ناقص پراسس سے جو کچرا کشیدہوکرسامنے آئے،وہی حکومت کرنے کااہل ٹھہرا۔یہ تصورنہ صرف مکمل طورپرغلط ہے بلکہ انتہائی ادنیٰ ہے۔ ہمارے ملک میں شفاف الیکشن کی کوئی مثال موجودنہیں ہے۔

مگرشفاف ترین الیکشن بھی جمہوریت کاصرف ایک جزوہے۔اصل جوہرتووہ طرزِ عمل ہے جوووٹ کی طاقت سے حکومت میں آنے والے عمائدین اپناتے ہیں۔ طالبعلم کے طورپرقیام پاکستان سے لے کرآج تک کی کسی سویلین حکومت کودیکھ لیجیے۔آپ کوکسی قسم کی قابل قدر جمہوری روایتیں نظرنہیں آئیں گی۔

عوام کی نظروں سے دور حکومتیں خفیہ ملاقاتیں تو کیا،خفیہ معاہدے کرتی نظر آئینگیں۔ صدرایوب بنیادی جمہوریت کے نظام کانام لے کرجمہوری صدربننے کی کوشش کرتے رہے۔انھوں نے پشاورکی ائیربیس، کسی کوبھی اعتمادمیں لیے بغیرامریکی حکومت کے حوالے کردی۔صنعتی ترقی اپنی جگہ،پراس نیم جمہوری صدرمیں اتنی اخلاقی جرات بھی نہیں تھی کہ امریکی پائلٹ کی روس میں گرفتاری کے بعداپنی غلطی ہی تسلیم کرلے کہ ہاں میں نے پشاورمیں ائیربیس،خفیہ معاہدے کے تحت امریکی فضائیہ کے حوالے کی تھی۔

اس معاملہ کوبھی دبانے کی مکمل کوشش کی گئی۔ذوالفقارعلی بھٹو اس ملک کے موثرترین منتخب وزیراعظم تھے۔اس سطح کالائق اورذہین سیاستدان کم ازکم ہمارے ملک کی سیاسی زندگی میں دوبارہ نہیں آیا۔مکمل طورپرتعصب کے بغیر،سوچنے سے کیا ظاہرنہیں ہوتاکہ بھٹوصاحب سیاسی مخالفین کونقصان دینے کے لیے ہر غیرجمہوری بلکہ غیرانسانی حربہ استعمال کرتے تھے۔ کیا ان کے دورمیں سیاسی رہنماؤں پربھرپورریاستی تشددنہیں ہوا۔ کیادلائی لامہ کیمپ میں سیاسی مخالفین کوذلت ورسوائی میں مبتلا نہیں کیاگیا۔لوگوں کوسرِعام غنڈوں سے پٹوایا نہیں گیا۔ بھٹوکی عظمت اورتاریخی قدکاٹھ اپنی جگہ،مگران کے  رویے کو خالصتاًجمہوری کہنامناسب نہیں ہوگا۔

محتاط الفاظ میں وہ بھی ایک طرح کی شخصی آمریت کی خوبصورت شکل تھی۔آپ اختلاف کرسکتے ہیں۔مگرحقائق کی روشنی میں سابقہ وزیراعظم کومکمل طورپرجمہوری رویوں کاعلمبردارنہیں کہہ سکتے۔ضیاء الحق اورپرویزمشرف کے ادوارتوخیرسیاہ ہی سیاہ ہیں۔ان دونوں نے توہماراملک اورمعاشرہ دونوں برباد کر دیے۔پریہاں سوال اُٹھتاہے کہ ووٹ لے کرآنے والے مقتدرلوگوں کاجوہری رویہ کیارہا۔کیاواقعی ان میں سے کسی نے بھی اپنے دورِحکومت میں ایسی جمہوری اقدارکوپروان چڑھایا،جس سے ادارے مضبوط ہوتے۔ جمہوریت کے ثمرات عام لوگوں تک پہنچتے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ عملی طورپرہمارے جمہوری رہنما بھی،جمہوریت کی اصل روح سے خوفزدہ رہے۔

صرف ووٹ کانام لے کر،بالکل فسطائی اورعقلِ کل بنکر حکومت کرتے رہے۔ان کے خیالات سے انحراف کرنے کی جس نے بھی کوشش کی، اسے نشانِ عبرت بنا دیاگیا۔ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مثالیں ہیں جس میں جمہوری رہنماؤں نے فوجی ڈکٹیٹروں سے بڑھ کرادنیٰ کارنامے انجام دیے۔ہمیں سمجھایاجاتاہے کہ جمہوریت دراصل الیکشن کرواکر حکومت پرقبضہ کرنے کانام ہے۔ نہیں، بالکل نہیں۔

جمہوریت مکمل طور پر ایک شخصی اور قومی رویہ ہے۔اس کے اصولوں سے انحراف قطعاًنہیں کیا جاسکتا۔ مگر ہمارے ملک میں تو کوئی بھی اس تصحیح کی طرف نہیں جارہا۔ حقائق کی روشنی میں دیکھاجائے تویہاں نہ کبھی جمہوریت تھی اورنہ ہی کبھی آنے کا امکان ہے۔ہاں،نعرے اپنی جگہ۔ مگر حقیقت سے روگردانی کرنابدترین ظلم ہے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔