کال

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 21 اپريل 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

1999 میں جب جنرل مشرف برسر اقتدار آئے اور میاں صاحب کی حکومت کو برخواست کردیا تو بدقسمتی سے نہ صرف یہ کہ میاں صاحب کی حمایت میں عوام سڑکوں پر نہیں آئے بلکہ ان کے کئی پرانے ساتھی انھیں چھوڑ گئے بلکہ بعض قریبی دوستوں نے جنرل مشرف کی حکومت میں شمولیت اختیار کرلی اور ان کو ایک مبینہ معاہدے کے تحت سعودی عرب جانے کی اجازت دی گئی۔

میاں صاحب نے سعودی عرب میں جلاوطنی کے آٹھ سال گزارے لیکن اس دوران ان کی جماعت سخت ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہی۔ بے نظیر بھٹو جب این آر او کے تحت ملک واپس آئیں تو میاں نواب شریف کے لیے بھی وطن واپسی کی راہ ہموار ہوئی اور موصوف وطن واپس آگئے۔

2008 کے انتخابات میں میاں صاحب نے انتخابات جیتنے کی بھرپور کوشش کی لیکن ان کی بدقسمتی یہ رہی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو قتل کردیا گیا جس کی وجہ سے عوام کی ہمدردیاں پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوگئیں اور 2008 کے الیکشن پیپلز پارٹی جیت گئی۔ 2013 میں مسلم لیگ(ن) بھاری اکثریت سے انتخابات جیت گئی اور حکومت کی گاڑی لشٹم پشٹم چل رہی تھی کہ پاناما لیکس کا عالمی اسکینڈل سامنے آیا اور میاں صاحب کی فیملی اس کی زد میں آگئی میاں صاحب کے دونوں صاحبزادے ، صاحبزادی اور داماد پاناما اسکینڈل کے الزامات کی زد میں آ گئے ہیں۔

سپریم کورٹ نے میاں صاحب کو تاحیات نااہل قرار دے دیا ہے ،عدالت عظمیٰ کے خلاف میاں صاحب کی جرأت رندانہ ان کے بری طرح گلے پڑ گئی ہے اب وہ عوام کو کہہ رہے ہیں کہ وہ ان کی کال کا انتظار کریں جب وہ کال دیں تو عوام سڑکوں پر آجائیں۔ اس حوالے سے گفتگو سے پہلے بھٹو صاحب کی گرفتاری اور پھانسی کا مختصر جائزہ لیا جائے گا۔

پاکستان کی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو سے زیادہ مقبول عوام لیڈر نہیں گزرا بھٹوکی مقبولیت کی دو بڑی وجوہات تھیں ایک بھٹوکی طلسماتی شخصیت دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ بھٹو نے عوام کی دکھتی رگ یعنی معاشی مسائل روٹی کپڑا اور مکان کو اپنی پارٹی کا منشور بنالیا تھا ۔ بھٹو سے قبل تقریباً 20 سال تک جمہوری اور قومی حکومتوں کا راج تھا لیکن ان 20 سالوں میں کسی حکومت نے مہنگائی بے روزگاری تعلیم اور علاج جیسے بنیادی مسائل حل کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔

اگرچہ ایوب خان کے دور میں امریکا نے کولمبو پلان کے تحت پاکستان کو بھاری اقتصادی امداد دی تھی جس کے نتیجے میں پاکستان خصوصاً کراچی میں تیزی سے صنعتیں لگی تھیں لیکن امریکی حکام نے کولمبو پلان کے تحت جو بھاری اقتصادی امداد دی تھی اس کے ساتھ غیراعلانیہ یہ شرط لگا دی تھی کہ پاکستان میں بائیں بازو کی تنظیموں کو سختی سے کچلا جائے اور ایوب خان نے امریکا کی اس شرط کو پورا کرنے کے لیے ٹریڈ یونین طلبا وکلا ڈاکٹروں سمیت بائیں بازو کے سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک کیا اس کا اندازہ حسن ناصر کے قلعہ لاہور میں سفاکانہ قتل سے لگایا جاسکتا ہے، ہزاروں سیاسی اور ٹریڈ یونین کارکنوں وکلا ڈاکٹروں وغیرہ کو پابند سلاسل کیا گیا، اس سلوک کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام میں ایوب خان کے خلاف ناراضگی بڑھتی گئی ، رہی سہی کسر 1965 میں بھارت سے جنگ نے پوری کردی عوام ایوب حکومت سے سخت ناراض ہوگئے اور 1968 میں ایوب خان کو حکومت سے الگ ہونا پڑا۔

بھٹو صاحب سے سب سے بڑی غلطی یا نظریاتی آنکھ مچولی یہ ہوئی کہ بھٹو صاحب نے اپنے ان دوستوں کو پارٹی سے نکلنے پر مجبور کردیا جنھوں نے اپنی محنت اور صلاحیتوں سے پیپلز پارٹی بنائی اور اس کا منشور اور انتخابی نعرے بنائے۔ بھٹو کا تعلق اگرچہ ایک بڑے جاگیردار گھرانے سے تھا لیکن اپنی لبرل فکر اور ترقی پسندانہ خیالات کی وجہ سے عوام خاص طور پر بائیں بازو کے کارکنوں میں بہت مقبول ہوئے۔

ایک بار کا ذکر ہے جب آتش جوان تھا، ہم ٹریڈ یونین کے ان رہنماؤں میں شامل تھے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود یعنی ماسٹرکی دو ڈگریاں رکھنے کے باوجود مزدوروں کے مسائل حل کرنے کے مشن میں لگ گئے یہ یحییٰ خان کا دور تھا بھٹو صاحب معاہدہ تاشقند کی مخالفت کے حوالے سے مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچے ہوئے تھے ، مزدوروں پر سخت مظالم ڈھائے جا رہے تھے۔ معراج محمد خان بھٹو کے دست راست اور ہمارے دوست تھے ہم نے بھائی معراج سے کہا کہ وہ مزدوروں کے لیے کچھ کرنے پر بھٹو کو راضی کریں۔

معراج نے بھٹو کی رہائش گاہ پر ہماری ملاقات کا اہتمام کیا۔ ہم نے بھٹو سے کہا کہ وہ مزدوروں کے لیے کچھ کریں، بھٹو صاحب نے جواب دیا میں ایک بیان دے دوں گا ہم نے زور دیا کہ آپ مزدوروں میں چل کر ان کا حوصلہ بڑھائیں لیکن بھٹو ہمارے اس مطالبے کو گول کرگئے۔

یہ قصہ درمیان میں آگیا اصل مسئلہ یہ تھا کہ بھٹو نے نہ صرف اپنے سینئر دوستوں کو پارٹی سے نکلنے کے لیے مجبور کیا بلکہ ترقی پسند دوستوں کی جگہ وڈیروں اور جاگیرداروں کو پارٹی میں بھر دیا، عوام بھٹو کی ان وعدہ خلافیوں سے ناراض تھے جب بھٹو کو گرفتار کرلیا گیا تو عوام خاموش رہے جب پنڈی جیل میں ضیا الحق نے ان پر سختیوں کے پہاڑ توڑے کہ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر کو بھٹو کی کال کوٹھری میں ان کے برابر لیٹ کرکانا پھوسی کے انداز میں بھٹو سے بات کرنا پڑتا تھا۔

یہ ساری خبریں عوام تک کسی نہ کسی طرح پہنچ رہی تھیں لیکن عوام ٹس سے مس نہیں ہو رہے تھے حتیٰ کہ بھٹو کو رات کے اندھیرے میں پھانسی دے دی گئی لیکن بھٹو کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے دو دو دن ریلوے اسٹیشنوں پر پڑے رہنے والے عوام بھٹو کی پھانسی پر بھی گھروں سے باہر نہ نکلے۔ بلاشبہ کارکن بھٹو کے لیے جان دینے پر تیار تھے لیکن وہ کیا وجہ تھی کہ عوام ٹس سے مس نہیں ہوئے اور بھٹو کو رات کے اندھیرے میں گڑھی شاہو میں سپرد خاک کرنا پڑا، بلاشبہ بھٹو کو یہ توقع تھی کہ عوام صورت سمندر سڑکوں پر آئیں گے لیکن سڑکوں پر سناٹا رہا۔

میاں صاحب بھی اپنے خاندان کے ساتھ آج کل سخت ابتلا سے گزر رہے ہیں اس کے باوجود جرأت رندانہ کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور دفاع کے بجائے بڑھ بڑھ کر حملے کر رہے ہیں۔ میاں صاحب کے پانچ سالہ دور میں عوام بجلی کی لوڈ شیڈنگ، بے لگام مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن کی بھرمار سے پریشان رہے۔ حالانکہ برسر اقتدار لوگ رات دن ترقیاتی کاموں کا ذکر کر رہے ہیں لیکن عوام کی زندگی میں کوئی ترقی دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے اور  اکثریت خاموش ہے، ایسے میں کیا میاں صاحب کی کال پر عوام صورت سیلاب سڑکوں پر آئیں گے یا بھٹو کے آخری دنوں کے دوران جو حبس اور سناٹا تھا وہی دیکھنے کو ملے گا۔ اس کا جواب بہت جلد ملے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔