55 فیصد طلبہ تعلیم سے محروم

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 21 اپريل 2018
tauceeph@gmail.com

[email protected]

سندھ میں 55 فیصد طلبہ تعلیم سے محروم ہیں ۔ سرکاری اسکولوں میں بنیادی سہولتیں موجود نہیں ہیں ۔ بجٹ تخمینے کی کمزوریوں،اساتذہ کی استعداد کار میں کمی اور خستہ تعلیمی عمارتیں بھی تعلیمی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ حکومت سندھ کا دعویٰ ہے کہ اسکول کے انرولمنٹ میں 2فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ 47 فیصد بچے فنڈز سے چلنے والے اسکول اور 4 فیصد بچے دینی مدارس میں زیر تعلیم ہیں ۔ 10سال کے دوران 7 ہزار کے قریب اساتذہ کی بھرتیاں کی گئیں ۔

حکومت سندھ کی اسکول شماری 2017ء کی حالیہ غیر مطبوعہ رپورٹ میں انرولمنٹ میں 2 فیصد اضافے کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ اعداد و شمار ایک سرکاری رپورٹ میں درج کیے گئے ہیں جوگزشتہ ہفتے وزیر اعلیٰ کو ایک بریفنگ میں پیش کی گئی۔ ادھر سندھ بھر میں نویں اور دسویں جماعت کے سالانہ امتحانات میں نقل ہونے کی خبریں بھی ذرایع ابلاغ میں متواتر پیش کی جا رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ امتحانی سینٹروں کی نیلامی اورطالب علموں سے نقل کے لیے رقوم وصول کرنے کے دھندے کھلے عام جاری ہیں ۔

سندھ وزارت تعلیم کرپشن کی سب سے بڑی آماجگاہ ہے۔اساتذہ کے تبادلے اور تقرریوں کے لیے رقم طے ہے۔اساتذہ کے انتقال کی صورت میں جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے لیے رقم کی ادائیگی لازمی ہے۔  اساتذہ کے اپنے پرووڈنٹ فنڈ کی وصولی، حتیٰ کہ حج اور زیارتوں پر جانے کے لیے اجازت ناموں کے حصول کے لیے بھی سفارش یا رقم کی ادائیگی عام سی بات ہے ۔ ریٹائر ہونے والے اساتذہ اپنی پنشن اور دیگر فنڈ کے لیے 60ہزار روپے ادا کرتے ہیں۔ محکمہ تعلیم کا ہر افسر مختلف نوعیت کے احکامات پر دستخط کرنے کے لیے مختلف نوعیت کی رقوم وصول کرتا ہے۔

پیپلزپارٹی 1967ء میں لاہور میں قائم ہوئی۔ پارٹی کی اساسی دستاویزکی تیاری میں ذوالفقارعلی بھٹو، جے اے رحیم، شیخ رشید اور معراج محمد خان نے حصہ لیا اور اس بنیادی دستاویز میں تحریر کیا گیا کہ تعلیم ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور پیپلز پارٹی برسر اقتدار آکر ہر شہری کو تعلیم حاصل کرنے کے حق کے لیے اقدامات کرے گی۔ پیپلز پارٹی نے 1970ء کے انتخابات کے موقعے پر تیار ہونے والے منشور میں تحریرکیا کہ حکومت نجی تعلیمی اداروں کو قومیائے گی اور اساتذہ کی حیثیت بیوروکریٹ سے بلند کرے گی اور پورے ملک میں تعلیمی اداروں کا جال بچھایا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے 1972ء میں اقتدار میں آنے کے بعد اپنے منشور پر عملدرآمد کیا۔

نجی اداروں کو قومیایا گیا، اساتذہ کے اسکیل بیوروکریسی کے مساوی کردیے گئے اور ملک بھر میں اسکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں کا جال بچھایا گیا۔ جب پیپلز پارٹی چوتھی دفعہ 2008ء میں برسر اقتدار آئی تو اس کے اکابرین نے اپنی پارٹی کی بنیادی دستاویزات کو طاق پر رکھ دیا۔ تعلیم کا محکمہ پیر مظہر الحق کے سپرد ہوا۔ انھوں نے اساتذہ کی بھرتیوں، تقرریوں اور تبادلوں کو ایک کاروبار میں تبدیل کیا۔ تعلیمی اداروں کے قیام، تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور معیار تعلیم کو بلند کرنے کے اہم تعلیمی معاملات پس پشت ڈال دیے گئے، یوں محکمہ تعلیم میں ہر چیز فروخت ہونے لگی ۔

ہزاروں افراد فی کس لاکھوں روپے دے کر اساتذہ کے عہدوں پر تعینات ہوئے۔ تعلیم کے شعبے میں فنڈنگ کرنے والے سب سے بڑے ادارے عالمی بینک کی پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کے اساتذہ کے تقررکے لیے نیشنل ٹیسٹنگ سروس (N.T.S) کے امتحان پاس کرنے کی شرائط کو نظرانداز کردیا گیا جس پر عالمی بینک نے حکومت سندھ کو فراہم کی جانے والی امداد کو بند کرنے کا فیصلہ کیا۔

پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو صورتحال کی سنگینی کا احساس ہوا اور اپنے قریبی عزیزکو سیکریٹری تعلیم مقرر کردیا اور این ٹی ایس کا امتحان پاس کیے بغیر اساتذہ کے عہدوں پر تعینات ہونے والے افراد کی تنخواہیں روک د ی گئیں اور ان کی برطرفی کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ افراد لاکھوں روپے ادا کر کے سرکاری ملازمت حاصل کر پائے تھے۔ انھوں نے کراچی میں احتجاجی تحریک شروع کردی۔ روزانہ پریس کلب سے نکلنے والی ریلیوں پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس معمول بن گیا۔ نجی ٹیلی وژن چینلز کے لیے اپنی اسکرین پر سنسنی خیز خبریں بار بار پیش ہونے لگیں۔

نیب والے محکمہ تعلیم کی طرف راغب ہوئے، وزیر تعلیم سمیت بہت سے افسروں کے خلاف تحقیقات ہوئیں۔ کچھ کے خلاف مقدمات دائر ہوئے، وزیراعلیٰ کی تبدیلی ہوئی۔ مراد علی شاہ نے اپنا نیا عہدہ سنبھالتے ہی پرعزم جذبے کے ساتھ تعلیمی شعبے میں اصلاحات کا دعویٰ کیا ۔ یہی وجہ تھی کہ پچھلے سال میٹرک اور انٹر کے امتحانات میں نقل مافیا کے خلاف بھرپور مہم چلائی گئی۔ انٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے تعلیمی بورڈ کا رخ کیا ۔کئی عہدیدار گرفتار ہوئے اور نئے عہدیداروں کا تقرر ہوا جس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے۔

میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانی نتائج میں پاس ہونے والے طالب علموں کی شرح گرگئی اور یہ امید پیدا ہوئی کہ اب سندھ کے طلبہ بھی دیگر صوبوں کے طلبہ کے معیار کو چیلنج کرسکیں گے مگر پھر شاید مراد علی شاہ تھک گئے۔ اس دفعہ ہونے والے امتحانات میں کوئی خاطرخواہ سرگرمیاں نظر نہیں آئیں۔

معروف انگریزی کے اخبار کے ایک رپورٹر کا کہنا ہے کہ ان کا بچہ بہت زیادہ ذہین نہیں مگر محنت کرتا ہے، آج کل نویں جماعت کا امتحان دے رہا ہے اور سخت مایوسی کا شکار ہے۔ بچہ جب امتحان دے کر گھر آتا ہے تو بابا سے شکوہ کرتا ہے کہ صرف وہ اپنے سینٹر میں نقل نہیں کرتا باقی سب بچے نقل کرتے ہیں اور ان کے والدین اس کے لیے نگراں عملہ کو رقم ادا کرتے ہیں۔ اس بچہ کا سوال ہوتا ہے کہ یہ سب نااہل بچے اچھے نمبروں سے پاس ہونگے؟

محکمہ تعلیم کے افسروں نے قومیائے گئے اسکولوں اور کالجوں کی عمارتوں کے مالکان سے گٹھ جوڑ کرلیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے دور میں ان اسکولوں کی عمارتوں کے خالی کرنے کے تمام مقدمات میں حکومت کو شکست ہورہی ہے۔ پہلے عائشہ باوانی ٹرسٹ اس کی عمارت میں قائم اسکول اورکالج خالی کرانے کا مقدمہ جیت گیا تھا جس پر طلبہ اور اساتذہ نے شاہراہ فیصل پر دھرنا دیا تھا اور پھر وزیر اعلیٰ کو توجہ دینی پڑی تھی اور حکومت نے سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی۔ اب اسلامیہ کالج کی قیمتی عمارت کو خالی کرانے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔

طلبہ اور اساتذہ کے احتجاج پر پولیس عمارت خالی نہ کرا پائی اور پولیس افسروں کو توہین عدالت کے نوٹس کا سامنا ہے۔ مراد علی شاہ کو کوئی یہ مشورہ دینے والا نہیں ہے کہ ان تعلیمی اداروں کی قیمتی عمارتوں کو مارکیٹ ریٹ پر خریدنے کے لیے بجٹ میں رقم مختص کی جائے اور مارکیٹ ریٹ پر ان عمارتوں کی ملکیت سندھ حکومت کو منتقل کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے۔ سندھ حکومت کی اپنی رپورٹ میں اس بات کا اقرار ہے کہ جو 55 فیصد بچے سندھ میں اسکول نہیں جاتے  ان میں اکثریت لڑکیوں کی ہے۔ اسکولوں کی عمارتوں میں بنیادی ضروریات کی کمی ہے۔ پنجاب کی حکومت نے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے ہر اسکول میں سولر سسٹم فراہم کیے ہیں، بجلی کا مسئلہ حل ہوا ہے مگر حکومت سندھ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے اس طرح کے اقدامات پر تیار نہیں ہے۔

2018ء میں 55 فیصد بچوں کی تعلیم سے محرومی کا واضح مطلب یہ ہے کہ سندھ اگلی صدی تک خواندگی کی صد فی صد شرح کا ہدف حاصل نہیں کر پائے گا۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ سندھ صدی کے آخر تک سب سے زیادہ پسماندہ صوبہ رہے گا۔ جب خواندگی کا صد فی صد ہدف حاصل نہیں ہوگا تو پھر غربت کی لکیر کے نیچے رہنے والے افراد کی تعداد صفر تک نہیں پہنچے گی۔

اسکول نہ جانے والے بچے مدرسوں میں پناہ لیں گے یا پھر اسٹریٹ چلڈرن کی آبادی بڑھ جائے گی جس کے نتیجے میں مذہبی دہشت گردی اور جرائم کی شرح بڑھ جائے گی۔ سندھ کے مستقبل کے حوالے سے یہ ایک مایوس کن تصویر ہے۔ اگلے ماہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی میعاد ختم ہورہی ہے اور ملک میں انتخابات ہونگے۔ بلاول بھٹو زرداری اگر اپنی حکومت کی ناقص کارکردگی پر توجہ دیں اور اگلے پانچ برسوں کے لیے تعلیم سے مخلص قیادت اپنی پارٹی میں دریافت کرلیں تو سندھ کے عوام کے لیے نیک شگون ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔