کومی کی کتاب اور پاکستانی قیادت

اکرام سہگل  ہفتہ 21 اپريل 2018

صدر ٹرمپ نے جیمز برئین کومی جونیئر کو 9مئی 2017کو فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن(ایف بی آئی)سے برطرف کیا، اس سے قبل وہ چار سال تک اس عہدے پر فائز رہے۔ ابتدائی طور پر ٹرمپ کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ کومی نے ہیلری کلنٹن کی نجی ای میل کے معاملے کی تفتیش درست انداز میں نہیں کی۔ عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ اس کے پیچھے اصل سبب خصوصی کونسل (اور ایف بی آئی کے سابق چیف) رابرٹ ملر کی ٹرمپ کی انتخابی مہم اور روسی حکام کی ملی بھگت سے متعلق تفتیش ہے۔

کومی کی کتاب “A Higher Loyalty: Truth, Lies and Leadership” 17اپریل کو اپنی اشاعت سے قبل ہی بیسٹ سیلر کا درجہ مل چکا تھا۔ اس کے ردعمل میں، امریکی صدر نے اپنے ٹوئٹس میں کومی کو ’’جھوٹا‘‘ اور ’’ریاکار‘‘ قرار دیا۔ ایک جانب ٹرمپ کومی کے لیے ایسے الفاظ استعمال کرتے رہے جو امریکی صدر کو زیب نہیں دیتے، دوسری جانب کومی نے بھی ایف بی آئی کا چیف ہونے کے ناتے انھیں معلومات تک رسائی اور صدر کے خلاف اپنے ادارے کی جاری تحقیقات میں شامل ہونے کے باجود ٹرمپ کو ’’اخلاقی طور پر صدارت کے لیے غیرموزوں‘‘ قرار دینے جیسے بیانات دے کر اپنے عہدے کے تقاضوں سے روگردانی کی، جس میں خفیہ معلومات کے افشا سے گریز اور غیر جانب داری جیسے بنیادی اصول  شامل ہیں۔

سی این این کے سینیئر نمایندے نے تبصرہ کیا کہ ’’کومی کی مخالفت میں ٹرمپ کے ٹوئٹس نے کومی کی کتاب کو خوب تشہیر دی۔‘‘ ایف بی آئی کے برطرف ہونے والے چیف کومی نے سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کو بتایا کہ صدر اس سے ’’وفاداری‘‘ کے خواہاں تھے اور اس پر قومی سلامتی کے سابق مشیر مائیکل فلین کے خلاف جاری تحقیقات ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے رہے اور اس بات پر بھی بار بار اصرار کرتے رہے کہ کومی اس بات کا اعلان کردے کہ فلین کے خلاف کوئی تفتیش نہیں ہورہی۔

کومی ایک شاندار کیرئیر رکھنے والا پراسیکیوٹر ہے۔ اس نے ایف بی آئی کا چیف بننے سے قبل گیمینو کرائم فیملی کا صفایا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ کومی کی کتاب میں مافیا بوسز اور صدر ٹرمپ کے مابین براہ راست موازنہ کیا گیا ہے۔

کومی نے لکھا:’’ تائید کرنے والا وہ خاموش حلقہ ہے۔ بوس کے پاس مکمل کنٹرول ہے۔ وفاداری کے عہدوپیمان ہیں۔ ’’ہم‘‘ بمقابلہ ’’وہ‘‘ کا انداز جہاں بینی ہے۔ وفاداری کے وہ قاعدے ہیں جو تنظیم کو اخلاقی اقدار اور سچ سے بھی بالا تر بنادیتے ہیں۔‘‘

کومی کا الزام ہے کہ ’’ اس صدر کی اخلاقی حیثیت پست تر ہے ، یہ سچائی اور ادارہ جاتی اقدار سے بے بہرہ ہے۔ اس کا انداز قیادت ذاتی مفاد، انا اور ذاتی نوعیت کی وفاداری طلب کرنے پر مبنی ہے۔‘‘ یہ کیسا عجیب و غریب انداز بیان ہے ’’ ٹرم کی حکمرانی ’’جنگل کی آگ‘‘ ہے جو امریکا کو غیر معمولی نقصان پہنچا رہی ہے۔‘‘ یہ لفظ پاکستان پر بھی صادق آتے ہیں۔اقتدار میں رہ کر قانون کی حکمرانی کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرکے، دھونس دھمکی سے کام لیتے ہوئے مسلم لیگ ن کی قیادت اور کے ساتھی دروغ گوئی سے کام لے رہے ہیں، اصل حقائق سامنے لانے سے گریزاں ہیں، جعلی دستاویزات عدالت میں پیش کرتے ہیں، دوسروں کو جھوٹی گواہی دینے اور عوام کو جھوٹی دستاویزات پر یقین کرنے کے لیے اکساتے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ اور نیب کے خلاف متعدد مواقع پر استعمال ہونے والی انتہائی قابل اعتراض زبان سے بالواسطہ اہم اداروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، لیکن صاف نام لینے سے کتراتے ہیں۔

کومی کی یہ باتیں حیرت انگیز طور پر پاکستان سے متعلق محسوس ہوتی ہیں جب وہ کہتا ہے ’’ ہم اپنے ملک کے خطرناک ترین دور سے گزر رہے ہیں، جہاں ہماری سیاسی فضا ایسی بن چکی ہے جس میں بنیادی حقائق ہی متنازعہ ہیں، بنیادی سچائیوں پر سوال ہیں، جھوٹ معمول بن چکا اور غیر اخلاقی رویے نظرانداز کیے جارہے ہیں، الزامات تراشیاں ہیں یا کرم نوازیاں۔‘‘ ٹرمپ کی طرح مسلم لیگ ن کی قیادت کا بھی یہی خیال ہے کہ انھیں پاکستان کے ہر کس و ناکس کا مینڈیٹ حاصل ہے، انھوں نے بھی اپنے گرد ایسے ہی ’’حکم کے بندے‘‘ جمع کررکھے ہیں جو اپنے چیف کی ہر رائے اور بات کو بلا بحث و تنقید تسلیم کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔

ڈی این آئی کے ڈائریکٹر جیمز کوپر انتخابات کے فوری بعد صدر ٹرمپ اور کومی کی پہلی ملاقات میں موجود تھے، ٹرمپ انتخابات میں روسی مداخلت کے حوالے سے رائے عامہ کو ہموار کرنے کی حکمت عملی کا آغاز کرچکے تھے، جس کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ وہ جو بھی عوام کو بتائیں گے وہ اس پر یقین کرلیں گے۔ اسکرپل کو زہر خورانی کے مسئلے پر درجنوں روسی سفارت کاروں کو امریکا چھوڑنے کا حکم نامہ جاری کرنے اور روسی حمایت یافتہ شام پر، شہریوں کے خلاف مبینہ طور پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے ردعمل میں، فضائی بمباری کے احکامات جاری کرنے کے باوجود کہا جاتا ہے کہ ٹرمپ اور پیوٹن کی دوستی قائم و دائم ہے۔ قومی مفاد پر ذاتی یا کاروباری مفادات کو فوقیت حاصل ہے۔

کومی نے قانون اور راستی پر کسی فرد کی وفاداری کو ترجیح دینے کے زہریلے اثرات صراحت سے بیان کیے ہیں۔ بددیانتی، مردم آزاری، دباؤ اور گروہی فکر کو مرکزیت دے کر ’’منظم جرائم کی بطور ادارہ تشکیل‘‘ کی جاتی ہے۔ کومی کے مطابق یہ کراہت انگیز خواص ٹرمپ اور اس کے ساتھیوں میں پائے جاتے ہیں۔ ریاست یا اصولوں کے بجائے افراد کی وفاداری کو اہمیت دینا ہمارے سیاسی کلچر پر بھی ایک بدنما داغ ہے۔ شریفوں کی ذرا بھی مخالفت کرنے والے کسی بھی شخص کے خلاف ن لیگ کے وفا شعار فوراً میدان میں آ جاتے ہیں۔ اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے افسانے ہم روز ٹیلی ویژن کے ٹاک شوز میں سنتے ہیں اور وہ بھی پورے یقین سے یہ سب بیان کیے جاتے ہیں۔

پانچ معزز جج صاحبان نے 13اپریل کو فیصلہ سنا دیا کہ جولائی 2017میں 62(1)Fکے تحت سابق وزیر اعظم نوازشریف کی نااہلی تاحیات ہے۔ پناماگیٹ کا فیصلہ آتے ہی سابق وزیر اعظم، کیپٹن صفدر، مریم، حسن اور حسین نواز کے خلاف احتساب عدالتوں میں کئی مقدمات کھل گئے۔ لیکن اس سے بھی  بدترین صورت حال درپیش ہوسکتی ہے، جس طرح ٹرمپ نے حال ہی میں سابق نائب صدر ڈک چینی کے مشیر خاص اسکوٹر لبّی کو صدارتی معافی دی، اسی طرح ممکنہ طور پر صدر ممنون حسین، نواز شریف اور ان کے خاندان پر اگر جرائم ثابت ہوں تو انھیں معافی دے سکتے ہیں۔ صدارتی معافی کئی اور مشیروں اور ساتھیوں کے لیے بھی ہوسکتی ہے۔

نگران حکومت قائم ہونے ہی والی ہے۔ کومی کی کتاب سے یہ اقتباس نقل کرنے کے لائق ہے ’’ جب آپ بہتر جانتے ہوں تو خاموش تماشائی بنے رہنے کا کوئی جواز نہیں، جب ایک صدر توہین آمیز انداز میں ان قانون نافذ کرنے والے اداروں پرعوام کا اعتماد مجروح کررہا ہو، جو ہماری قیادت ہی کی نگرانی کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔‘‘ کیا ہمارے قائدین جوابدہ ہیں، کیا احتساب ان کے لیے نہیں؟

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔