آدھا سچ اور کے پی کے کی کہانی

مزمل سہروردی  ہفتہ 21 اپريل 2018
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

عام فہم زبان میں یہ کہا جا تا ہے کہ آدھا سچ بھی جھوٹ ہی ہو تا ہے۔ بلکہ آدھا سچ جھوٹ سے بھی زیادہ خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ لیکن سیاست میں سچ چھپانے کے لیے کبھی کبھار آدھا سچ بھی بولنا پڑتا ہے تا کہ پورے سچ پر پردہ ڈالا جا سکے۔ عدالت میں جب آدھے سچ کے ساتھ گواہی دیں تو آپ کی گواہی جھوٹی گواہی قرار دی جاتی ہے۔ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے آدھے سچ کو بھی سچ ہی تصور کرتے ہیں۔

پاکستان کی سیاست کا بھی ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں آدھے سچ کی بھر مار ہے۔ نوازشریف کا یہ بیانیہ کہ انھیں بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نکالا گیا ہے بھی آدھے سچ کی عمدہ مثال ہے۔ وہ یہ نہیں بتاتے کہ وہ انھوں نے اپنا اقامہ اپنی ٹیکس ریٹرن میں ظاہر نہیں کیا تھا جو جرم ہے۔

اسی طرح عمران خان کو بھی آدھے سچ میں کامیابی ملتی ہے۔ مثال کے طور پر دھاندلی والے ایشو میں بھی عمران خان نے ہمیشہ آدھا سچ بولا۔ قانون کی عدالت میں آدھے سچ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اب عمران خان کی جانب سے بیس ارکان خیبر پختونخواہ اسمبلی پر سینیٹ انتخابات میں پیسے لینے کا الزام بھی آدھے سچ کی مثال ہے۔ اس معاملہ میں بھی عمران خان آدھا سچ بول رہے ہیں۔

ایک تو وہ بغیر ثبوت کے الزام لگا رہے ہیں ۔ دوسرا وہ یہ نہیں بتا رہے کہ کس نے ان کے ارکان کو پیسے دئے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ انھیں یہ تو علم ہے کہ کس کو کتنے پیسے ملے ہیں مگر یہ نہیں معلوم کہ کس نے یہ پیسے  دئے ہیں۔ حیران ہوں کہ تبدیلی اور کرپشن کا نعرہ لگانیو الے عمران خان اور ان کی جماعت کس حد تک کرپشن کی دلدل میں دھنس چکی ہے۔ آپ دیکھیں گزشتہ انتخابات میں ان کی جماعت کی ٹکٹیں فروخت ہوئیں۔ وہ خود ہی کہتے رہے کہ ٹکٹیں بک گئی ہیں۔

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ تب بھی ٹکٹوں کی فروخت پر انھوں نے آدھے سچ سے ہی کام لیا۔  لیکن نہ تو ٹکٹیں خریدنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی اور نہ ہی بیچنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی۔ بس آدھے سچ پر ہی گزارا کر لیا گیا۔پھر عمران خان خود ہی بیان دے رہے ہیں کہ مجھے پیسوں کی آفر ہوئی ہے۔ وہ اپنی جماعت میں ٹکٹوں کی تقسیم کا کوئی ایسا نظام نہیں بنا سکے جس سے کرپشن ختم ہو سکے جو باقی جماعتوں کے لیے قابل تقلید ہو۔

اسی طرح جب تحریک انصاف نے اپنی جماعت میں پارٹی انتخابات کروائے تو اس میں بھی کھل کر پیسے چلے۔ عمران خان تحریک انصاف میں بھی کوئی ایسا نظام نہیں بنا سکے کہ شفاف پارٹی انتخابات منعقد کروائے جا سکیں بلکہ وہ تو پارٹی انتخابات ہی کروانے سے ہی توبہ کر گئے۔

آج وہ ایک طرف تو یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ نااہلی کے بعد نواز شریف کو ملک میں سیاست کا حق نہیں ہے وہ سیاست سے آؤٹ ہو چکے ہیں لیکن دوسری طرف بنی گالہ پہنچنے کا ہر راستہ ترین ہاؤس سے ہو کر گزرتا ہے اور ترین کے بغیر پارٹی چل ہی نہیں سکتی۔ نواز شریف کی صدارت غیر قانونی لیکن ترین سیکریٹری جنرل شپ چلائیں وہ قانونی ہے۔ ایک طرف عمران خان کا موقف ہے کہ نیب زدگان کو سیاست سے باہر ہو جانا چاہیے جب وہ نیب سے کلین ہو جائیں تب سیاست میں واپس آئیں۔ لیکن دوسری طرف نیب زدہ علیم خان قابل قبول ہیں۔ ان پر نیب انکوائری کوئی بات نہیں۔یہ سب آدھے سچ کا حسین ملاپ ہے۔

اب خیبر پختونخواہ میں بھی عمران خان آدھا سچ بول رہے ہیں۔ سب کو پتہ ہے کہ وہاں پرویز خٹک کے خلاف مکمل بغاوت ہو چکی تھی۔ تحریک انصاف کا ایک بڑ اگروپ کافی عرصہ سے پرویز خٹک پر کرپشن کے الزامات لگا رہا تھا۔ بنی گالہ کے باہر احتجاج بھی ہوئے تھے۔ یہ تحریک انصاف کے اندر کی بغاوت ہی تھی جس نے عمران خان کو شیر پاؤ کی جماعت کو کرپشن پر حکومت سے نکالنے کے بعد دوبارہ شامل کرنے پر مجبور کیا۔

یہ تحریک انصاف کے اندر کی بغاوت ہی ہے جس نے عمران خان کو جماعت اسلامی کے مولانا فضل الرحمن کے ساتھ جانے کے اعلان کے بعد بھی حکومت میں ساتھ رکھنے پر مجبور کیا ہوا ہے۔ تحریک انصاف میں فاروڈ بلاک کوئی ڈھکی چھپی کہانی نہیں تھی لیکن عمران خان نے اس ضمن میں بھی ہمیشہ پرویز خٹک کا ساتھ دیا۔ اور آج بھی بیس لوگوں کو نکال کر انھوں نے دراصل کے پی کے کی تحریک انصاف پرویز خٹک کو ہی دے دی ہے جیسے پنجاب علیم خان کو دیا ہوا ہے۔

اب جو ارکان قران پاک ہاتھ میں اٹھا کر اپنی امانت و دیانت کی قسم اٹھا رہے ہیں اس پر عمران خان کیا کہیں گے۔ میں سو چ رہا ہوں کہ جو ارکان قرآن اٹھا کر قسم دے رہے ہیں عمران خان ان کے اس فعل کو جھوٹا کیسے کہیں گے۔ فیصل زمان نے قرآن اٹھا کر کہا ہے کہ انھیں پارٹی کے اندر ہونے والی سیاست کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ صاف نظرآرہا ہے کہ پرویز خٹک نے اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگایا ہے۔ خاتون رکن معراج ہمایوں کا موقف بھی بہت دلچسپ ہے کہ میرا تعلق تو قومی وطن پارٹی سے ہے اور میں نے تو سینیٹ انتخابات کے بعد مارچ میں تحریک انصاف جوائن کی ہے میرا نام کیوں دے دیا ہے۔

اب جاوید نسیم کے معاملے کو ہی دیکھ لیں۔ وہ    گزشتہ تین سال سے وزیر اعلی پرویز خٹک کے خلاف پریس کانفرنس کرنے اور ان پر کرپشن کے الزامات لگارہے تھے۔ اسی لیے انھیں پارٹی میں غیر فعال کر دیا گیا تھا۔ وہ چند روز پہلے ہی ق لیگ میں چلے گئے ۔ ان پر الزام ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ تین سال سے عمران خان ان کی پریس کانفرنسوں پر کیوں چپ تھے۔قربان علی خان کی ناراضگی بھی کھلم کھلا تھی اور انھوں نے پرویز خٹک کے خلاف خیبر پختونخوا اسمبلی میں فاروڈ بلاک بھی بنایا ہوا تھا۔اب امجد آفریدی کو دیکھیں تو 2015میں بلدیاتی انتخابات میں پارٹی ڈسپلن پر خلاف ورزی پر انھیں پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔

آج دوباہ نکال دیا گیا۔ وہ تب سے پارٹی کے ساتھ تھے ہی نہیں ۔یاسین خلیل بھی فاروڈ بلاک بنانے والوں میں شامل تھا اور فاروڈ بلاک کے ارکان کی میٹنگ یاسین خلیل کی رہائشگاہ پر ہوتی رہی ہے۔ان کا نام بھی لگتا ہے اسی جرم کی وجہ سے لیا گیا ہے۔بابر سلیم پی کے میں عوامی جمہوری اتحاد پارٹی کی ٹکٹ پر اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔عوامی جمہوری اتحاد کے پی ٹی آئی میں انضمام کے بعد بابر سلیم آزاد حیثیت میں اسمبلی میں موجود رہے وہ پی ٹی آئی کے ساتھ شامل نہیں ہوئے اور حکومت کے خلاف تقریریں بھی کرتے رہے۔

دو سال پہلے مشتاق غنی نے ہی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ بابر سلیم پی ٹی آئی کاحصہ نہیں ہے ۔بابر سلیم نے فروری 2018 میں مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی۔بابر سلیم نے خود بھی ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ میں کبھی پی ٹی آئی کا حصہ رہا نہیں تو عمران خان نے میرا نام کیسے لیا؟اب ان کا نام کیوں لیا گیا ہے۔ ویسے تو وجیہ الزمان انکار کر رہے ہیں لیکن وہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ ان کو 2015ء میں ڈسپلن کی خلاف ورزی پر مسلم لیگ ن نے پارٹی سے نکال دیا۔اس کے بعد وہ پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے ۔یکم اپریل 2018 کو وہ پی ٹی آئی چھوڑ کر مسلم لیگ ق میں شامل ہو گئے۔یہ ارکان کی خرید و  فروخت کی منڈی جو پرویز خٹک نے پانچ سال لگائی رکھی اس کا یہی انجام ہونا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔