انسداد انتہا پسندی سیل قوانین سے ناواقف دہشت گردوں کو معمولی ملزمان بنا کر عدالت میں پیش کر دیا

اصغر عمر  اتوار 14 اپريل 2013
 میڈیا کوریج پر پولیس افسر معمولی ملزمان کو دہشت گرد قرار دینے لگے،ملزمان پر عائد الزامات دہشت گردی شیڈول میں نہیں آتے.  فوٹو: فائل

میڈیا کوریج پر پولیس افسر معمولی ملزمان کو دہشت گرد قرار دینے لگے،ملزمان پر عائد الزامات دہشت گردی شیڈول میں نہیں آتے. فوٹو: فائل

کراچی: ملک کے معاشی حب کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لیے خصوصی طور پر تشکیل دیے گئے کرائم انویسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ کے افسران انسداد دہشت گردی کے قوانین سے قطعی نابلد ہیں یا میڈیا میں کوریج کی خواہش کے باعث عام ملزمان کو دہشت گرد قرار دینے کی روش پر قائم ہیں۔

یہ بات ہفتہ کو اس وقت عیاں ہوئی جب سی آئی ڈی نے اسلم محسود سمیت 4 ملزمان کو جوڈیشل مجسٹریٹ غربی کی عدالت میں ریمانڈ کیلیے پیش کیا ، سی آئی ڈی نے ملزمان کیخلاف مجموعی طور پر 6 مقدمات درج کیے ہیں جن میں اقدام قتل،کار سرکار میں رکاوٹ جیسے الزامات عائد کیے گئے تھے جن میں سے کوئی بھی الزام قانونی طور پر دہشت گردی کے شیڈول میں نہیں آتا، عدالت نے ملزمان کو 7 دن کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا۔

جبکہ پولیس کے اعلیٰ حکام نے جمعہ کو اس بارے میں میڈیا کو بتایا تھاکہ ان ملزمان کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (خان زمان گروپ کراچی ) سے ہے،ملزمان کی کی گرفتاری کا کریڈٹ ایڈیشنل آئی جی اقبال محمود ، ڈی آئی جی پی ڈاکٹر کامران افضل اور ایس ایس پی محمد اسلم خان کو دیتے ہوئے محکمہ پولیس کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ کراچی میں بم دھماکوں ،ٹارگٹ کلنگ ،اغوا برائے تاوان ،ڈکیتی اور ’’سنگین نوعیت کی دہشت گردی‘‘ کی وارداتوں کے خاتمے کے لیے انسداد انتہا پسندی سیل نے خفیہ اطلاع پر سلطان آباد میں کارروائی کرتے ہوئے دہشت گرد اسلم محسود، عباس خان ، رسول خان اور علی زمان کو گرفتار کرکے دھماکا خیز مواد ،کلاشنکوف، دستی بم اور ٹی ٹی پستول برآمد کیے،سی آئی ڈی کے مطابق ملزم اسلم محسود نے اعتراف کیا کہ وہ عباس ٹائون بم دھماکے کا ماسٹرمائنڈ ہے ۔

واضح رہے کہ اس سانحے میں 50 سے زائد افراد جاں بحق اور بڑی تعداد میں زخمی ہوئے تھے، سانحہ عباس ٹاون کے مقدمے میں دیگر الزامات کے ساتھ قتل اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 بھی شامل ہے، اسکے باوجود پولیس نے ان ملزمان کو اس مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش نہیںکیا، پولیس کے اس رویے سے ملزمان کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات کمزور ہوجاتے ہیں،کیونکہ قانون کے مطابق اگر کوئی ملزم اعتراف جرم کرلے تو اسے جلداز جلد متعلقہ مجسٹریٹ کے روبرو پیش کیا جانا ضروری ہے تاکہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164کے تحت اس کا بیان قلمبند کیا جاسکے اور اقبال جرم قانونی حیثیت اختیارکرسکے لیکن سی آئی ڈی پولیس نے یہ موقع ضائع کرکے دہشت گردی کے انتہائی اہم مقدمے کے ملزمان کو اپنے دفاع کا بہترین موقع فراہم کردیا ہے۔

پولیس نے اپنی کارکردگی کو بین الاقوامی میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کے لیے بھی استعمال کیااور دعویٰ کیاکہ ملزم اسلم محسود کے ممکنہ ٹارگٹس میں متحدہ قومی موومنٹ کا مرکزی دفتر 90 ، امریکی قونصل خانے پر بم دھماکا یا خود کش حملہ کرنے کا منصوبہ تھا اور اس حوالے سے ریکی بھی کرچکے تھے،پولیس ذرائع کاکہنا ہے کہ ایس ایس پی چوہدری اسلم ایسے بلند و بانگ دعوے کرنے کے عادی ہیں،یہ ہمیشہ تحریک طالبان پاکستان کے مختلف امیروں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن کسی کے خلاف عدالت میں الزامات ثابت نہیں کرپاتے،انسداد دہشت گردی ایکٹ97 میں چونکہ ناقص تفتیش پر تفتیشی افسر کے خلاف بھی کارروائی ہوسکتی ہے اس لیے یہ اپنے مقدمات خصوصی عدالتوں میں نہیں بھیجتے اور عام عدالتوں میں پیش کرتے ہیںکیونکہ یہاں مقدمات کی بھرمار کی وجہ سے عدالتی کارروائی طویل عرصے چلتی ہے۔

جس کی وجہ سے میڈیا اور عوام کی توجہ ان مقدمات سے کم ہوجاتی ہے،افسر ناقص تفتیش پر کارروائی کے خوف سے مقدمات خصوصی عدالتوں میں نہیں بھیجتے،کراچی بدامنی کیس میں پولیس کی پیش کردہ رپورٹ کے مطابق کالعدم تحریک طالبان کے27 ملزمان کے خلاف مجموعی طور پر 32 مقدمات ہیں جن میں اکثریت22 مقدمات اسلحہ ایکٹ جبکہ قتل کے9 مقدمات ہیں،لیکن ایس ایس پی چوہدری اسلم کالعدم تنظیموں کے لاتعداد ملزمان کو گرفتار کرچکے ہیں،خصوصی طور پر وہ محرم الحرام میں عاشورہ سے ایک روز پہلے دھماکا خیز مواد کے ساتھ ملزمان ضرور گرفتار کرتے ہیں ، پولیس ذرائع نے چیف جسٹس سے اپیل کی ہے کہ وہ کراچی میں ایسے پولیس افسران کی کارکردگی کے بارے میں بھی ازخود نوٹس لیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔