غیروں کو کیا پڑی ہے کہ رسوا کریں ہمیں

شاہد سردار  اتوار 22 اپريل 2018

مشہور برطانوی جریدے ’’اکنامسٹ‘‘ نے اپنی حالیہ اشاعت میں لکھا ہے کہ ’’30 لاکھ مقدمات کے بوجھ تلے دبی ہوئی پاکستانی عدلیہ مرغیوں کی فیڈ کے مسائل حل کرنے میں مشغول ہے۔‘‘

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ شہری مسائل دنیا بھر میں مقامی حکومتوں کی ذمے داری ہوتے ہیں لیکن افسوس صد افسوس کہ ہمارے ارباب اختیار کی غالب اکثریت ذہنی طور پر دیوالیہ پن کا شکار چلی آرہی ہے، اسے قومی اور بین الاقوامی دونوں صورتحال کا ادراک ہی نہیں ہے اور نہ ہی وہ قومی اور بین الاقوامی معاملات میں خود کو الجھانا چاہتے ہیں اور وہ ایسی کوئی ذمے داری لینے کو تیار نہیں ہیں جو ایک قومی رہنما کی ذمے داریاں ہوتی ہیں۔

عالمی، خطے اور علاقائی سطح پر تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں میں ہماری قومی سیاست کو جو کردار ادا کرنا چاہیے وہ شعوری طور پر ادا نہیں کر رہے۔ عالمی اسٹیج پر ہمارا کوئی بھی سیاست دان نظر نہیں آتا، ہمارے وزیر خارجہ رسمی طور پر اپنی ذمے داریاں ادا کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم اپنے اور اپنی پارٹی کے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں ۔

حکمران پاکستان مسلم لیگ (ن) صرف نواز شریف بچاؤ پارٹی بنی ہوئی ہے ۔ دیگر سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی آگے بڑھ کر خارجہ امور میں کوئی کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ دنیا ایک نئے بیانیہ کی طرف جا رہی ہے اور ہمارے ہاں کوئی ایک سیاستدان نہیں جو بھٹو کی طرح ان بدلتے ہوئے حالات میں پاکستان کو قائدانہ کردار دلا سکے اور پاکستان کے مفادات کے لیے عالمی لیڈر کے طور پر کام کرسکے۔

ہمارے ملک میں 50 فیصد سے زیادہ آبادی ہیپاٹائٹس جیسے موذی مرض کا شکار ہے جس سے معدے اور جگر کے کینسر کے مرض میں سالانہ لاکھوں لوگ مبتلا ہو رہے ہیں۔ ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق پاکستان میں 45 فیصد لوگ غیر طبعی موت مر جاتے ہیں اور اس کی بڑی وجہ دودھ اور کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ، آلودہ پانی اور جعلی دواؤں کی مرہون منت ہے۔ تعلیم، صحت اور پانی کے ساتھ دیگر 6 مسائل کا چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لیا ہے۔

مقام شکر ہے کہ ملک کے منصف اعلیٰ عام آدمی کے مسائل اور تکالیف کو کیسی گہری دل سوزی کے ساتھ محسوس کرتے ہیں اور ان کے ازالے کے لیے کس قدر جاں فشانی، خلوص اور تندہی سے کوشاں ہیں۔ حکمرانوں کی کرپشن سے لے کر پینے کے صاف پانی، ملاوٹ سے پاک دودھ اور شہر سے کچرا اٹھانے تک کے معاملے میں چیف جسٹس عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے ازخود نوٹس لے کر حالات درست کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

ان کا یہ جذبہ اور کاوشیں بلاشبہ انتہائی قابل قدر ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ کسی بھی معاشرے میں کوئی ایک فرد یا ادارہ تمام شعبوں اور اداروں کا کام سرانجام نہیں دے سکتا جب کہ یہ مخلصانہ کاوشیں بعض اوقات شکوک و شبہات کا ہدف بھی بن جاتی ہیں۔

یہ ایک دل خراش حقیقت ہے کہ پاکستان کی معیشت اندر سے کھوکھلی ہوچکی ہے اور یہ اس وقت 268 کھرب روپے کے عالمی قرضوں کے نیچے دبی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ بھی پاکستان کو ان دنوں اندرونی اور بیرونی طور پر بہت سی اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی، برآمدات کی نسبت درآمدات کا زیادہ ہونا جس کی وجہ سے توازن ادائیگی روز بروز زیادہ منفی ہوتا جا رہا ہے اور ملک کے عام شہری کو ہوش ربا مہنگائی کا سامنا ہے۔

ان منفی حالات سے نمٹنے کا ایک راستہ حکومت کے پاس پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا ہے چنانچہ پچھلے سات ماہ میں پٹرولیم کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہی کیا گیا۔ اس کے علاوہ امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔

ملک بھر میں ’’نامعلوم افراد‘‘ کی جانب سے شہریوں کے جبری اغوا اور پھر لاپتہ کردیے جانے کے سلسلے کا برسوں سے جاری رہنا پارلیمنٹ، حکومت، اعلیٰ عدالتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت پوری پاکستانی قوم کے لیے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کہ کیا اس کے باوجود ہم ایک پابند آئین و قانون ملک اور مہذب معاشرہ کہے جانے کے حق دار ہیں؟ اور بدقسمتی سے تمام آئینی ادارے اس لاقانونیت کو روکنے میں مکمل طور پر بے بس نظر آتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ملک بھر میں ان واقعات پر اظہار تشویش کے باوجود یہ معمہ حل کیوں نہیں ہوتا کہ یہ نامعلوم افراد کون ہیں اور انھیں قانون کے دائرے میں لانے کی کوششیں کامیاب کیوں نہیں ہوتیں ؟ اگر ہم واقعی ایک زندہ قوم ہیں اور اگر ہمیں ایک مہذب معاشرے کی حیثیت سے دنیا میں اپنا مقام بنانا ہے تو پارلیمنٹ، عدلیہ اور فورم سمیت تمام ریاستی اداروں کو اس بے انصافی اور ظلم کے خاتمے کے لیے مشترکہ طور پر پیش قدمی کرنی ہوگی۔

دراصل کسی بھی مجرم پر سزا کا خوف نہ ہو تو طاقت و اختیار کی بے لگامی سماج کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیتی ہے۔ کمزور کا حق دبانے کا چلن عام ہوجاتا ہے حتیٰ کہ بات دیگر سنگین جرائم تک جا پہنچتی ہے۔ معاشرے کو انھی جرائم سے محفوظ رکھنے کے لیے قوانین بنائے اور نافذ کیے جاتے ہیں۔ المیہ تب رونما ہوتا ہے جب قانون نافذ کرنے والے ادارے سماج دشمن عناصر کا دست و بازو بن جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں وہ ہوتا ہے جو عرصہ دراز سے پاکستان میں ہو رہا ہے۔

دراصل نظریہ ضرورت نے نظریہ پاکستان کو نگل لیا ہے اور ہم دو نمبر کام کرنے کے حوالے سے نمبر ون بن چکے ہیں، ہم میں سے ہر ایک کا ہاتھ کسی دوسرے کی جیب میں ہے۔ عوام ایسے میں بھی طاقت کا سرچشمہ ضرور ہیں لیکن سوکھا ہوا چشمہ۔ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ ’’امت‘‘ کے خواب دکھانے والے سیاسی بازی گر خود محلے کی سطح پر بھی متحد نہیں۔

ہمارے بے حس پالیسی ساز منرل واٹر پی کر عوام کے لیے صاف پانی کی فراہمی کے منصوبے بناتے ہیں جو کبھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ پاتے۔ جائے حیرت ہے کہ ہمارے اعتماد کی بحالی اور قومی گراوٹ کا سفر تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔

کون نہیں جانتا اقتدار آزمائش ہوتی ہے ۔ اقتدار صاحب اقتدار کو بے نقاب بھی کر جاتا ہے۔ حکمرانی کے دور میں حکمران کا ایک ایک فیصلہ تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے اور اس کا انداز حکمرانی، انداز زندگی، حکمران کی اصل شخصیت کو بے نقاب کردیتا ہے اور زہر ناک سچائی یہی ہے کہ ہمارے سارے کے سارے ارباب اختیار یا سیاستدان بے نقاب ہوچکے ہیں اور ان سے پاکستان کے کسی شہری کو کوئی توقع کوئی امید نہیں ہے۔

’’عام انتخابات‘‘ جن کے انعقاد میں اب محض چند ہفتوں کی مدت ہی باقی رہ گئی ہے پھر سے اس حقیقت کو آشکارہ بننے کا سبب بنیں گے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ کوئی معجزہ ایسا ہوجائے جس سے عوام کی حقیقی رائے کے مطابق ملک کو زیادہ بہتر، دیانت دار اور باصلاحیت قیادت میسر آسکے۔ کیونکہ پاکستان میں برسوں سے جو چیز یقینی رہی وہ بے یقینی ہے۔ آئین کی واضح تشریح نہ ہونے کی وجہ سے ریاستی اداروں میں اختیارات کی تقسیم کا ایشو ابھی تک طے نہیں ہوا ۔

بہرحال اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کی سیاسی و آئینی تاریخ کی غلطیوں کو درست کرلیا جائے کیونکہ پاکستان اب مزید کسی سیاسی بحران اور ماورائے آئین کی حکمرانی کا متحمل نہیں ہوسکتا، اب کسی نظریہ ضرورت کی گنجائش بھی نہیں۔ ریاست کے ستونوں میں جب دراڑیں پڑنے لگتی ہیں تو محاذ آرائی اور تنازعات کے ممکنہ نتائج خطرناک ہی برآمد ہوتے ہیں۔

ہمارے ارباب اختیار یعنی ہمارے حکمرانوں کو یہ بات اپنی گرہ میں باندھ لینی چاہیے کہ قوموں کے مقدر اور ملکوں کے نقشے برسوں میں نہیں بلکہ دہائیوں اور صدیوں میں تشکیل پاتے اور بدلتے ہیں لہٰذا وطن عزیز کے لیے اچھا سوچنا اور اچھا کرنا ان کا فرض ہے اور اسے قرض کی طرح ادا کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔