کیا یہی تہذیب ہے آپ کی!!

شیریں حیدر  اتوار 22 اپريل 2018
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

ابھی اس کا وجود گزرے دن کا کھایا پیا ہی ہضم نہیں کر پایا ہوتا کہ فجر کی اذان ہوتے ہی، مسجد آنیوالے لوگوں کی آمدورفت شروع ہو جاتی ہے، ان میں سے کئی ایسے ہیں جو اس کے پاس سے گزرتے ہوئے ، اپنے بوجھ کو ہلکا کرتے ہیں اور اس کا حجم اور بھی بڑاہو جاتا ہے ۔ کسی کے ہاتھ میں کوئی لفافہ ہے، کسی کے سگریٹ کا ٹوٹا۔ کوئی پاس رک کر کھنکار کر گلے کی گہرائی سے بلغم تھوک کر اس کی زینت میں اضافہ کر دیتا ہے۔

آپ ٹھیک سمجھے، یہ ہمارے ملک کے ہر گلی کوچے میں پھیلے ہوئے غلاظت اور کوڑے کے ڈھیروں میں سے ایک ڈھیر ہے۔ ایسے ڈھیر آپ کو قدم قدم پر ملیں گے، ان کے لیے کوئی جگہ مخصوص نہیں، جہاں جس کا دل چاہتا ہے وہ اس کی بنیاد رکھ دیتا ہے ، بلکہ ہر کوئی اپنی سہولت کیمطابق، اپنے گھر سے ذرا ہٹ کے، دوسروں کے لیے مصیبت کے اس پہاڑ میں پہلا ڈھیر لگاتا ہے اور پھر اس کی پرورش شروع ہو جاتی ہے۔

کوڑے کا یہ ڈھیر پہلے چھوٹا ہوتا ہے… ہر ذی نفس کی طرح، مجھے لگتا ہے کہ یہ سانس بھی لیتا ہو گا، کیونکہ یہ چلتا بھی ہے، اپنی حدود سے نکل کر سڑک کے اور گلیوں کے بیچوں بیچ پہنچ جاتا ہے۔ بد بو بھی پیدا کرتا ہے اور اس کا دم بھی گھٹتا ہو گا جب اوپر اور اوپر مزید تہیں لگتی جاتی ہیں۔

اس کے جلدی پروان چڑھنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کو بڑھانے والے تو ہزاروں ہوتے ہیں مگر اسے سمیٹنے کی ذمے داری کسی چھوٹے سے حکومتی ادارے کے دو چار افراد کی ہوتی ہے اور ان کی اس کے علاوہ بھی بہت اہم مصروفیات ہوتی ہیں ۔ جب کسی با اثر فرد کا گھر ایسی کسی کوڑے کے ڈھیر سے متاثر ہوتا ہے تو یہ مشینری جلد حرکت میں آ جاتی ہے اور اس کے بعد اس ڈھیر کا تبادلہ کسی ایسی جگہ کر دیا جاتا ہے جہاں کے رہنے والوں کی پہنچ اوپر نہ ہو، ان کی قوت برداشت کو آزمایا جاتا ہے۔

چونکہ کوڑے کرکٹ کے disposal کا ہمارے ہاں کوئی مناسب اور متواتر انتظام موجود نہیں ہے، ( یوں توباقی بھی کسی چیز کا مناسب انتظام نہیں ہے )، ہر روز ہم ہر گھر میں سے لازمی کوڑا اور غلاظت اپنے گھروں سے باہر پھینکتے ہیں، باہر وہ کس کی صحت کس کو جسمانی یا ذہنی طور پر متاثر کرتا ہے ، اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ عام علاقوں میں نہ تو کوڑا دان ہیں اور نہ ہی صفائی کا عملہ نظر آتا ہے، اگر کوئی محلہ کمیٹی اپنے طور پر کوئی انتظام کر لے تو اس کے لیے بھی لوگوں کو چند ٹکے صفائی والے کو ماہانہ دیتے ہوئے بہت تکلیف ہوتی ہے۔

چھوٹی سی مثال میں اس سے قبل بھی کئی بار اپنے گاؤں کی دے چکی ہوں کہ اسکول میں پڑھنے والے بچے، عام طور پر ہر روز سو پچاس روپے اپنے اسکول میں کنٹین پر خرچ کرنے کے لیے لے کر جاتے ہیں مگر ان کے والدین ماہانہ تین سو روپیہ گاؤں کی گلیوں اور نالیوں کی صفائی کے لیے کسی جمعدار کو دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

شہروں میں کھمبیوں کی طرح اگنے والی نئی نئی ہاؤسنگ اسکیموں میں آپ کو گھر، ان میں کھڑی گاڑیاں ، ان گھروں سے نکلنے والے بچے اور سوٹڈ بوٹڈبڑے، اپنے حلیوں سے ہی تہذیب یافتہ نظر آتے ہیں مگر ان کے علاقوں میں جا بجا پڑے ہوئے گندگی کے ڈھیر سوال پوچھتے ہیں… ’’ کیا یہی تہذیب ہے آپ کی؟ ‘‘ قیمتی اور لش لش کرتی گاڑیوں میں سے مین شاہراہوں پر بھی کھڑکی کھول کر ٹافیوں اور چپس کے پیکٹوں کے ریپر اور پھلوں کے چھلکے چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ یہ ہے اس گاڑی میں بیٹھے ہوئے ان مہذب لوگوں کا اصلی چہرہ۔ ہوا اور ہمارے قدم کوڑے کے ان ڈھیروں کو اڑا اڑا کر فضا میں ہر طرف پھیلاتے اور ہر طرف تعفن پھیلاتے ہیں۔

آپ کسی کوڑے کے ڈھیر کے پاس کھڑے ہوں ، ا سے غور سے دیکھیں تو ا س کے بعد آپ اپنے آپ سے بھی نظر نہ ملا سکیں گے۔ بچوں کے ڈائپرز سے لے کر ہر عمر تک کے لوگوں کے استعمال شدہ سینٹری آئٹمز… لکڑی، شیشہ، چمڑہ، کپڑا، گلے سڑے پھل اورسبزیاں ، گھروں کا بچا ہوا اور باسی کھانا۔ کاغذ… جو عموما استعمال شدہ ہوتے ہیں، ان پر بسا اوقات آیات تک لکھی ہوتی ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس ملک میں سب سے زیادہ ضرورت لوگوں کو ماحول کی صفائی اور کوڑے کو تلف کرنے کے طریقے کی تربیت دینے کا ہے۔

ہمارے لوگ بڑے سادہ ہیں، میں جب بھی کسی سے ملتی ہوں تو لوگوں کا مطالبہ ہوتا ہے کہ ان کے فلاں مسئلے کے بارے میں لکھا جائے تا کہ ان کی شنوائی ہو۔ میں ان لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے کسی نہ کسی طرح ان کے مسائل کی بابت لکھ دیتی ہوں چاہے کسی کے کانوں پر جوں رینگے یا نہیں۔ اس بار بھی گجرات جانا ہوا تو والد صاحب کے ایک انتہائی محترم دوست اور ان کے ہمسائے، اپنے بڑھاپے اور علالت کے باوجود مجھے ملنے کے لیے آئے اور میں شرمندہ ہو گئی۔

ان کا مطالبہ ہے کہ میں ان کے لیے کالم لکھوں کہ مرغزار کالونی گجرات، جو کہ شہر کے نواح میں ایک خوبصورت آبادی میں شمار ہوتی تھی، اس میں کوڑے کرکٹ کے disposal کا بہت بڑا مسئلہ ہے، پہلے لوگ کالونی کے مرکزی پارک میں کوڑا پھینکتے تھے جو کہ بچوں کے لیے کھیلنے کی واحد جگہ تھی۔ اس پر رہائشیوں نے شور مچایا تو اسی جگہ پر اس پارک میں ایک کچرا کنڈی بنا دی گئی ہے۔

اب کوڑا اس کچرا کنڈی کے اندر نہیں بلکہ اس کے باہر عین لوگوں کے گھروں کے سامنے سڑک پر ڈھیر لگا ہوتا ہے۔ اس کوڑے میں ہر طرح کی غلاظت ہے، اسے کوڑے میں سے کارآمد اشیاء چننے والے لوگ، غلاظت میں سے چن چن کر کھانے پینے کی اشیاء نکالنے والے اور اپنے لیے کھانے کو کچھ تلاش کرنے والے جانوروں تک… سب اپنا کام کرتے اور رہائشیوں کے لیے ذہنی کوفت کا باعث بنتے ہیں۔

اپنے گھروں کے سامنے باہر نکلنا مشکل ہوتا ہے، کوئی مہمان آئے تو اسے باہر تک رخصت کرتے ہوئے انسان یوں محسوس کرتا ہے جیسے وہ خود ہی اس گندگی کا ذمے دار ہو۔ چند ماہ پہلے تک اس علاقے میںکسی ٹیلی وژن چینل کا نمائندہ وہاں قیام پذیر تھا تو اس کے ذریعے لوگ ارباب اختیار سے رابطہ کر لیتے تھے اور اس کچرا کنڈی کو ہفتے میں ایک بار خالی کر لیا جاتا تھا۔

اس کا اندازہ بھی آپ کرلیں کہ کوڑا تو روزانہ کی بنیادوں پر پیدا ہوتا ہے اور اس کی صفائی کا کام پہلے زیاد ہ سے زیادہ ہفتے میں ایک بار ہوتا تھا اور اب وہ بھی نہیں رہا ۔ متاثرین چیخ چیخ کر تھک چکے ہیں مگر نہ کوڑا پھینکنے والوں کو تمیز آتی ہے اورنہ کوئی اور متبادل نظام ہے۔

میرے پاس تو ان کی درخواست کے جواب میں فوری طور پر عمل کرنے کے لیے کچھ بھی نہ تھا، میںنے خود کو بے حد بے اختیار پایا ، وقت کی کمی کے باعث کوشش بھی نہ کر سکی کہ شہر کے ارباب اختیار سے مل کران کو اس مسئلے کا کوئی حل نکالنے کو کہتی یا ضلع کمیٹی میں کوئی تعلق نکل آتا کہ ان سے کوڑے کی صفائی کے نظام کو متواتر اور باقاعدہ کروایا جا سکے۔

گجرات سے واپسی کے سفر میں، مرغزار کالونی سے لے کر مین جی ٹی روڈ تک آتے ہوئے مجھے ایسے کئی غلاظت کے ڈھیر نظر آئے جن میں سے بارش کے باعث، کوڑے کے ڈھیروں سے ہر طرح کی نجاست سڑکوں پر تیرتی ہوئی سڑکوں کی بد نمائی میں مزید اضافہ کر رہی تھی۔ میں سوچ رہی تھی کہ اس علاقے کے لوگ اپنے گھروں سے کیا کشتیوں کے ذریعے نکلتے ہوں گے؟ یہ مسئلہ صرف ایک شہر کی ایک کالونی کا نہیں ہے بلکہ ہر شہر اور قصبے کے ہر گلی کوچے کا یہی المیہ ہے۔

ہمارا تو نصف ایمان ہی صفائی ہے اور اسلام کی اصل روح دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہے۔ کیا ہم اتنے کم عقل، جاہل اور بے حس ہیں کہ اپنے ہاتھ سے ایک کاغذ کا چھوٹا سا ٹکڑا پھینکتے ہوئے، ایک لمحے کے لیے نہیں سوچتے کہ ہمارا یہ چھوٹا سا عمل ہمارے ملک کی خوبصورتی کو کس طرح مسخ کرتا ہے۔ اس ملک میں بد قسمتی سے ہر طرح کے مسائل کی وجہ بھی ہم حکومت کو سمجھتے ہیں اور ہر مسئلے کا حل بھی حکومت کی ذمے داری سمجھتے ہیں، چاہے وہ ہماری اپنی ہی سستی اور لاپروائی کی وجہ سے گندگی کا لگا ہوا انبار ہی کیوں نہ ہو۔ ہمارا بس چلے تو ہم اپنے منہ دھلوانے، دانت صاف کرنے کا کام بھی حکومتی نمایندوں سے کرنے کی توقع کریں۔

ملک میں ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لاکھوں ذہین لوگ ہیں جو ہر روز مختلف،انوکھی اور نت نئی تجاویز سامنے لاتے ہیں۔ کیا کوئی ایسا ذہن ہے جو اس ملک میں کوڑے کرکٹ کی آسان اور موثرتلفی یا ری سائیکلنگ کے لیے کوئی بہتر تجویز حکومتی سطح پر متعارف کروائے جو کہ ملک بھر کے لیے نافذ کی جا سکے یا پھر مختلف ہاؤسنگ اسکیمیں بناتے وقت کوڑے کی تلفی کے لیے پلانٹ لگائے جائیں، ہمارا ملک بھی صاف نظر آئے اور فضائی آلودگی میں بھی کمی واقع ہو سکے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔