بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا

رئیس فاطمہ  اتوار 22 اپريل 2018
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

چند دن قبل ایک نہایت ہولناک خبر نظر سے گزری، جسے پڑھ کر بہت سے حساس لوگ غمزدہ ہوگئے ہوں گے۔ ابھی معصوم زینب کا واقعہ میڈیا کی وجہ سے زندہ ہے، مجرم اب تک انجام کو نہیں پہنچا۔ ابھی مشال کیس بھی پرانا نہیں ہوا، لیکن افسوس کہ اس قتل عمد میں ملوث نوجوانوں کو ثبوت ناکافی ہونے پر بری کر دیا گیا۔

زینب کے بعد بھی جنسی درندگی کے واقعات رکے نہیں۔ ننھی ننھی معصوم کلیوں کو نوچنے والے ہاتھ بہت مضبوط ہیں، انھیں کسی کی پروا  نہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ جب ثبوت مل جاتے ہیں تو مجرم کو فوری سزا کیوں نہیں ملتی۔

نقیب اللہ محسود کا مبینہ قاتل راؤ انوار جس نے کراچی میں جعلی پولیس مقابلوں میں لاتعداد لڑکوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا خود اتنا ڈرپوک نکلا کہ فرار ہوگیا،  اتنا ہی بہادر تھا تو سامنے آتا لیکن کیوں سامنے آتا؟ اس کے ’’گاڈ فادر‘‘ نے تھپکی دے کر چھپا جو لیا تھا۔ جنسی درندگی کا سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا ہے۔ روز ایک نئی قیامت منتظر رہتی ہے۔ چند دن پہلے سرگودھا کے حوالے سے ایک اور جنسی اسکینڈل سامنے آیا ہے۔

حالیہ دنوں میں بدفعلی کے شکار دو طلبا جن کی ویڈیوز فیس بک ویڈیو میں اپ لوڈ کی گئی ہیں۔ 12 ویڈیوز منظر عام پر آچکی ہیں۔ ملزمان کے خلاف مختلف تھانوں میں کئی مقدمات درج ہیں لیکن ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ جن دو نوجوانوں کے ساتھ بد فعلی کی گئی  انھوں نے بتایا کہ وہ دونوں کلاس فیلو ہیں اور والی بال کھیلتے تھے۔ انھیں گن پوائنٹ پر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور تشدد بھی کیا گیا۔

اس دوران ان کی ویڈیو بھی  بنائی گئی اور زیادتی کے بعد کسی کو بتانے پر قتل کی دھمکیاں بھی دی گئیں اور دھمکی دی گئی ان کی ویڈیو فیس بک پہ اپ لوڈ کردی جائے گی۔ گن پوائنٹ پر سیکڑوں لڑکوں اور طالب علموں کی ویڈیوز تھیں جو ہمیں دکھاتے بھی تھے۔ متاثرہ افراد کا چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ ہے کہ مذکورہ واقعے کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائے۔

یہ ہے آپ کا اسلامی جمہوریہ پاکستان۔ کیا کوئی مذہبی جماعت اس واقعے کا نوٹس لے کر دھرنا دے گی۔ فحاشی اور عریانی میں اضافہ انٹرنیٹ آنے کے بعد زیادہ ہوا ہے۔ یو ٹیوب پر ہر طرح کا لٹریچر پڑا ہے جس کو دیکھ کر جرائم میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ایک محروم معاشرہ ہے۔ انٹرنیٹ آناً فاناً گلی گلی پھیل چکا ہے۔ موبائل فون اور کمپیوٹر ہر جگہ موجود ہے۔

ٹی وی چینلز بھی اس  کے ذمے دار ہیں، ڈراموں میں ریٹنگ بڑھانے کے لیے مختصر اور چست لباس دوپٹہ غائب، خاص کر ٹاک شوز کی میزبانوں اور خبریں پڑھنے والی خواتین کے لیے چست لباس، بغیر آستین کی قمیض جس پر دوپٹہ ندارد نہایت ضروری ہیں۔ لیکن کسی کو خیال نہیں آتا۔ کچے ذہنوں پر اس کا جو اثر ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔

یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ٹی وی اسکرین پر جو کچھ دکھایا جاتا ہے بچے اس کا اثر لیتے ہیں۔ زبان کے بگاڑ میں بھی ٹی وی چینل بہت آگے ہیں۔ اسکول جانے والے طلبا و طالبات کے ہاتھوں میں اینڈرائیڈ موبائل ہیں وہ اسکول میں بھی اس کھلونے سے کھیلتے رہتے ہیں اور پھر گھر آکر دوبارہ اس میں گم ہوجاتے ہیں، چھوٹے بڑے سب اس کے اسیر ہیں۔

زینب، مشال اور بہت سارے دوسرے واقعات جس تسلسل سے پیش آ رہے ہیں کاش عدلیہ اور حکومت اس کا نوٹس لے۔ میری نظریں کسی ایسی خبر کو ڈھونڈتی رہیں جس میں کسی مذہبی یا سیاسی جماعت نے نوٹس لیا ہو۔ کسی جماعت نے احتجاج کیا ہو کہ مجرموں کو سزا دی جائے۔ ہم اتنے بے حس کیوں ہیں؟  ہمارے تھانے، ہمارے نام نہاد سیاستدانوں کو فرصت ہی نہیں کہ ان قبیح واقعات کا نوٹس لے اور فوری انصاف فراہم کیا جائے۔

درندگی کے واقعات اس درجے بڑھتے جا رہے ہیں کہ جنسی درندے پانچ سالہ اور تین سالہ بچیوں کو بھی نہیں چھوڑ رہے۔ ٹی وی پر روزانہ ٹاک شوز کا میلہ لگتا ہے، ایک دوسرے کوگالیاں دی جاتی ہیں، برا بھلا کہا جاتا ہے لیکن کوئی ٹاک شو ان واقعات پر بات نہیں کرتا کہ بچیوں اور لڑکوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو فوری سزا دی جائے۔

انٹرنیٹ اور ٹی وی آج کی ضرورت ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مادر پدر آزادی دے دی جائے۔ سوشل میڈیا ٹی وی اور اخبارات ہی کی وجہ سے یہ واقعات سامنے آرہے ہیں لیکن محض واقعات کی تکرار مسئلے کا حل نہیں ہے۔ چینلز کو یہ بھی چاہیے کہ ان موضوعات پر بات کرے۔ ہمارے ملک کی زیادہ تر آبادی ان پڑھ ہے، جہالت سب سے بڑی برائی ہے۔

ایسے میں جاہل اور ان پڑھ لوگوں کے ہاتھوں میں جب موبائل آجائے تو وہ ’’لطف اندوز‘‘ ہونے کے لیے وہی ویب سائٹس دیکھیں گے جو کھلے عام فحاشی پھیلا رہی ہیں۔ ایسے میں حکومت کا فرض ہے کہ ان سائٹس کو بند کرے اور کیبل آپریٹرز کو بھی پابند کرے کہ وہ عریانی اور بے ہودگی والی فلمیں اور ڈرامے نہ دکھائے، لیکن پھر وہی سوال کہ ’’بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔