عدلیہ، افواج اور عوام کے ہوتے پاکستان ’’کولمبیا‘‘ نہیں بن سکتا!!

رحمت علی رازی  اتوار 22 اپريل 2018
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

کسی بھی امتیاز کے بغیر عدلیہ کی طرف سے ملک کے ہر شہری کو انصاف فراہم کرنا اللہ کا حکم بھی ہے، اللہ تعالیٰ کے آخری رسول تاجدارِ کائنات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا ارشادِ پاک بھی اور آئینِ پاکستان کا بنیادی تقاضا بھی۔

قرآن شریف میں متعدد بار فراہمیِ انصاف کے حوالے سے آیاتِ مبارکہ نازل ہُوئی ہیں۔ اللہ کے یہ احکامات قیامت تک کے لیے ہیں۔ جو اِن سے انحراف کریگا، ہمیشہ کے لیے ذلیل و خوار ہو جائے گا۔ اِس دنیا میں بھی اور اُس جہان میں بھی۔ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے پاکیزہ کردار سے انصاف کی ایسی روشن مثالیں قائم کر دیں جن سے بنی نوعِ انسان کائنات کے خاتمے کی آخری گھڑی تک قلب و ذہن کو منور کرتے رہیں گے۔

ہمارے خلفائے راشدین نے بھی اپنے عمل سے ہمیشہ انصاف کا پرچم بلند کیے رکھا۔ ایسے لاتعداد عادل مسلمان حکمران اور مسلمان منصفین ہو گزرے ہیں جنھوں نے مظلوم کو انصاف فراہم کرتے وقت اپنے پرائے میں کبھی کوئی فرق اور امتیاز نہ برتا۔ انصاف کا ترازو تھامتے وقت انھوں نے کبھی پلڑے کو ظالم و جابر اور طاقتورکی طرف نہیں جھکنے دیا۔ کیا زمانہ آگیا ہے کہ اب ہمارے درمیان کچھ ایسی کالی بھیڑیں دَر آئی ہیں جو عدل کی راہیں مسدود اور محدود کرنے کی دَر پے ہیں۔

یہ بد بخت اپنی بدعنوانیوں پر ہمیشہ کے لیے پردہ ڈالنے کے لیے انصاف کا خون کر دینا چاہتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ دہشت، غنڈہ گردی اور بدمعاشیوں سے منصفین کو ڈرا دھمکا سکیں۔ ماضی قریب میں بھی کبھی کبھار وطنِ عزیز میں ایسا ہوتا رہا ہے لیکن انصاف فراہم کرنیوالے ڈراوے کا شکار ہُوئے نہ انھوں نے انصاف کا ترازو تھامنے سے انکار کیا۔ وہ چٹان کی طرح اپنے عہد پر ڈٹے رہے۔

کوئی اُنہیں ڈرا سکا نہ دھمکا سکا۔ ڈرانے اور دھمکانے والے اپنی موت آپ مر گئے، شکست کھا کر دنیا سے معدوم ہو گئے لیکن ہماری عظیم عدلیہ اور منصفوں کا پرچم بدستور اپنی آن بان شان سے لہراتا رہا۔ اب بھی اسی شان سے لہرا رہا ہے اور انشا ء اللہ تاابد اِسی شان و شوکت کے ساتھ لہراتا رہیگا۔ہم جب پلٹ کرماضی قریب کے جھروکوں میں جھانکتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ججوں پر باقاعدہ حملے کیے گئے۔

پاکستان کے مختلف علاقوں میں ان دہشت گردانہ حملوں میں کئی جج صاحبان نے جامِ شہادت بھی نوش کیا لیکن انصاف کا پر چم سر نگوں نہ کیا جا سکا۔جیسا کہ جنوری 2000 میں جسٹس نواز مری، اگست2012 میں جج ذو الفقار نقوی اپنے گارڈ اور ڈرائیور سمیت، جنوری2014 میں جج سخی سلطان، مارچ2014 میں سیشن جج رفاقت اعوان اور اگست2015 میں ایڈیشنل سیشن جج طاہر خان نیازی شہید کر دئیے گئے لیکن انصاف کو جھکایا اوراپنے ڈھب پر نہ لایا جا سکا۔

اس کے علاوہ جون2013ء میں سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس مقبول باقر کے قافلے پر بھی حملہ ہُوا تھا۔ اللہ کے فضل سے وہ تو بچ گئے تھے لیکن اُن کے قافلے میں شامل دس افراد شہید اور پندرہ شدید زخمی ہو گئے تھے۔ پھر بھی ظلم و جبر اور کرپشن کرنیوالے ہمارے بہادر ججوں کو خوف میں مبتلا نہیں کر سکے تھے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری عظیم عدلیہ کی تاریخ میں بہت سے ایسے شہدا کا خون شامل ہے جنھوں نے اپنی قیمتی زندگیاں تو قربان کردیں لیکن انصاف کا خون نہ ہونے دیا اورنہ ہی انصاف کی اُجلی چادر پر ناانصافی کے سیاہ دھبّے لگنے دئیے۔ سیاہ کاروں اور بد عنوانوں نے انصاف کرنیوالوں سے جنگ ابھی بند نہیں کی ہے۔ وہ نئے ہتھکنڈوں اور ہتھیاروں سے لَیس ہو کر جری عدلیہ کو خوفزدہ کرکے اپنے راستے ہموار کرنا چاہتے ہیں لیکن ایسا کبھی نہیں ہوگا۔

اِنہی بد باطنوں اور سیاہ کاروں نے چہروں پر نقاب ڈال کر اب سپریم کورٹ کے جج عزت مآب جسٹس اعجاز الاحسن صاحب کے گھر پر بھی وار کیا ہے۔ جج صاحب نہائت اہم مقدمات کی سماعت کررہے ہیں، اس لیے شبہ ہے کہ ممکن ہے حملہ آوروں نے اُنہیں واضح کوئی پیغام دینے کی بھی (ناکام) کوشش کی ہو۔ معزز جج صاحب کے گھر پر وقفے وقفے سے دوبار حملہ کیا گیا ہے۔ جو شواہد ملے ہیں، بتاتے ہیں کہ پستول سے یہ واردات کی گئی ہے۔ پہلے رات کے تیسرے پہر اور پھر صبح سویرے نو، سوا نو بجے کے قریب۔

اس خبر نے پورے پاکستان میں بجا طور پر تشویش کی ایک لہر دوڑا دی ہے۔ ملک بھر کے وکلا اور عوام سراپا احتجاج ہیں۔ حملے کی خبر سُن کر ہر طرف ایک ہیجان کی سی کیفیت دیکھنے میں آئی۔ یہ عمل فطری تھا۔ مسلم لیگ ن کے نااہل تاحیات قائد اور اُن کی صاحبزادی اور ان کے سیاسی بہی خواہ جس تواتر اور تسلسل کے ساتھ پچھلے سال جولائی کے مہینے سے اعلیٰ عدلیہ اور عدالتِ عظمیٰ کے جج صاحبان پر تنقید، تنقیص اور طنز کے نشتر چلا رہیں، لاہور میں سپریم کورٹ کے جج صاحب کے گھر پر حملے کے بعد فوری طور پر اِسی پارٹی کی طرف عوام کی انگلیاں اٹھنا عین فطری تھا۔

یہ سیاسی پارٹی ماضی قریب میں سپریم کورٹ پر حملہ کرنے کی بھی ذمے دار قرار دی گئی تھی جس کی وجہ سے اس کے کئی رہنماؤں اور کارکنوں کو عدالت کی طرف سے سزائیں بھی ہُوئیں۔ ابھی تک مگر پاکستان کے سبھی عوام اِس حیرت میں مبتلا ہیں کہ جس علاقے میںمعزز جج صاحب کی رہائشگاہ ہے، وہیں بالکل نزدیک ہی وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے ایم این اے حمزہ شہباز شریف کی بھی رہائشگاہیں موجود ہیں۔

اس علاقے میں دن رات محافظوں اور پولیس کا گشت رہتا ہے۔سیکیورٹی کی صورتحال یہاں انتہائی ٹائیٹ ہے۔ اِسے رَیڈ زون کا علاقہ بھی قرار دیا گیا ہے‘ پھر کسی بد بخت کو یہ جرأت کیسے ہو گئی کہ وہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے معزز جج صاحب کے گھر پر حملہ آور ہو جائے!!

افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ اِدھر پاکستانی میڈیا جج صاحب کے گھر پر حملے کی رپورٹنگ کرتے ہُوئے ملزمان کو فوری گرفتار کرنے کے مطالبے کررہا تھا اور اُدھر پنجاب کے وزیر قانون حسبِ عادت طنز اور تعریض میں مگن تھے۔ انھوں نے اِس حوالے سے کوئی دعویٰ کیا بھی تو یہ کہا کہ ملزمان کے نہایت قریب پہنچ گئے ہیں لیکن آج ایک ہفتہ گزرجانے کے باوجود ملزم یا ملزمان کا کھُرا نہیں ناپا جا سکا۔

پنجاب کے چیف ایگزیکٹو بھی اپنے دعوؤں میں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکے ہیں۔ ہاں ایک ’’جے آئی ٹی‘‘ ضرور بنا دی گئی ہے۔ محض گونگلوؤں سے مٹّی جھاڑنے کے لیے؟ ماضی میں کتنی جے آئی ٹیز کامیاب ہُوئیں کہ اب ایک اور جے آئی ٹی بنا دی گئی ہے۔ افسوس اور حیرت کی بات یہ بھی ہے (اور اِسے سارے عوام بُری طرح محسوس کررہے ہیں) کہ سپریم کورٹ کے جج صاحب کے گھر پر حملے کے باوجود نواز شریف، ان کی صاحبزادی، ان کے قریبی ساتھیوں اور پارٹی رہنماؤں کی جانب سے عدلیہ پر سخت تنقید جاری رہی۔

اُسی روز قصور میں ایک نون لیگی رُکن قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی بیت المال کے سربراہ اوردیگر عہدیداروں کی قیادت میں عدلیہ اور جج صاحبان کے خلاف نام لے کر ایسے نازیبا اور غیر اخلاقی نعرے لگائے گئے جنہیںہم شرم کے مارے یہاں نقل بھی نہیں کر سکتے لیکن نون لیگ کے متذکرہ رکن اسمبلی کو شرم آئی نہ اس کے ساتھیوں کو۔عدالت نے بروقت اور فوری طور پر اس کا نوٹس تو ضرور لیا ہے لیکن نون لیگی اعلیٰ قیادت کی طرف سے اِس واقعہ کی کوئی مذمت کی گئی ہے نہ متعلقہ افراد کی سرزنش۔ اس کے کیا معنی اخذ کیے جائیں؟

کیا یہ کہ عدلیہ مخالف نعرہ زنوں کو اپنی قیادت کی اشیرواد حاصل تھی؟ یا یہ کہ نون کارکنوں نے بھی ججوں کے خلاف وہی بد تمیزی کا راستہ اختیار کیا ہے جو نون لیگی قیادت اختیار کیے ہُوئے ہے؟ اِسی پر بس نہیں، بلکہ نون لیگی خواتین نے بھی اسلام آباد میں جمگٹھا بنا کر عدلیہ مخالف زبان استعمال کی ہے۔

عدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس صاحب تک بھی خواتین کی اس بد زبانی کی بازگشت پہنچی ہے مگر انھوں نے صبر سے کام لیا ہے، حالانکہ وہ ان خواتین کو ان کی بد زبانی کی سخت سزا بھی دے سکتے تھے کہ قانون اور آئینِ پاکستان نے اُنھیں یہ اختیار بخش رکھا ہے۔ لیکن یہ تو بہرحال پھر واضح ہو گیا ہے کہ ان خواتین کو کس کا اشارہ حاصل تھا!ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب ہتھکنڈے اس لیے استعمال کیے جارہے ہیں تاکہ بڑے ملزمان متوقع فیصلوں پر اثر انداز ہو سکیں لیکن ایسا ہونے والا نہیں ہے۔ ججوں کے گھروں پر حملے، اُن پر سخت تنقید، اپنے حالیوں موالیوں کی زبان میں ان کے خلاف دشنام دینا اور دھمکانا دراصل ’’کولمبیا‘‘ کے مافیاز کے راستے پر چلنے کے مترادف ہے۔

جنوبی امریکہ کے اِس مشہور ملک ’’کولمبیا‘‘ میں ماضی قریب میں ایک دَور ایسا بھی آیا تھا جب وہاں کی کرپٹ بزنس کمیونٹی، ڈرگ لارڈز، ٹیکس چوروں اور منی لانڈرنگ کرنیوالوں کے خلاف مقامی عدلیہ نے اقدامات شروع کیے، ملزمان کے جرائم ثابت ہونے پر انھیں مجرمان قرار دیا گیا، انھیں عمر قید اور موت کی سزائیں سنائی گئیں اور اُن پر جیلوں کے دروازے وا کیے گئے تو یہ سب بدمعاش طبقہ ایکا کرکے جج صاحبان کے خلاف میدان میں اُتر آیا۔

پہلے توانھیں کروڑوں ڈالروں کی رشوت پیش کی گئی اور جب وہ اِس ڈھب پر نہ آئے تو ان کے گھروں پر مسلسل حملے کیے گئے۔ اُن کی اولادوں کو اغوا کرکے عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں کی گئیں۔ کئی جج قتل کر ڈالے گئے۔ کئی پُراسرار بم دھماکوں میں راستے سے ہٹا دئیے گئے۔ یہ خونی اور ہلاکت خیز سلسلہ کئی برس جاری رہا۔

’’کولمبیا‘‘ کی عدالتوں اور بدعنوانوں کے درمیان کئی سال یہ خونریز جنگ جاری رہی لیکن ملک کے اکثریتی جج صاحبان نے ظالموں، ملک دشمنوں اور عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والوںکے مقابلے میں سر نہ جھکایا۔ آخر ی فتح انصاف اور سچ کی ہُوئی۔ آج ’’کولمبیا‘‘ تقریباً کرپٹ عناصر، ڈرگ لارڈز، ٹیکس چوروں اور منی لانڈرنگ کرنیوالوں سے صاف ہو چکا ہے۔ نجات اور صفائی کی اس منزل تک پہنچنے کے لیے عوام، فوج اور عدلیہ نے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ دئیے رکھے اور یوں بدمعاشوں کو راستے سے ہٹا دیا گیا۔

کرپٹ عناصر میں سے کئی مارے گئے، کئی جیلوں میں ڈال دئیے گئے، کئی ملک سے ہمیشہ کے لیے فرار ہو گئے، کئی سزائے موت کے سزاوار ٹھہرائے گئے اور کئی توبہ کرکے گوشہ گم نامی میں بیٹھ گئے۔ مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بعض کرپٹ عناصر کو یہ غلط فہمی ہو گئی ہے کہ وہ ’’کولمبیا‘‘ کے بد عنوانوں کا راستہ اختیار کرکے پاکستان کی عظیم عدلیہ پر اثر انداز ہو سکیں گے۔ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔

ان کرپٹ، کالی بھیڑوں اور قوم کا پیسہ لُوٹنے والے گروہوں پر واضح ہوجانا چاہیے کہ پاکستان کے عوام بیدار ہیں اور وہ پاکستان کو کسی بھی حالت میں ’’کولمبیا‘‘ نہیں بننے دینگے۔ حوصلہ مندی کی بات یہ بھی ہے کہ ہمارے جج صاحبان قطعی خوفزدہ نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن صاحب کے دولت خانے پر حملے کے بعد جب چیف جسٹس صاحب کی معرفت انھیں یہ پیشکش کی گئی کہ جج صاحب کی سیکورٹی میں اضافہ کردیتے ہیں تو سپریم کورٹ کے بہادر چیف جج نے مزید سیکیورٹی لینے سے صاف انکار کر دیا۔

اِس حوالے سے جسٹس ثاقب نثار صاحب کے سامنے شائد معروف مغربی دانشور اسٹیفن جے فیلڈ کا یہ قول بھی ہوگا: ’’جب ججوں کو غیر معمولی سیکیورٹی کی ضرورت پڑ جائے تو عدالتیں بند کر دینا بہتر ہوگا۔‘‘خوشی اورمسرت کی بات یہ ہے کہ بے پناہ دباؤ اور نون لیگی قیادت کی طرف سے عدالتوں کے خلاف نامناسب زبان استعمال کیے جانے کے باوجود ہمارے جج صاحبان جرأتمندی سے انصاف کا ترازو تھامے ہُوئے ہیں اور کسی امتیاز کے بغیر فیصلے سنا رہے ہیں۔

فیصلوں میں اپنے پیٹی بھائیوں کو بھی کوئی رعائت، کوئی چھُوٹ نہیں دی جارہی ہے۔جیسا کہ سترہ اپریل کو اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے ایڈیشنل اینڈ سیشن جج راجہ خرم علی خان اور اُن کی اہلیہ ماہین ظفر کو ایک ایک ایک سال کی قیداور پچاس پچاس ہزار روپے کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان دونوں میاں بیوی کا جرم یہ تھا کہ اُنہوں نے اپنی دس سالہ گھریلو ملازمہ طیبہ پر تشدد کیا تھا۔

ایسے میں انصاف اور اصولوں کے عین مطابق عدلیہ کی طرف سے وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کا نام ’’پیمرا‘‘ کا نیا سربراہ منتخب کرنیوالی کمیٹی سے اگر خارج کردیا جاتا ہے تو حکومتی ایوانوں میں کھلبلی کیوں؟ لیکن شرمناک امر ہے کہ نون لیگی قیادت عدلیہ کو ہدفِ ملامت بنانے سے باز نہیں آرہی۔اُن کی کوشش ہے کہ ہر لمحہ عدالتِ عظمیٰ کے خلاف فضا تیار کی جاتی رہے۔

اس معاملے میں نون لیگی کارندے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں چھوڑ رہے۔جیسا کہ لاہور ہائیکورٹ کا ایک تازہ فیصلہ۔ معزز جج صاحبان نے دراصل یہ کہا تھا کہ ’’پیمرا‘‘ نواز شریف اور مریم نواز شریف کی اُن تقریروں کو آن ائر نہ ہونے دے جن میں عدلیہ مخالف عنصر پایا جاتا ہو مگر اس بات کا بتنگڑ بنا کر اور اس کا حلیہ بگاڑ کر یہ خبریں شائع اور نشر کر دی گئیں کہ عدالتِ عالیہ نے نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی کی تقریروں پر پابندی عائد کر دی ہے۔

اس(بے بنیاد) بات کا ظہور پذیر ہونا تھا کہ نون لیگیوں اور ان کے تنخواہ دار کارندوں نے عدلیہ کے خلاف آسمان سر پر اٹھا لیا اور بہانہ بنایا آئین کے آرٹیکل 19کو جو فرد کو اظہارِ آزادی عطا کرتا ہے۔ اِس معاملے پر اتنی گرد اڑائی گئی کہ جناب چیف جسٹس آف پاکستان کو وضاحت کے لیے احکامات جاری کرنے پڑے۔ جب میڈیا اتنی ’’ہوشیاری‘‘ دکھا رہا ہو اور اُ سکی’’پھرتیوں‘‘ کا یہ عالم ہو تو ایسے میں یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ انصاف فراہم کرنیوالے کسی سے بے انصافی کر سکیں؟ لیکن نواز شریف اور ان کے ہمنوا پھر بھی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوششوں میں ہیں کہ ’’کوئی‘‘ اُن سے بے انصافی کرنے پر تُلا بیٹھا ہے۔

یہ سنگین الزام عائد کرنے کے لیے باپ بیٹی نے ’’ووٹ کو تقدس دو‘‘ کے کھوکھلے نعرے کا بہانہ بنا رکھا ہے۔ نواز شریف اور ان کے مقتدر خاندان نے اگر پچھلے پنتیس سال کے دوران ووٹر کی عزت کی ہوتی تو آج انھیں ’’ووٹ کی تقدیس‘‘ کا ڈھونگ بھی نہ رچانا پڑتا۔ حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف اور ان کے مقتدر خاندان نے ووٹر کی حرمت بھی پامال کیے رکھی ہے اور اُن کی تقدیس بھی روند ڈالی ہے لیکن پھر بھی اصرار یہ ہے کہ ’’کوئی‘‘ ستّر سال سے ووٹ کی عزت کو تماشہ بنا رہا ہے۔

نون لیگی قیادت کی اِس ضمن میں جرأت اور ڈھٹائی اسقدر بڑھ چکی ہے کہ وہ اب اِسی موضوع پر ’’نیشنل سیمینارز‘‘ کروانے لگے ہیں اور اِن سیمیناروں میںمحمود خان اچکزئی اور حاصل بزنجو ایسے لوگوں کو دانستہ بٹھایا اور مہمانِ خصوصی بنایا جاتا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے نہ خود کبھی ووٹر کو عزت دی ہے، نہ قومی یکجہتی کا نعرہ بلند کیا ہے اور ان کی زبانیں پاکستان کی بجائے افغانستان کے لیے رطب اللسان رہتی ہیں۔

کیا محمود اچکزئی کا وہ چنگھاڑتا اور دل آزار بیان ہم بھول جائیں جب اُنہوں نے غیر مبہم الفاظ میں کہا تھا:’’فاٹا اور کے پی کے دراصل افغانستان کا حصہ ہیں۔‘‘ لیکن اس کا کیا کِیا جائے کہ نااہل وزیر اعظم نواز شریف کو اِسی طرح کے لوگ مرغوب اور محبوب ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے جھرمٹ میں بیٹھ کر نواز شریف نے ایک ادائے کجروی سے پاک بھارت سرحد کو ’’بس ایک لکیر‘‘ کہنے کی بھی جسارت کی تھی: ہائے، قافلے کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔