دورہ آئرلینڈ اور انگلینڈ قومی ٹیسٹ ٹیم کا کڑا امتحان

عباس رضا  اتوار 22 اپريل 2018
مشکل کنڈیشنز میں ناتجربہ کار کھلاڑیوں پر انحصار۔ فوٹو : فائل

مشکل کنڈیشنز میں ناتجربہ کار کھلاڑیوں پر انحصار۔ فوٹو : فائل

مصباح الحق اور یونس خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد چیمپئنز ٹرافی کی فتح کا سہرا سجانے والے سرفراز احمد کو ٹیسٹ کرکٹ میں قومی ٹیم کی قیادت کا تاج بھی پہنا دیا گیا۔

ناتجربہ کار کپتان اور کھلاڑیوں کا پہلا امتحان گزشتہ سال یواے ای میں سری لنکا کے خلاف سیریز میں ہوا، توقع کی جارہی تھی کہ پاکستان ٹیم اپنی پسندیدہ شکار گاہ میں کمزور حریف کو زیر کرنے میںکامیاب ہو جائے گی لیکن نتیجہ مایوس کن رہا،پہلے ٹیسٹ میں 136کا ہدف بھی پہاڑ بن گیا اور 21رنز سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا،دوسرے میں 317کا تعاقب کرتے ہوئے اسد شفیق کی سنچری کے باوجود گرین کیپس 248 پر ڈھیر ہوگئے۔

گزشتہ ناکام تجربات کی طویل فہرست مرتب کرنے کے بعد اس سیریز میں بھی پاکستان نے سمیع اسلم اور شان مسعود کی صورت میں نئی اوپننگ جوڑی آزمائی،پہلے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں سنچری شراکت کے بعد دونوں ٹیم کو اچھا آغاز فراہم کرنے میں ناکام رہے، اظہر علی، اسد شفیق اور حارث سہیل گرچہ 40سے زائد کی اوسط سے رنز بنانے والے 3بیٹسمین تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی مواقع ہونے کے باوجود ذمہ داری قبول کرتے ہوئے نتیجہ ٹیم کے حق میں کردینے والی اننگز نہیں کھیل پایا۔

سینئرز نے ایک آدھ اننگز کے سوا توقعات کا بوجھ نہیں اٹھایا تو بابراعظم اور ٹیل اینڈرز بھی حوصلہ ہارتے رہے، اپنی پسندیدہ کنڈیشنز میں رنگنا ہیراتھ اور دلروان پریرا کے سامنے ہتھیار ڈال دینے والی ٹیم کو انجریز سے بھی پریشانی ہوئی،حسن علی ایک میچ کھیل پائے،محمد عامر دوسرے کے لیے بھی میدان میں اترے لیکن ایک وکٹ حاصل کرتے ہی ہمت جواب دے گئی، یاسرشاہ16اور محمد عباس 8وکٹوں کے ساتھ نمایاں رہے۔

ناکام تجربات کی وجہ سے سیریز اور اعتماد گنوا دینے والی پاکستان ٹیم کو اب آئرلینڈ اور انگلینڈ کی مشکل کنڈیشنز میں ٹیسٹ میچز کا چیلنج درپیش ہے، سکواڈ میں کئی نئے چہروں کی شمولیت مسلسل خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے،منتخب پلیئرز میں 4اوپنرز اظہر علی، سمیع اسلم، امام الحق اور فخرزمان شامل ہیں، تجربہ کار اسد شفیق کو بیٹنگ کا بوجھ بانٹنا ہے، حارث سہیل کی ثابت قدمی کا بھی امتحان ہوگا۔

ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے میں کامیاب بابر اعظم سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں ناکامیوں کا داغ دھونے اور اس فارمیٹ میں اپنی افادیت ثابت کرنے کی فکرمندی کے ساتھ میدان میں اتریں گے، امام الحق کی طرح سعد علی اور گزشتہ ٹور میں کوئی میچ کھیلے بغیر واپس آنے والے عثمان صلاح الدین کو بھی ٹیسٹ ڈیبیو کا انتظار ہے، فہیم اشرف کو طویل فارمیٹ میں بطور بولنگ آل اؤنڈر اپنی صلاحیتیں منوانے کا چیلنج درپیش ہے،حسن علی انگلینڈ میں چیمپئنز ٹرافی تو محمد عامر بھارت کے خلاف فائنل کے ہیرو تھے۔

دونوں انگلش کنڈیشز کا فائدہ اٹھانے کے لیے موزوں بولرز شمار کئے جاسکتے ہیں، سمر سیٹ کی جانب سے کاؤنٹی کرکٹ کھیلنے والے محمد عباس کا تازہ تجربہ ٹیم کے کام آسکتا ہے، راحت علی طویل عرصہ بعد قومی سکواڈ میں واپس آئے اور اچھے ردھم میں ہیں۔

2016ء کے دورۂ انگلینڈ میں سپن کا جادو جگانے والے یاسر شاہ کی انجری پاکستان کے لیے بہتر بڑا دھچکا ہے، ویسٹ انڈیز کے خلاف واحد ٹیسٹ میں ملک کی نمائندگی کرنے والے شاداب خان واحد سپیشلسٹ سپنر کے طور پر سکواڈ میں شامل کئے گئے ہیں، ضرورت پڑنے پر کپتان سرفراز احمد کو حارث سہیل، اظہرعلی اور اسد شفیق جیسے پارٹ ٹائم سپنرز کے ساتھ کام چلانا ہوگا۔

آئرلینڈ کی ٹیم ٹیسٹ سٹیٹس پانے کے بعد اپنی تاریخ کا پہلا میچ پاکستان کے خلاف کھیل رہی ہے۔ گزشتہ ٹور میں گرین شرٹس میزبان ملک کی سخت سردی میں کھیلے جانے والے ون ڈے میچز میں بیٹنگ مسائل کا شکار رہے تھے،اس بار ہوا میں خنکی اور بھی زیادہ ہوگی، ہلکی پھلکی بارش بھی ہوگئی تو میڈیم پیسرز کو بھی آسانی سے کھیلنا دشوار ہوجائے گا،قبل ازوقت انگلینڈ پہنچ کر وارم اپ میچز کا موقع ملنے کی وجہ سے بولرز تو شاید کنڈیشنز کا فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوجائیں لیکن بیٹنگ لائن کے لیے خصوصی پلاننگ کی ضرورت ہوگی۔

انگلینڈ میں پاکستان نے گزشتہ سیریز 2-2سے برابر کرتے ہوئے اپنی تاریخ میں پہلی بار عالمی رینکنگ میں ٹاپ پر جگہ بنائی اور کپتان مصباح الحق نے قذافی سٹیڈیم لاہور میں آئی سی سی چیف ڈیو رچرڈسن سے گرز بھی وصول کیا،تاہم اس بارسرفراز احمد وسائل اور تجربے کی کمی محسوس کریں گے، گزشتہ سیریز میں لیگ سپن پر انگلش ٹیم کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھانے والے یاسر شاہ سکواڈ کے ہمراہ نہیں ہیں۔

بیٹنگ میںاہم ستون کا کردار ادا کرنے والے یونس خان اور مصباح الحق بھی نہیں، اظہر علی اور اسد شفیق کوان کی جگہ لیتے ہوئے جونیئرز کی بھی رہنمائی کرنا تھی لیکن سری لنکا کے خلاف سیریز میں انہوں نے ایک آدھ اننگز کے سوامایوس کرتے ہوئے ٹیم کی کشتی بیچ منجھدار چھوڑ دی، ٹیسٹ کرکٹ میں قطعی مختلف بیٹسمین نظر آنے والے بابر اعظم سری لنکا کے خلاف دونوں ٹیسٹ میچز میں مجموعی طور پر صرف 39رنز بناسکے تھے، اگر آئرلینڈ اور انگلینڈ کے خلاف بھی ٹیم پر بوجھ ثابت ہوئے تو سرفراز احمد کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔

حارث سہیل میں اچھا ٹمپرامنٹ نظر آرہا ہے لیکن انہیں ایک بار سیٹ ہونے کے بعد سنچری، ڈیڑھ سواور ڈبل سنچری تک جانے کی سوچ لئے میدان میں اترنا ہوگا،اظہر علی کے ساتھ سمیع اسلم کو اوپنر بھیجنے کا اشارہ ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے دیا تھا،فخرزمان کو مڈل آرڈر میں کھلانے کا تجربہ بھی زیرغور ہے،یہ فیصلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا کیونکہ ماضی میں انگلش کنڈیشنز میں بیشتر پاکستانی اوپنرز کی کارکردگی قابل رشک نہیں رہی۔

ٹیسٹ کرکٹ میں اگر ٹاپ اور مڈل آرڈر میں سے کم از کم ایک ایک بیٹسمین بھی بڑی اننگز کھیلنے میں کامیاب رہے تو دیگر بیٹسمینوں کے ساتھ چھوٹی بڑی شراکتوں سے معقول مجموعہ سکور بورڈ پر سجایا جا سکتا ہے، پاکستان ٹیم مینجمنٹ نے ٹاپ آرڈر کی ناکامی کا خدشہ پیش نظر رکھتے ہوئے مڈل آرڈر کے ساتھ ٹیل اینڈرز کو بھی تربیتی کیمپ کے دوران خوب نیٹ پریکٹس کروائی ہے۔

بولرز کو بھی مزاحمت کے لیے تیار کرنا اچھی بات ہے لیکن میچز میں فتوحات کے لیے نہایت ضروری ہوگا کہ اظہر علی اور اسد شفیق ماضی کے تجربے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے نہ صرف خود کریز پر استقامت کا مظاہرہ کریں بلکہ جونیئرز کو بھی انگلش بولرز کے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے تیار کریں، کپتان سرفراز احمد کی کیپنگ کے علاوہ ایک سینئر بیٹسمین کے طور پر کارکردگی بھی ٹیم کا حوصلہ جوان رکھنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔

انگلینڈ کے گزشتہ ٹورز میں پاکستان کی فیلڈنگ کے بھی مسائل سامنے آئے ہیں، خاص طور پر سلپ میں کیچز ڈراپ ہوتے رہے ہیں، سپاٹ فکسنگ کیس میں5سال کی پابندی ختم ہونے کے بعد پہلی ٹیسٹ سیریز میں ہی محمدعامر کی گیندوں پر کیچ ڈراپ ہوئے،دیگر پیسرز بھی فیلڈرز کی غفلت کے متاثرین میں شامل تھے۔

چیف سلیکٹر انضمام الحق نے ناتجربہ کار سکواڈ منتخب کرنے کاایک جواز یہ پیش کیا ہے کہ ورلڈکپ 2019کی تیاری کے لیے نوجوان کرکٹرز کو انگلش کنڈیشنز میں کھیلنے کا موقع دینا چاہتے ہیں،دنیا کی کوئی ٹیم بھی ون ڈے کرکٹ کی تیاری کے لیے طویل فارمیٹ کے سپیشلسٹ کرکٹرز کا انتخاب نہیں کرتی،کئی ملکوں کے تو کپتان بھی الگ الگ ہیں،اسی طرٖح ون ڈے سکواڈ کے لیے موزوں ہر کھلاڑی ٹیسٹ کرکٹ بھی نہیں کھیل سکتا،ماضی میں پاکستان نے یونس خان کو کئی بارون ڈے میںکم بیک کروایا لیکن یہ تجربہ ناکام رہا۔

بابر اعظم باصلاحیت ہونے کے باوجود محدود اوورز کی کرکٹ میں کارکردگی کا گراف ٹیسٹ میچز میں برقرار نہیں رکھ پائے،اس لئے چیف سلیکٹر کی یہ منطق کسی کو ہضم نہیں ہورہی،اگر ورلڈکپ کے لیے قومی کرکٹرز کو انگلینڈ کی کنڈیشنز کا تجربہ دلانا بھی مقصود ہے تو اس کے لیے کھلاڑیوں کو دیگر ملکوں کی لیگز کے بجائے کاؤنٹی کرکٹ میں محدود اوورز کے میچز کھیلنے کے لیے بھجوایا جائے تو مناسب ہوگا،آئرلینڈ اور انگلینڈ میں ٹیسٹ میچز کے دوران خلاف مزاج دفاعی کرکٹ کھیلنے والوں کا نیچرل کھیل خراب ہونے کا خدشہ رد نہیں کیا جاسکتا۔

بہرحال حالیہ ٹور کے وارم اپ میچز پاکستان ٹیم کی مینجمنٹ اور کھلاڑیوں کے لیے اپنی صلاحیتیں جانچنے اور صفیں درست کرنے کا اچھا موقع ہیں، ناتجربہ کار ہتھیاروں کی موجودگی میں ٹور سلیکشن کمیٹی کو ٹیم کمبی نیشن کے حوالے سے بھی کئی فیصلے کرنا ہیں، ان میں سب سے اہم اوپننگ جوڑی اور پلیئنگ الیون میں شامل ہوئے تو فخرزمان کے بیٹنگ نمبر کا ہے، کپتان سرفراز احمد نے تو کسی سپیشلسٹ سپنر کے بغیر بھی میدان میں اترنے کا اشارہ دیا ہے لیکن ماضی میں یاسر شاہ کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے شاداب خان کو ڈراپ کرنا بہتر فیصلہ نہیں ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔