بونس شیئرز کے اجرا پر ٹیکس چھوٹ کی سفارش

ارشاد انصاری  اتوار 22 اپريل 2018
2014 میں بھی استثنیٰ دیاتھا،ایس ای سی پی کی تجویزایف بی آرکے زیرغورہے،دستاویز۔ فوٹو : فائل

2014 میں بھی استثنیٰ دیاتھا،ایس ای سی پی کی تجویزایف بی آرکے زیرغورہے،دستاویز۔ فوٹو : فائل

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اسٹاک مارکیٹ کے ذریعے ٹریڈنگ کو فروغ دینے کے لیے بونس شیئرز کے اجرا پر ٹیکس کی چھوٹ دینے کی تجویز کا جائزہ لینا شروع کر دیا ہے۔

’’ایکسپریس‘‘ کو دستیاب دستاویز کے مطابق یہ تجویز سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ایف بی آر کو بھجوائی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسٹاک مارکیٹ کے ذریعے تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے سال 2018-19 کے وفاقی بجٹ میں انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی سیکشن 236 ایم اور سیکشن 236 این کو ختم کردیا جائے اور بونس شیئرز کے اجرا کو ٹیکس سے چھوٹ دے دی جائے۔

دستاویز میں بتایا گیاکہ اس سے قبل 2014 میں بھی بونس شیئرز کے اجرا پر ٹیکس سے چھوٹ دی گئی تھی جس سے اسٹاک مارکیٹ میں کاروباری سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوا تھا۔

دستاویز میں تجویز دی گئی ہے کہ آئندہ بجٹ میں بھی بونس شیئرکو ٹیکس سے چھوٹ دی جائے، اس سے ایف بی آر کے ریونیو میں کمی کے بجائے اضافہ ہوگاکیونکہ ٹیکس سے چھوٹ دینے کی وجہ سے بونس شیئرز کے اجرا میں اضافہ ہوگا جس سے اسٹاک مارکیٹ کا تجارتی حجم بڑھے گا اور فری فلوٹ کے باعث اضافی ریونیو جنریٹ ہوگا کیونکہ اس ایک اقدام کے نتیجے میں پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں بروکرز کی سرگرمیاں زور پکڑیں گی اور بروکرزکی سرگرمیوں کے بڑھنے سے بروکرز پر عائد کردہ ٹیکس کی مد میں ریونیو بڑھے گا۔

اسی طرح شیئرہولڈرز کی جانب سے خریدی جانے والی سیکیورٹیزکی فروخت سے کیپٹل گین ٹیکس کے ساتھ کیپٹل ویلیو ٹیکس کی مد میں بھی اضافی ریونیو حاصل ہوسکے گا کیونکہ بونس شیئرز پر عائد کردہ ٹیکس وصولی کا نظام بہت پیچیدہ ہے جس کی وجہ سے بونس شیئرز پر ٹیکس کی رقم کے اجرا کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں اسٹاک مارکیٹ کی ٹریڈنگ سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔