کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان کی تیسری بدترین کارکردگی

میاں اصغر سلیمی  اتوار 22 اپريل 2018
ریسلرز اور ویٹ لفٹرز نے قومی دستے کی لاج رکھ لی۔ فوٹو : فائل

ریسلرز اور ویٹ لفٹرز نے قومی دستے کی لاج رکھ لی۔ فوٹو : فائل

یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ عالمی سطح کے کھلاڑی اکثر یکساں جسمانی قوت کے مالک ہوتے ہیں، پھر ان میں ہار جیت کا سبب کیا ہوتا ہے، جو شخص جیتتا ہے وہ کیوں جیتتا ہے اور جو ہارتا ہے وہ کس بنیاد پر ہارتا ہے، یہ تھیوری امریکا کے سائنسدانوں کی ایک جماعت کاتحقیق کا موضوع رہی۔

نتیجہ کا حل ڈھونڈنے کیلئے ابتداء میں سائنسدانوں نے عالمی سطح کے بہترین کشتی لڑنے والوں پر تجربات دیکھے، انہوں نے ریسلرز کی عضلاتی طاقت اور ان کی نفسیات کا بھی بغور مشاہدہ کیا، انہوں نے پایا کہ عالمی مقابلوں میں جیتنے والے پہلوان اور ہارنے والے ریسلرز میں ایک خاص فرق ہوتا ہے مگر یہ فرق جسمانی نہیں بلکہ تمام تر نفسیاتی ہے، دراصل پہلوان کی ذہنی حالت اس کے ہار جیت کا فیصلہ کرتی ہے، ماہرین نے پایا کہ ہارنے والوں کے مقابلے میں جیتنے والا زیادہ بااصول ہوتا ہے۔ تجربہ میں بتایا گیا کہ ہارنے والا کھلاڑی مقابلہ سے پہلے ہی بددل اور پریشان تھے جبکہ جیتنے والے پر اعتماد اور مطمئن تھے۔

پاکستان کی سرزمین کو بڑی تعداد میں باصلاحیت کھلاڑی پیدا کرنے کا اعزاز رہا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ماضی میں مختلف کھیلوں سے وابستہ ملکی کھلاڑیوں نے بھاری بھرکم تنخواہیں لینے والے ملکی اور غیر ملکی کوچز کی بھر مار اوروسائل کی کمی کے باوجود ایسے کارنامے سرانجام دیئے جس سے پاکستانی عوام کا سر فخر سے بلند ہوتا رہا۔

1994ء میں پاکستان کرکٹ، سکواش، ہاکی اور سنوکر میں عالمی چیمپئن تھا تاہم اب پاکستان کو عالمی سطح پر ہونے والے ایونٹس میں اس تواتر کے ساتھ شکستوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ ملکی کھیلوں کی تباہی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی کھلاڑی اولمپکس میں گزشتہ 26 برسوں میں ایک بھی ٹائٹل اپنے نام نہیں کر سکے۔

حال ہی میں کامن ویلتھ گیمز آسٹریلیا میں اختتام پذیر ہوئی ہیں، دولت مشترکہ گیمز کا میلہ آسٹریلیا کے نام رہا، میزبان ملک نے 80 گولڈ سمیت مجموعی طور پر 198 میڈلز کے ساتھ پہلی پوزیشن حاصل کی، انگلینڈ 136 میڈلز کے ساتھ دوسرے اور بھارت 86 تمغوں کے ہمراہ تیسرے نمبروں پر رہا، پاکستانی پانچ میڈلز کے ساتھ چوبیسویں نمبر پر ہی جگہ بنا سکا حالانکہ میگا ایونٹ میں کتنے ہی ملکوں کے کھلاڑی ایسے تھے جنہوں نے بھوک، ننگ، افلاس کے باوجود میڈلز جیت کر اپنے ممالک کا نام روشن کیا۔

ان گیمز کے دوران نائیجیریا 24 میڈلز کے ساتھ نویں، جمیکا 27 میڈلز کے ہمراہ 11ویں، کینیا 17کے ساتھ 14ویں، یوگنڈ15ویں، ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوباگو 18ویں، نمیبیا 19ویں، پاپوا نیوگنی 22ویں اور فجی 23ویں نمبر پر رہا۔ اگر اب تک ہونے والی کامن ویلتھ گیمز میں شریک ٹیموں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو آسٹریلیا مجموعی طور پر2415 میڈلز کے ساتھ ٹاپ پر ہے، انگلینڈ 2144 کے ساتھ دوسرے اور کینیڈا 1515 میڈلز کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔

بھارت 504 میڈلز کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے، لیکن افسوس صد افسوس پاکستان کی اولمپکس کی طرح ان گیمز میں بھی بہتری آنے کی بجائے مزید تنزلی کا سفر جاری ہے، گولڈ کوسٹ کامن ویلتھ گیمز میں یہ پاکستان کی کی تیسری بد ترین کارکردگی ہے۔ اس سے قبل 1990ء کی آکلینڈ گیمز کے دوران پاکستانی ٹیم ایک بھی میڈلز نہ جیت سکی جبکہ 1998کی وکٹوریہ گیمز میں بھی پاکستان دستہ صرف ایک چاندی کے میڈل کے ساتھ 28ویں نمبر پر رہا۔

پاکستان نے پہلی بار 1954 کی وینکوور کامن ویلتھ گیمز میں شرکت کی اور 6 میڈلز جیت کر12ویں پوزیشن حاصل کی، صرف چار برس کے بعد 1958کی کارڈف گیمز میں پاکستان نے مزید ترقی کرتے ہوئے 10میڈلز کے ساتھ ساتویں پوزیشن حاصل کی، 1962 کی پرتھ دولت مشترکہ گیمز میں پاکستان نے8گولڈ اور ایک سلور میڈل جیت کر کامن ویلتھ گیمز میں شریک ممالک میں سے مجموعی طور پر چوتھی پوزیشن حاصل کی۔

گزشتہ برس کی گیمز میں پاکستان نے 23ویں پوزیشن حاصل کی تھی۔ کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان اب تک صرف75میڈلز ہی جیت سکا ہے، ان میں 25گولڈ، 24 سلور اور 26 برونز میڈلز شامل ہیں۔ریسلنگ میں پاکستانی کھلاڑیوں نے سب سے زیادہ 42 میڈلز جیتے ہیں، ان میں21 گولڈ، 11 سلور اور10 برونز میڈلز شامل ہیں۔

ویٹ لیفٹنگ میں پاکستان نے مجموعی طور پر 8میڈلز جیتے ہیں، اس طرح مجموعی طور پر ان گیمز کا جائزہ لیا جائے تو دونوں گیمز نے مل کر50 میڈلز دلوائے ہیں جبکہ باقی گیمز نے مل کر پاکستان کی جھولی میں صرف25 میڈلز ہی جتوائے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ریسلنگ اور ویٹ لفٹنگ نے ہی عالمی سطح پر پاکستان کو میڈلز جتوانے ہیں تو پاکستان سپورٹس بورڈ، پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن سمیت دوسرے حکومتی ادارے ہاکی سمیت دوسرے گیمز پر ہی اتنا مہربان کیوں ہیں۔

ریسلنگ اور ویٹ لیفٹنگ سے وابستہ کھلاڑیوں کو آخر کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے، کامن ویلتھ گیمز میں واحد گول میڈل جیتنے والے انعام بٹ نے میگا ایونٹ سے قبل 10 لاکھ روپے کی درخواست کی تھی تو حکومت کی طرف سے اس کی یہ اپیل ردی کی ٹوکری کی نذر کیوں کر دی گئی، جمعہ کوپاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کو لاہور میں شیڈول ایک تقریب میں بلا کر کامن ویلتھ گیمز میں میڈلز جیتنے والے 5کھلاڑیوں میں7 لاکھ روپے کی انعامی رقم تقسیم کی گئی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کھلاڑی صرف سات لاکھ روپے کی انعامی رقم کے حقدار تھے، پاکستان کرکٹ ٹیم غلطی سے کوئی انٹرنیشنل ایونٹس جیت جائے تو پہلے سے دولت کے انبار میں کھیلنے والے کرکٹرز کو ایوان وزیر اعظم بلا کر ایک، ایک کروڑ روپے انعام دیا جاتا ہے، مخیر حضرات کی طرف سے قیمتی پلاٹس اور مرسیڈیز گاڑیاں الگ سے ملتی ہیں، اب حکومت اور صاحب حیثیت شخصیات خاموش کیوں ہیں، محمد انعام ، محمد بلال، طیب رضا، طلحہ طالب اور نوح دستگیر کو مدعو کر کے انہیں انعام وکرام سے کیوں نہیں نوازا جا رہا ، انہیں سونے کے تاج کیوں نہیں پہنائے جا رہے۔

جب وطن عزیز کے تمام سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں کرپشن، لوٹ مار، اقراء پروری کا دور دورہ ہو اور بیوروکریسی ملکی خزانے کو ذاتی خزانہ سمجھ کر دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہے تو ایسے میں ہمارے کھیلوں کی تنظیموں کے عہدیدار کسی سے پیچھے کیوں رہیں، آخر وہ بھی تو نہ جانے کیا کیا پاپڑ بیل کر ملکی سپورٹس کی باگ دوڑ سنبھالتے ہیں، اب اگر انہوں نے بین الاقوامی ایونٹس کو جواز بنا کر دنیا بھر کے سیر سپاٹے نہیں کرنے، کھیلوں کے نام پر ٹی اے ڈی اے وصول نہیں کرنا تو ان پرکشش سیٹوں پر براجمان رہنے کاان کا آخرکیا جواز رہ جاتا ہے۔

کہتے ہیں کہ جب نیت میں ہی کھوٹ ہو تو نتائج بھی اسی کے مطابق ملتے ہیں، جامع حکمت عملی اور بھر پور تیاریوں کے بغیر گولڈ کوسٹ جانے والے پاکستانی کھلاڑیوں میں سے پانچ پلیئرز کا میڈلز حاصل کرنا جانا بھی کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔