پیپلز پارٹی زیادہ خسارے میں یا نون لیگ؟

تنویر قیصر شاہد  پير 23 اپريل 2018
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

پچھلے سال جون کے پہلے ہفتے جب وسطی پنجاب کے معروف سیاستدان اور پیپلز پارٹی کے سابق وفاقی وزیر نذر محمد گوندل نے نتھیا گلی جا کر کپتان کے ہاتھ پر سیاسی بیعت کی تو گویا پنجاب میں پیپلز پارٹی کی کمر ہی ٹوٹ گئی تھی۔

اِس ’’سانحہ‘‘ سے ڈیڑھ ہفتہ پہلے پیپلز پارٹی ہی کی سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان بھی زرداری اور بلاول کو داغِ مفارقت دے کر پی ٹی آئی میں چلی گئی تھیں۔ ایک گوندل گیا تو پھر دوسرا گوندل(ذوالفقار گوندل) بھی پی ٹی آئی میں چلا گیا۔ کہا جارہا تھا کہ نذر محمد گوندل جب سے ’’پاکستان تحریکِ انصاف‘‘میں شامل ہُوئے ہیں، وہ مسلسل اپنے مشہورو معروف اور مقتدر سیاسی بھانجوں پر بھی ’’کام‘‘ کررہے ہیں۔

سرگودھا اور منڈی بہاؤالدین سے اُن کے یہ دونوں بھانجے بھی، انھی کی طرح، پیپلز پارٹی کے ٹکٹ اور پلیٹ فارم سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے رکن منتخب ہوتے رہے ہیں۔ توقع تھی کہ نذر گوندل کے ’’کام‘‘ کا جَلد ہی کوئی نتیجہ نکلے گا۔ اور پھر ہوا بھی ایسا ہی۔ گوندل صاحب کی پی ٹی آئی میں شمولیت کے ٹھیک پانچ ماہ بعد اُن کے چھوٹے بھانجے وسیم افضل چَن، جو پیپلز پارٹی کے رکن پنجاب صوبائی اسمبلی رہے ہیں، بھی مشرف بہ پی ٹی آئی ہو گئے۔

کپتان نے زرداری کی پارٹی کو ایک کامیاب گھونسہ مارا تھا لیکن ’’ضرب‘‘ کھا کر بھی وہ خاموش ہی رہے۔ پیپلز پارٹی سے برسوں کی محبت ترک کرکے، پچھلے سال اکتوبر میں، وسیم چَن پی ٹی آئی میں داخل ہوئے تو کہا جانے لگا کہ اُن کے بڑے بھائی صاحب بھی پیپلز پارٹی سے نکلنے کی تیاریوں میں ہیں۔

پہلا ’’قطرہ‘‘ یوں گرا کہ ندیم افضل چَن نے یہ کہہ کر پارٹی کا عہدہ چھوڑ دیا کہ ’’اصولوں کا تقاضا ہے کہ جب میرا چھوٹا بھائی ایک مخالف پارٹی میں چلا گیا ہے تو مجھے پنجاب میں پیپلز پارٹی کا سیکریٹری جنرل رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘ اِس شاندار ’’اصولی‘‘ اعلان پر اُن کے ماموں، نذر گوندل، زور سے مسکرائے ہوں گے کہ اُن کا ’’کام‘‘ نتیجہ خیز ثابت ہورہا تھا۔ بڑے بھانجے پر بھی اُن کا ’’کام‘‘ جاری تھا۔

کھسر پھسر ہورہی تھی کہ ندیم افضل چَن بھی نیا چَن چڑھانے والے ہیں لیکن ندیم صاحب اپنی پُراسرا ر مسکراہٹ سے طرح دیتے رہے۔ وہ میڈیا اور ٹی وی ٹاک شوز میں پیپلز پارٹی، شہید بھٹو، بی بی صاحبہ، زرداری اور بلاول کے نام کی مالا تو بلند آہنگ سے جپتے تھے لیکن اُن کے لہجے میں جان رہی تھی نہ کمٹمنٹ نظر آتی تھی۔ لگتا تھا کہ پنچھی بس اُڑنے ہی والا ہے۔یہ لمحہ19اپریل2018ء کو آہی گیا جب ندیم چَن نے بنی گالہ میں کپتان سے ملاقات کی۔

عمران خان، شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، عامر کیانی وغیرہ نے اونچے قہقہوں اور لمبی مسکراہٹوں سے اُن کا استقبال کیا۔پرانی محبتیں پیچھے رہ گئی ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ابھی تک ندیم افضل چن کی زبان سے پیپلز پارٹی کے بارے میں ویسے الفاظ جاری نہیں ہُوئے ہیں جو الفاظ اُن کے ماموں جان نے پارٹی چھوڑتے وقت ادا کیے تھے۔

ندیم افضل چَن کی طرف سے پیپلز پارٹی کو وچھوڑے کا صدمہ دینے پرآصف زرداری صبر کے ساتھ خاموش ہیں مگر صاحبزادہ بلاول بہت غصے میں ہیں۔کیٹی بندر پر اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہُوئے کہا: ’’وہ (ندیم چَن) خود کو نظریاتی تو ظاہر کرتے تھے لیکن تھے نہیں۔‘‘بلاول میاں اِس ضمن میں خاموش رہتے تو بہتر تھا کہ نظریہ اب معدوم ہو چکا ہے اور سیاسی و معاشی مفادات غالب آ چکے ہیں۔

نواز شریف بھی اب اپنے ’’نظریاتی‘‘ ہونے کا اعلان تو کرتے ہیں لیکن کیا کوئی یقین بھی کرتا ہے؟ کبوتروں کی طرح سیاستدانوں کی پروازیں اور اُڑانیں جاری ہیں۔ ایک چھت سے دوسری چھت پر۔ہمیشہ ایسا ہوتا رہا ہے۔ ہمیشہ ایسا ہوتا رہے گا۔بلاول میاں کیوں دل چھوٹا کررہے ہیں؟ انھیں دل بڑا کرکے ابھی تو مزید بے وفائیوں اور سیاسی تَرکتازیوں کاا نتظار کرنا چاہیے۔ پیپلز پارٹی میں جو انتشار اور افتراق ہمیں پنجاب میں نظر آتا ہے، کچھ ویسا ہی منظر خیبر پختونخوا میں بھی نظر آرہا ہے۔

لگتا ہے کے پی کے میں بھی  پیپلز پارٹی زرداری اور بلاول کے قابو میں نہیں آرہی۔ وہاں صوبائی صدر ہمایوں خان اور صوبائی سیکریٹری جنرل فیصل کریم کنڈی ایک دوسرے کے قریب بیٹھنے اور ایک دوسرے کو احترام دینے پر تیار نہیں ہیں۔ سابق وفاقی وزیر لال محمد خان الگ پیپلز پارٹی کا اپنا دھڑا بنائے بیٹھے ہیں۔ عاصمہ عالمگیر ارباب کچھ کرنے کی خواہشمند تو ہیں لیکن انھیں پہلے ’’نیب‘‘ سے کلیئرنس حاصل کرنا ہوگی کہ کئی انکوائریوں کی زَد میں ہیں۔

پچھلے دنوں کے پی کے سے پیپلز پارٹی کے سابق وفاقی وزیر، سلیم سیف اللہ، کو وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے قرب میں بیٹھ کر پی ٹی آئی کی صفتیں بیان کرتے سُنا تو کوئی خاص حیرت نہیں ہُوئی۔ بس یہ ضرور یاد آیا کہ اُن کی والدہ محترمہ کلثوم سیف اللہ مرحومہ کبھی نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کے گیت گایا کرتی تھیں۔ پھر وہ نواز شریف کی معتمد بھی رہیں۔ اُن کی خود نوشت سوانح حیات ’’میری تنہا پرواز‘‘ میں پیپلز پارٹی سے محبت کی جو داستانیں رقم ہیں، وہ الگ اور اب سیف اللہ برادران کی پیپلز پارٹی سے دُوریاں ایک الگ داستان ہے۔

لکی مروت کے سیف اللہ خاندان کا کل تک جنرل ضیاء، پھر بینظیر بھٹو، پھر نواز شریف، پھر چوہدری شجاعت حسین کے ساتھ بیٹھنا اُٹھنا فائدہ مند تھا اور اب کپتان و پرویز خٹک کاساتھ دینا زیادہ مفید ہے۔

عوامی مفادات میں نہیں، ذاتی مفادات کے حصول میں سیاسی اُڑانیں جاری رہی ہیں۔ اب بھی جاری ہیں۔ پی ٹی آئی کے بھی کئی لوگ نون اور پی پی پی میں چلے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر نوشہرہ سے سراج محمد خان اور سوات سے میاں عمر گل فاروق نون لیگ میں شامل ہو چکے ہیں۔ دونوں ’’انصافی‘‘ تھے اور رکن قومی اسمبلی بھی لیکن لگتا یہی ہے کہ نون لیگ زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔

کئی پرندے اُڑ چکے ہیںاور کئی اُڑانیں بھرنے کو تیار ہیں۔پہلے جنوبی پنجاب سے نصف درجن کے قریب نون لیگی ارکانِ اسمبلی نے نواز شریف کا ساتھ چھوڑا ، اور پھر سندھ سے دو اقلیتی نون لیگی ارکانِ اسمبلی نے ’’بیوفائی‘‘ کا مظاہرہ کیا۔ ایک نے پی ٹی آئی میں پناہ لی ہے اور دوسرے نے پیپلز پارٹی میں۔ جنوبی پنجاب کے ’’ڈیفیکٹرز‘‘ نے بہانہ بنایا کہ نواز شریف نے اُن سے کیے گئے وعدے دانستہ نہیں نبھائے اور نہ ہی جنوبی پنجاب میں نیا صوبہ بنانے کا عہد پورا کیا۔بہانہ بنایا بھی تو کیا بنایا۔

امکانات یہی ہیں کہ ’’جنوبی پنجاب محاذ‘‘ والے بھی آخر کار پی ٹی آئی کی چھت پر آ بیٹھیں گے۔ سندھ سے نون لیگ کے دونوں اقلیتی ارکان ِ اسمبلی کا نواز شریف کے ’’سائے‘‘ سے نکل جانا بھی کسی کو حیرت انگیز نہیں لگا۔ سب کچھ ’’ فطری سا‘‘ ہے۔ اسلام کوٹ(ضلع تھرپارکر)سے تعلق رکھنے والے ہندو رکنِ قومی اسمبلی، ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی،نے نون لیگ سے تعلق توڑتے ہُوئے نواز شریف کے بارے جو شکوے کیے ہیں۔

ڈاکٹر سینتال داس کے اِن صاحبزادے، ڈاکٹر رمیش، نے نون لیگ پر بد عہدی کی جو تہمت لگائی ہے، سُن کر دل کھٹا سا ہو گیا ہے۔ اُن کے برعکس نون لیگ ہی کے اقلیتی رکنِ قومی اسمبلی، بھون داس، بہتر ثابت ہُوئے ہیں جنھوں نے میاں محمد نواز شریف سے قطع تعلق تو کیا ہے لیکن خاموشی سے آصف علی زرداری کی جماعت میں شامل ہو گئے ہیں۔ دوستوں کو چھوڑتے وقت کم از کم محبت کا لحاظ تو باقی رہنا چاہیے۔

کئی نون لیگیوں کی پرواز سے شہباز شریف کی قیادت کو دھچکا لگا ہے کہ اُن کی صدارت ابھی نئی نئی ہے۔شاید اِسی لیے اُنہوں نے اپنے ساتھیوں کو ہدایات جاری کررکھی ہیں کہ جانے والوں کے بارے میں منفی بات نہ کی جائے۔ بلوچستان بھی اُڑان بھرنے والوں میں کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ معرضِ وجود میں لائی جانے والی نئی پارٹی’’بی اے پی‘‘(بلوچستان عوامی پارٹی)نئے برگ وبار لارہی ہے۔

اِس میں نون لیگ اور قاف لیگ کے کئی منحرفین شامل ہُوئے ہیں۔ حتیٰ کہ وزیر مملکت برائے پٹرولیم ، جام کمال،بھی مستعفی ہو کر ’’بی اے پی‘‘ میں شامل ہونے کے لیے بیقرار ہیں۔الیکشن قریب ہیں اور کس کس کی بیقراریوں کا ذکر کیا جائے!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔