پانی

راؤ منظر حیات  پير 23 اپريل 2018
raomanzar@hotmail.com

[email protected]

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پانی کی عدم دستیابی والی فہرست میں ساتویں نمبرپر ہے۔ یعنی 2025ء تک ہمارے ملک میں پانی کے حوالے سے قحط کی طرح کی صورتحال ہوگی۔یہ کوئی قیافہ یا غیرسنجیدہ بات  نہیں۔یہودوہنودکی سازش بھی نہیں۔

ملک میں پانی کے بے دریغ استعمال نے ہمیں ایک خوفناک صورتحال سے دوچارکردیاہے۔یہ معاملہ نیوکلیئریاکیمیائی جنگ سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ہماری آنے والی نسلوں کی بقاء اسی نکتہ پر منحصر ہے کہ پانی جیسی بنیادی ضرورت وافرتعداد میں موجود رہے۔

لکھاریوں اوردانشوروں کی اکثریت سیاسی صورتحال پرلکھتی ہے۔ لگتاہے کہ ہمارے ہاں،صرف اورصرف سیاست ہورہی ہے۔باقی کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں۔اگرہے بھی توحل ہوچکاہے۔ہاں،تاریخی تناظرمیں لوریاں سنانے والوں کی تعدادبھی بڑھ رہی ہے۔پاکستان کے اصل مسائل پرلکھنے کے لیے لکھاریوں کے پاس وقت ہی نہیں۔یاشایداہم ہی نہیں سمجھاجاتا۔تکلیف دہ اَمریہ ہے کہ رائے عامہ تشکیل دینے والوں کی اکثریت،لکھنے سے پہلے تحقیق کرناگناہ سمجھتی ہے۔

سیاست ایک چلتاہواموضوع ہے، اس پرلکھنا،تبصرہ کرنا بے حدآسان ہے۔شایداس میں پیسے کابھی عمل دخل ہو۔حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کے اصل مسائل پرتوجہ دلانے والے کم ہیں بلکہ بہت کم ہیں۔لوریاں سنانے والوں کاکام اس سے بھی زیادہ آسان ہے۔

عمومی رائے سے مختلف بات کرناویسے بھی مشکل اور غیرمقبول رویہ ہوتاہے۔مگرسوال یہ ہے کہ آخرسنجیدہ موضوعات پرکون بات کریگا۔پانی کی کمیابی،آبادی میں طوفانی بڑھاؤ، درختوں کاکم ہونااورشہروں کاخوفناک حدتک بڑے ہوجانا ہماری سلامتی کومشکل میں ڈالنے والے مسائل ہیں۔اگران پراب بھی قلم نہ اُٹھایاگیاتو ناانصافی ہوگی۔ہاں،ایک اور بات بھی اہم ہے۔اگرکوئی حکومتی ادارہ ان مسائل کوحل نہیں کررہااوراین جی اوزان حساس موضوعات پرتوجہ دلاتی ہیں، توہماراپہلاردِعمل شک پرمبنی ہے۔

ان تنظیموں پربھی ملک دشمنی اوربیرونی ایجنڈاکاالزام لگادیتے ہیں۔ ہوسکتا ہے، چند معاملات میں ان الزامات میں حقیقت بھی ہو۔سوچنے کی بات ہے کہ اگرکوئی غیرملکی ادارہ یاکوئی این جی او،آبادی، فضائی آلودگی اورپانی کی کمیابی پربات کرتی ہے تووہ ملک دشمن کیسے ہوگئی۔اصل میں تویہ ہمارے قومی مسائل ہیں۔ انکاادراک ہوناچاہیے۔مگرجب ملکی سطح پرمکمل سناٹاہو، تو کیا ان ملکی اوربیرونی  نجی اداروں کی مسائل کی نشاندہی غلط ہے۔معاملہ صرف اورصرف ذہن کوکھول کرسوچنے کاہے۔ مگر اب اس کی اُمیدبھی کم سے کمترہوتی جارہی ہے۔

پانی کی موجودگی اوراس کااستعمال ایک انتہائی اہم موضوع ہے۔ہمارے پاس دریاؤں،جھیلوں،ندی نالوں کا کل پانی153ایم اے ایف ہے۔زیرِزمین پانی صرف اور صرف24ایم اے ایف رہ گیاہے۔آٹھ سے دس سال بعد ہمارے پاس33ایم اے ایف پانی کی کمی ہوگی۔اس کمی کو دورکرنے کے لیے کیااقدامات کیے جارہے ہیں۔کسی کو پتہ نہیں۔انڈس بیسن واٹرٹرینی کے بعد ہمیں  جوامدادملی، ہم نے دوڈیم بنالیے گئے۔ اس کے بعد ایک سے ایک جید سیاستدان،فوجی حکمران آتارہا۔مگر نئے ڈیم بنانے کے لیے سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی۔کیایہ قیامت نہیں کہ کالاباغ ڈیم  پر بھی سیاسی اختلاف کوہوادی گئی۔

بازگشت یہاں تک آئی کہ چند سیاستدانوں نے کالاڈیم کی مخالفت کرنے کے لیے بیرونی قوتوں سے بھاری مالی وسائل لیے۔ان الزامات کی زدمیں آنے والے آج بھی جونک کی طرح ہمیں چمٹے ہوئے ہیں۔ کسی بھی صدر،وزیراعظم کواتنی جرات نہیں ہوئی کہ کم ازکم الزامات کی غیرجانبدارتحقیق ہی کروالے۔جب نوشہرہ شہر ڈوبنے والی تھیوری بھی غلط ثابت ہوگئی تویہ پروپیگنڈاہونے لگاکہ چھوٹے صوبوں کوپانی میں جائزحق نہیں ملے گا۔

اگر آپ چند سیاستدانوں کے بیانات کوماضی کے حوالے سے دیکھیں توایسے لگتاہے کہ نیاڈیم بناناگناہِ عظیم ہے۔اس کا سوچنابھی نہیں چاہیے۔ان لوگوں کی کوشش بہرحال کامیاب ہوگئی۔نتیجہ یہ کہ پاکستان ہرسال ستربلین ڈالرکی مالیت کاپانی سمندرمیں ڈال کرضائع کردیتاہے۔کیا وہ ملک جس کے مالیاتی ذخائر صرف بیس یا پچیس بلین ڈالرہوں، ایسی کوتاہی برداشت کرسکتاہے۔ ہم ستربلین ڈالرکانقصان برداشت کرنے کو تیارہیں۔مگرایک مستندقومی بیانیہ بنانے میں ناکام ہیں ۔

ملک میں اس وقت صرف تیس دن کے لیے پانی کومحفوظ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ کینیڈا، روس، امریکا،  برازیل اورمصرکی یہ صلاحیت پاکستان سے بہت زیادہ ہے۔ برازیل جیسے ملک نے تین سے چاردہائیوں میں اپنے آبی ذخائرکی صلاحیت کودوگناکرلیاہے۔نائیجیریا نے اس جہت میں غیرمعمولی ترقی کی ہے۔مگرپاکستان جسے ذخائر بڑھانے کی اَشدضرورت تھی،مکمل طورپرناکام رہا۔

یواین ڈی پی نے پانی کے حوالے سے جورپورٹ شایع کی ہے اس میں درج ہے کہ ہماری کوئی مربوط پالیسی نہیں ہے۔یعنی آبی پالیسی کے بغیرہم اس اہم معاملے کوحل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔کیایہ ممکن ہے۔ظاہرہے کہ ایک پالیسی کے بغیرہم اس حساس معاملے میں آگے بڑھنے سے قاصرہیں۔رپورٹ میں لکھاہواہے کہ دہشت   گردی بلاشبہ پاکستان کاایک مہیب مسئلہ ہے۔مگرپانی کی کمیابی جوہری اعتبارسے دہشت گردی کے برابرکامسئلہ ہے۔

ہاں،ایک اورنکتہ،بلکہ بہت ہی اہم نکتہ۔پانی کے بے دریغ استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں ہماراملک  چوتھے نمبرپرہے جب کہ جی ڈی پی کے حوالے سے پانی کے بے جااستعمال میں ہم لوگ پوری دنیا میں سرِفہرست ہیں۔آئی ایم ایف کے مطابق ایک شخص کوہمارے ملک میں آج تقریباًایک ہزار سترہ کیوبک میٹرپانی دستیاب ہے۔ 2009 میں فی کس 1500 کیوبک میٹرکے لگ بھگ تھا۔

وڈروولسن سینٹرسے منسلک مائیکل کیوگل مین نے ایک رپورٹ شایع کی ہے۔رپورٹ کے مطابق آبی ذخائرکی غیرموجودگی میں لوگ زمین کے اندرسے پانی حاصل کررہے ہیں۔یعنی انڈرگراؤنڈپانی کو باہرکھینچ کرکمی دورکررہے ہیں۔کیوگل مین کاتجزیہ ہے کہ یہ وتیرہ چندبرسوں میں زیرِزمین پانی کے ذخائرکوتقریباًختم کر دیگا۔اس کے بعدپانی کے مسلے پر ملک میں فسادات ہوسکتے ہیں۔

کراچی میںایسے آثار نظر آنے لگے ہیں۔واٹرٹینکرمافیا اس کا بھرپور فائدہ اُٹھارہا ہے۔شایدآپکے علم میں نہ ہوکہ حکومتی اہلکار سندھ میں واٹربورڈمیں تعیناتی کے لیے کروڑوں روپوں کی رشوت دیتے ہیں۔ ایسے ملازمین کے لیے کراچی سونے کے انڈے دینے والی مرغی ہے۔یوں اربوں روپے سالانہ کی کرپشن کی جاتی ہے۔

پانی ایک ایسی بنیادی ضرورت ہے جس کے لیے لوگ پیسہ خرچنے پر مجبورہوجاتے ہیں۔ظلم کی انتہادیکھیے کہ نئے آبی ذخائر بنانے میں ہررکاوٹ ڈالی جاتی ہے۔ پینے کے پانی میں مضرِصحت اجزاء کی توبات ہی نہیں کر رہا۔صاف پانی کی فراہمی توصرف ایک  خواب ہے۔

کوئٹہ میں شہرکے ساتھ موجود ہنہ اوراوڑک جھیلیں تقریباًخشک ہوچکی ہیں۔وہاں توAquaferکے نیچے سے پانی نکالاجارہاہے۔یعنی زمین کے اس حصے سے جہاں پانی دوبارہ پیدانھیں ہوسکتا یا پہنچتا نہیں ہے۔کوئٹہ کاپانچ سال بعدکیاحال ہوگا،اس پر بلوچستان سے بہت کم آوازیںسنائی دیتی ہیں۔بلوچستان میں سالہاسال سے قحط جیسی صورتحال بنتی جارہی ہے۔کم ازکم پشتون علاقے میں یہ قحط سالی 2000ء میں بھی محسوس کی جاسکتی تھی۔ہرجگہ  ایک جیسا حال ہے۔

کوئی وزیراعلیٰ یاوزیراعظم اس قومی مسئلہ پر جو  المیہ بن چکا ہے،کھل کربات کرنے کے لیے تیارنہیں۔پانی فروخت کرنے والی کمپنیاں صورتحال سے بھرپورمالی فائدہ اُٹھارہی ہیں۔ صاحب ثروت طبقہ صرف اورصرف بوتل والاپانی پیتا ہے۔ نل سے آنے والے پانی کوپینے کاسوچابھی نہیں جا سکتا۔ مگر غریب اکثریتی طبقہ کیاکرے۔وہ تومنرل واٹرکی بوتلیں نہیں خریدسکتا۔اس کی زندگی بذات خودایک المیہ ہے۔اس کی محرومیوں کا کیا ذکر کرنا، وہ توپیداہی گھٹ گھٹ کرمرنے کے لیے ہواہے۔

پاکستان میں ایک منظم قومی مہم کی ضرورت ہے جونئے ڈیم بنانے پرمصرہو۔جولوگوں کویہ بھی بتائے کہ روزمرہ کے استعمال کے لیے بھی کم سے کم پانی استعمال کریں۔جویہ بھی اصرارکرے کہ سرکاری یا غیر سرکاری پانی سے گاڑیاں دھونا جرم قرار دیا جائے۔ اگرہم آج بھی اس اہم ترین مسئلہ پر آوازنہ اُٹھا سکے، تو 2025ء تک پانی ختم ہوجائیگا۔

اس وقت ہماری آبادی چالیس کروڑکے قریب ہوگی۔کوگل مین کے بقول پانی پرفسادات،کسی بھی حکومت کومستحکم نہیں ہونے دینگے۔لوگ دہشت گردی جیسے مسئلہ کوبھی بھول جائینگے۔پانی کی عدم دستیابی سے جومسائل پیدا ہوسکتے ہیں،اس کا ادراک ہرگزہرگزنہیں کیاجارہا۔ شاید ہمیں قحط اور آبی فسادات کاانتظارہے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔