جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام سے محرومیوں کا خاتمہ ہوگا

سیاسی رہنماؤں کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ ملتان میں گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

سیاسی رہنماؤں کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ ملتان میں گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

جنوبی پنجاب میں الگ صوبوں کے قیام کے حوالے سے سامنے آنیوالی مختلف آوازوں اور مطالبات کا جائزہ لیں تو سرائیکی صوبہ‘ صوبہ ملتان‘ صوبہ بہاولپور اور صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کیلئے 1970ء سے ہی یہاں کے احساس محرومی اور مشکلات کو نمایاں کیا جا رہا ہے۔

اس خطے کے سیاستدانوں، ادباء‘ شعراء ، دانشوروں غرض کے ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے یہاں کی احساس محرومیوں اور مشکلات کو ہمیشہ اجاگر کیا۔ گزشتہ دنوں حکومتی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے جنوبی پنجاب کے چند رہنماؤں جو قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبر ہیں، نے اپنی جماعت سے علیحدگی اختیار کرکے، ’’جنوبی پنجاب محاذ‘‘ کے پلیٹ فارم سے مشترکہ جدوجہد کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد سے ملکی سیاسی ماحول میں کافی ہلچل نظر آرہی ہے۔ آئندہ انتخابات بھی قریب ہیں لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ ایسی صورتحال میں اس کے ملکی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس صورتحال کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ’’صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کے مطالبے‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم ملتان‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف سیاسی رہنماؤں کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

سید فخر امام (سابق سپیکر قومی اسمبلی )

1947ء سے 1969ء تک ہمارے تین صوبے پنجاب‘ سندھ اور این ڈبلیو ایف پی تھے۔ بہاولپور کے علاوہ 14 ریاستیں بھی تھیں جنہیں ضم کرکے 1955 ء میں ون یونٹ بنا دیا گیا۔ لیگل فریم ورک آرڈر 69 کے تحت 1969ء میں بلوچستان کو بھی صوبہ بنایا گیا مگر اس کے بعد سے تاحال کوئی نیا صوبہ نہیں بنایا جاسکا۔ میں ذاتی طور پر جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کا مکمل طور پر حامی ہوں۔ آئینی اور قانونی طور پر ہم ایک فیڈریشن ہیں۔ ہمارا تین سطحی حکومتی نظام ہے جن میں وفاقی، صوبائی اور بلدیات یا مقامی حکومتیںشامل ہیں۔ اب تک ہمارے 7نیشنل فنانس ایوارڈ آئے ہیں حالانکہ آئین یہ کہتا ہے کہ ہر پانچ سال بعد نیشنل فنانس ایوارڈ آنا چاہیے۔ اس حساب سے اب تک 14 فنانس ایوارڈ آنے چاہیے تھے مگر آخری فنانس ایوارڈ کو بھی 9,8 سال ہو چکے ہیں۔ 1947ء سے 71ء تک جب گریٹر پاکستان تھا تو حکمرانی کے تقاضے تھے کہ برابری کی سطح پر ملک کا نظام چلایا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا جس کے نتیجے میں ملک دولخت ہوگیا۔ مشرقی پاکستان میں احساس محرومی پایا جاتا تھا جسے دور نہیں کیا گیااور اس کے نتائج بحیثیت قوم ہمیں بھگتنا پڑے۔ آغاز میں امریکا کی 13 ریاستیں یا صوبے تھے مگر آج ان کی تعداد 50 ہے۔ اپنے نظام حکومت میں انہوں نے جو اصول وضع کیے ہیں وہ اس پر کاربند رہتے ہیں۔ امریکا‘ فرانس‘ اٹلی و دیگر ممالک صوبوں اور ریاستوں کی تقسیم کے حوالے سے باقاعدگی سے ریفرنڈم کراتے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں ریفرنڈم کی ضرورت تھی جو کبھی نہیں کرایا گیا۔ ہم نے دیگر موضوعات پر تو ریفرنڈم کرائے لیکن عوام کے حقوق کیلئے کوئی ریفرنڈم نہیں کرایا گیا۔دیکھنا یہ ہے کہ 1973ء کے آئین کے تحت نیا صوبہ کیسے معرض وجود میں آ سکتا ہے؟ اس کے لیے پہلے مرحلے میں جس صوبے میں نیا صوبہ بنانا ہے وہاں کی صوبائی اسمبلی میںدوتہائی اکثریت کی رضا مندی بعد ازاں قومی اسمبلی اور سینٹ میں بھی دوتہائی اکثریت کی ضرورت ہوگی۔ اس حوالے سے پنجاب اسمبلی میں قرارداد تو لائی گئی مگر بل نہیں پیش کیا گیا۔ قرارداد اور بل میں بہت فرق ہے جب تک کسی مطالبہ یا تحریک کو لیگل فریم ورک میں نہ لایا جائے اس کی اہمیت نہیں ہوتی۔ جب پاکستان بنا تو لاہور‘ راولپنڈی اور ملتان 3 ایڈمنسٹریٹو ڈویژن تھے۔ اب 5 مزید ایڈمنسٹریٹو ڈویژن بن چکے ہیں جن میں سرگودھا‘ ساہیوال‘ گوجرانوالہ‘ ڈیرہ غازیخان اور فیصل آباد شامل ہیں۔ اگر ہم ملتان ڈویژن کی 1947ء کی حیثیت کو اہمیت اور فوقیت دیں تو الگ صوبہ کی ضرورت اور بڑھ جاتی ہے۔ جب سیاستدان الگ صوبہ کا نعرہ لگاتے ہیں اور عوام اسے پذیرائی دیتے ہیں تو پھر زمینی حقائق سامنے آتے ہیں۔ نیا صوبہ ہو تو اس کا مکمل تجزیہ کرنا پڑتا ہے جس میں معیشت‘ جغرافیائی حیثیت‘ آمدن اور اخراجات کو سامنے رکھنا پڑتا ہے۔ زراعت کے حوالے سے ہر دور میں ملتان ڈویژن کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے لیکن یہ علاقہ نظر انداز ہوا ہے۔ کپاس کے بحران کا ملکی معیشت پر اتنا اثر پڑا ہے کہ اگلے کچھ عرصہ میں ملک چلانے اور قرضے اتارنے جیسے مسائل کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔ کوئی بھی صوبہ بنانا ہو تو بڑی سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے لازمی ہے جو جلوسوں میں نہیں بلکہ اسمبلی اور سینٹ کے فورم پر ہونا چاہیے۔ 20 سال میں ہم نے الگ صوبوں پر بحث ہی نہیں کی۔مختصر گفتگو ضرور ہوئی لیکن کوئی کمیشن نہیں بنایا گیا اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی ریسرچ کی گئی حالانکہ زیادہ صوبے بننے سے فیڈریشن مضبوط ہو گی، شہریوں کو تحفظ ملے گا ا ور انہیں سہولیات کی فراہمی آسان ہوگی۔ صوبہ خودمختار ہوتا ہے، اس کا اپنا ہائیکورٹ ہو گا‘ خود ہی اپنی آمدن بڑھانا ہو گی لہٰذا جب وہ اپنے فیصلے خود کریں گے تو مزاج بھی تبدیل ہو جائے گا۔آسٹریلیا اور کینیڈا دونوں فیڈریشن ہیں اوروہاں پارلیمانی نظام ہے۔ صوبوں کے درمیان بہت کھینچا تانی بھی ہوتی ہے لیکن مثبت نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ بھارت نے نئے صوبے بنانے کا طریقہ کار آسان کر دیا ہے۔ لوک سبھا میں صرف اکثریت کی بنیاد پر صوبے بنا لیے گئے۔ اب اس کے صوبے 11 سے 29ہو گئے ہیں۔ ہمارا طریقہ کار بہت دشوار ہے۔ تین ہاؤسز میں دوتہائی اکثریت کی ضرورت ہے جو بہت مشکل ہے ۔ ہمارے ہاں نئے صوبے کا مطالبہ آسان ہے مگر عملی اقدامات مشکل ہیں لیکن جب بھی جنوبی پنجاب صوبہ بنا تو یہاں بے مثال ترقی ہو گی‘ اس کیلئے فوری طور پر غیرجانبدار کمیشن قائم کیا جائے جس کے ممبران ماہر اور دور اندیش ہوں۔ چیف جسٹس آف پاکستان بھی یہ کمیشن بنا سکتے ہیں۔

چودھری طاہر اقبال (رکن قومی اسمبلی و رہنما صوبہ جنوبی پنجاب محاذ)

صوبہ جنوبی پنجاب محاذ کاقیام صرف اور صرف جنوبی پنجاب کے عوام کی مشکلات کے خاتمہ کیلئے وجود میں آیا ہے۔ پہلی مرتبہ منتخب نمائندوں کی کثیر تعداد اس حوالے سے میدان عمل میں نکل پڑی ہے۔ ہمارے ہمنوا اور ساتھیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ نئے صوبے کے قیام کا مطالبہ نیا نہیں ہے بلکہ 1970ء کی دہائی سے ہی آواز اٹھائی جا رہی ہے۔ ملک کی کل آبادی کا 50 فیصد ایک صوبے میں رہتی ہواور یہ 11 کروڑ نفوس پر مشتمل ہو تو انتظامی مسائل کا پیدا ہونا لازمی امر ہے۔ کسی بھی نظام حکومت کی بنیاد عوام کو سہولیات فراہم کرنا ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پنجاب کے 2 یا3صوبے بننے چاہئیں۔ اس حوالے سے غور و فکر کیا جائے تاکہ حقیقی معنوں میں عملی اقدامات کیے جاسکیں۔ ملتان پہلے بڑا ضلع تھا بعدازاں اسے لودھراں‘ وہاڑی اور خانیوال کے اضلاع میں تقسیم کر دیا گیا ۔ ظاہر ہے کہ عوام کو ان کے گھر کی دہلیز پر سہولیات فراہم کرنے اور ان کے مسائل حل کرنے کیلئے ایسا ضروری سمجھا گیا۔ ہم پر سب سے بڑا اعتراض یہ آ رہا ہے کہ 5 سال اسمبلی میں بیٹھے رہے مگر ان مشکلات کا ذکر کیوں نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ 2012ء میں ہماری کوششوں سے ہی مسلم لیگ (ن) نے پنجاب اسمبلی میں نئے صوبے کی قرارداد منظور کرائی تھی۔ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف نے ہم سے اور پوری قوم سے وعدہ کیا تھا کہ ہم ایک نہیں 2 صوبے بنائیں گے۔ 2013ء کے انتخابی جلسے‘ جلوسوں میں عوام کو یقین دہانیاں کرائی گئی تھیں۔ گزشتہ پانچ برسوں میں ہمارے مطالبے پر عمل نہ کرنے پر نواز شریف اور شہباز شریف سے یہ سوال ہونا چاہیے کہ انہوں نے عوام سے کیا گیا اپنا وعدہ پورا کیوں نہیں کیا؟ جنوبی پنجاب کے عوام کیلئے الگ صوبہ کیوں نہیں بنایا؟ اب ہمیں پوری طرح سمجھ آ گیا ہے کہ مسلم لیگ(ن)کو صوبہ بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور وہ پنجاب کو کسی بھی صورت تقسیم نہیں کرنا چاہتی۔ دراصل انہیں عوام کے مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، وہ اپنے اختیارات اور طاقت میں کوئی تقسیم نہیں چاہتے بلکہ لاہور میں بیٹھ کر پنجاب ہی نہیں ،پورے پاکستان کی سیاست پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور لاہور کی مرکزی حیثیت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ اب انہیں سمجھ آ جانا چاہیے کہ جنوبی پنجاب کے عوام کو ہر حال میں ان کا حق دینا پڑے گا۔ اگر ان کی نیت ٹھیک ہو تو اسمبلیوں اور سینٹ کے ارکان کی مدد سے فوری یہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے، کوئی بھی بڑی سیاسی جماعت ان کی مخالفت نہیں کرے گی۔ آئندہ عام انتخابات میںجب سیاسی جماعتیں اپنے منشور کے ساتھ انتخابی مہم کا آغاز کریں گی تو اس منشور میں سرائیکی صوبہ یا صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کی ضرورت اور اہمیت کو نمایاں حیثیت حاصل ہو گی۔ 3 بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی‘ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کو نئے صوبوں کے حوالے سے ہوم ورک کرکے جلسے‘ جلوسوں میں آنا پڑے گا۔ قومی انتخاب میں قومی اسمبلی کی نشستوں کے حوالے سے پنجاب اور جنوبی پنجاب کی نشستوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اس سے پہلے سرائیکی صوبہ کا نعرہ لگا کر میدان میں آنے والی علاقائی سیاسی جماعتوں کو کبھی بھی اہمیت اور ووٹ نہیں ملے لیکن اس بار نئے صوبہ کے قیام کا مطالبہ جنوبی پنجاب کے عوام کے دلوں کی ترجمانی کر رہا ہے۔ اس خطہ کے لوگ کسی بھی صورت نئے صوبہ سے کم پر راضی نہیں ہوں گے۔ گورنر پنجاب ملک رفیق رجوانہ نے ملتان میں الگ سیکرٹریٹ کے قیام کا وعدہ کیا تھا لیکن اس پر کوئی عملی اقدام نہیں کیے گئے۔ اگر ہم سرائیکی علاقوں کے اضلاع پر مشتمل جنوبی پنجاب میں ترقیاتی منصوبوں اور محرومیوں کا تقابلی جائزہ لیں تو گزشتہ دس برس میں بڑے شہروں ملتان‘ رحیم یار خان‘ بہاولپور‘ لیہ اور ڈیرہ غازی خان میں بڑے ترقیاتی منصوبے بھی پایہ تکمیل تک پہنچے ہیں اور کچھ منصوبوں پر ابھی کام جاری ہے جن میں بڑا پر کشش منصوبہ موٹروے ہے۔ سڑکوں اور قومی شاہراہوں کی تعمیر کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق دور حکومت اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے موجودہ حکومت میں جنوبی پنجاب کی ترقی پر خصوصی توجہ دی گئی اور ماضی میں کبھی اتنے بڑے میگا پراجیکٹس نہیں ملے تھے۔ دوسری جانب ورلڈ بنک کے اعداد و شمار کے مطابق جنوبی پنجاب کے 8 اضلاع کا شمار پاکستان کے پسماندہ ترین اضلاع میں ہوتا ہے۔ ترقیاتی کاموں کے حوالے سے شہروں کی حد تک تو ترقیاتی منصوبوں پر کام ہوا ہے لیکن دیہی علاقوں کو قطعی طور پر نظر انداز کیا گیا۔ صحت کی صورتحال دیکھیں تو جنوبی پنجاب ہی کیا بلوچستان تک سے مریضوں کو علاج کے لیے ملتان لایا جاتا ہے۔ کچھ انتظامی کمزوریاں بھی ہیں کہ ڈسٹرکٹ اور تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتالوں میں مریضوں کی مناسب دیکھ بھال نہیں ہوتی اور انہیں ملتان ریفر کیا جاتا ہے۔ پھر جب دور دراز دیہی علاقوں کے مریض اور ان کے لواحقین ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور نامناسب ٹرانسپورٹ کے ساتھ اپنے اضلاع سے ملتان کا سفر کرتے ہیں تو اس دوران ان کی احساس محرومی اور بڑھ جاتی ہے ۔ اسی طرح جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد جب لاہور کا وزٹ کرتے ہیں وہاں کی سڑکیں‘ فلائی اوورز‘ بڑے تفریحی پارک و دیگر ترقیاتی منصوبے دیکھتے ہیں تو اپنے شہروں کے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے مایوسی کا شکار ہوتے ہیں۔ پورے جنوبی پنجاب میں ٹریفک کنٹرول کرنے کے لیے چند اشارے لگائے گئے ہیں۔ اسی طرح شفاف پانی کی عدم فراہمی کی وجہ سے جنوبی پنجاب کے اضلاع میں ہیپاٹائٹس اور دیگر بیماریوں کے مریضوں میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے۔ صاف پانی کے منصوبوں پر خاطر خواہ کام نہیں کیا گیا تاہم جو منصوبے ماضی میں لگائے گئے ان کی دیکھ بھال نہیں کی گئی۔ ان تمام وجوہات کی وجہ سے الگ صوبے کے قیام کی ضرورت بڑھ گئی ہے اور اس پر کوئی دو رائے نہیں کہ اس خطے کے عوام کو الگ صوبہ دیا جائے۔

شوکت بسرا (رہنما پاکستان پیپلز پارٹی)

اس وقت سب سے اہم ضرورت جنوبی پنجاب صوبے کا قیام ہے کیونکہ ہم تخت رائیونڈ کے قیدی بنتے جارہے ہیں۔ صوبہ پنجاب ملک کی نصف آبادی پر مشتمل ایک بڑا صوبہ ہے یہی وجہ ہے کہ وسائل کی تقسیم بھی غیر منصفانہ ہوتی ہے۔ 652 ارب روپے کا 57 فیصد بجٹ صر ف لاہور پر خرچ کیا جاتا ہے کیونکہ لاہور کے ساتھ شریف خاندان کے مفادات وابستہ ہیں جبکہ انہیں دیگر علاقوں کی قطعاً پرواہ نہیں ہے۔ ہم جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے میں جتنی دیر کریں گے ، پاکستانی عوام کے ساتھ اتنی ہی زیادتی ہوگی کیونکہ یہ ملک و قوم کی ضرورت ہے۔ ہم اسے سیاسی یا لسانی بنیاد پر ہرگز نہیں دیکھ رہے بلکہ انتظامی ضروریات کے لحاظ سے الگ صوبہ کا قیام بہت ضروری ہے۔ پنجاب میں ایک نہیں زیادہ نئے صوبوں کی ضرورت ہے۔ سیاستدانوں نے تو شاید اب یہ آواز اٹھائی ہے مگر اس خطے کے رہنے والوں نے طویل عرصہ سے الگ صوبہ کے قیام پر آواز اٹھا رکھی ہے۔ ہم کسی چھوٹے مسئلے کے حل کیلئے صادق آباد سے 10 گھنٹے کا سفر کرکے لاہور جائیں، وہاں سیکرٹری کے دربار میں حاضر ہوں، وہ ملے ہی نہ تو کتنی مایوسی ہوتی ہے اور پھر یہ دس گھنٹہ کا مشکل سفر کیوں کیا جائے؟ جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کا مطالبہ خدانخواستہ دشمن ملک میں شامل ہونے کا نہیں بلکہ اپنے خطے کے عوام کیلئے الگ گورنر‘ وزیراعلیٰ‘ ریونیو بورڈ اور دیگر جائز ضروریات اور حقوق کے تحفظ کا مطالبہ ہے۔ عملی طور پر سب سے زیادہ پیپلز پارٹی نے نئے صوبے کے قیام کیلئے اقدامات اور کوششیں کی ہیں۔ 2008ء میں ہمارے جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم احمد محمود نے پنجاب اسمبلی میں قرارداد پیش کی اور ہاؤس کی اکثریت نے اس کی حمایت کی۔ شہباز شریف نے پنجاب اسمبلی کے فلور پر یہ کہا تھا کہ ہمیں جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن یہ ان کی زبانی کلامی باتیں ہی رہیں، وہ ہمارے خطے کے وسائل کے ساتھ لوٹ مار کرنا چاہتے ہیں۔ اگر اس خطے کے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے بعد بے روزگاری‘ کسانوں‘ کاشتکاروں کو سخت مشقت کے بعد نقصان ملے گا تو پھر مایوسی پھیلنا فطری ہے۔ جنوبی پنجاب کے لوگوں میں مایوسی اور غصہ بڑھ رہا ہے لہٰذا اس کا فوری تدارک ہونا چاہیے۔ پیپلز پارٹی کے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے جنوبی پنجاب کیلئے باقاعدہ آواز اٹھائی تو انہیں سازش کا شکار کر دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت‘ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کی آواز کا ساتھ دے گی بلکہ ہر محب وطن پارٹی اس کاز کو سپورٹ کرے گی۔ 2013ء کی شریف برادران کی تقاریر سنیںتو انہوں نے وعدے بہت کیے لیکن ان کی پاسداری نہیں کی۔

 ملک عامر ڈوگر (رکن قومی اسمبلی و رہنما پاکستان تحریک انصاف)

جنوبی پنجاب صوبہ وقت کی اہم ضرورت ہے اور میں جنوبی پنجاب محاذ پلیٹ فارم کا آغاز کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔الگ صوبے کے قیام کے حوالے سے پہلے انفرادی آواز اور رائے سامنے آتی تھی مگر پہلی مرتبہ منتخب عوامی نمائندوں نے متفقہ طور پر آواز اٹھائی ہے۔ پیپلز پارٹی کو بہرحال اس کا کریڈٹ جاتا ہے کہ 2008-09ء میں اس مطالبے کو اسمبلی کے فلور تک پہنچایا۔ اس خطے کی پسماندگی اور محرومیوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ الگ صوبہ کے مطالبہ اور اس کی اہمیت میں اضافہ ہو تا گیا۔ 2010ء میں اسمبلی کے سیشن میں بھی بے شمار ممبران اسمبلی اپنے عوام کے اس حق اور جائز مطالبے کیلئے اکٹھے ہوئے لیکن مسلم لیگ(ن) کے ممبران نے نامعلوم وجوہات کی بناء پر اس مطالبہ سے پسپائی اختیار کر لی تھی اور لگتا ہے کہ موجودہ ارباب اختیار ہی اس جائز مطالبہ کے حق میں رکاوٹ بنے تھے۔ اس وقت کچھ لوگوں کو بہاولپور صوبہ کی بحالی کا نعرہ دیکر ساتھ کھڑا کر دیا گیا، انہیں مالی سپورٹ دی گئی تاکہ جنوبی پنجاب صوبے کے مطالبے کو کاؤنٹر کیا جاسکے۔ یہ حکمرانوں کی سازش تھی۔ پھر یہ ہوا ہے کہ 2010ء کے بجٹ میں پہلی بار جنوبی پنجاب کیلئے 100 ارب کا بجٹ رکھا گیا۔ جنوبی پنجاب میں یہ ممکن نہیں ہے کہ بہاولپور صوبہ بھی بنے اور ملتان یا جنوبی پنجاب بھی الگ صوبہ بنے۔ نیا صوبہ بنانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ تمام تر ضروریات اور حالات حاضرہ کے تناظر میں فیصلہ ہونا ہے۔ اب تک اس خطے کے سیاستدانوں کی آپس کی نااتفاقی اور مرکزی قیادت تک اپنا کیس مضبوط طریقے سے پیش نہ کرنے کی وجہ سے الگ صوبے کا خواب‘ خواب ہی رہا اور شرمندئہ تعبیر نہ ہوسکا۔ اب بھی یہ خواب پورا ہونا خاصا مشکل نظر آتا ہے لیکن ناممکن نہیں کیونکہ نئے صوبے کے قیام کیلئے پنجاب اسمبلی میں 2 تہائی اکثریت پھر قومی اسمبلی اور سینٹ میں بھی دو تہائی ممبران کی رضا مندی ضروری ہے۔ مستقبل میں جب قومی اسمبلی میں جنوبی پنجاب صوبہ کی بات ہو گی تو پھر کراچی صوبہ اور ہزارہ صوبہ کے ساتھ بہاولپور صوبہ کی بات بھی کی جائے گی۔ پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی بات ہوتی ہے تو اس کی جغرافیائی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ڈیرہ اسماعیل خان‘ میانوالی‘ لیہ جیسے دور دراز کے اضلاع بھی نئے صوبے میں شمولیت کے حامی ہیں۔ جہاں تک بہاولپور صوبے کے قیام کی بات ہے تو بہاولپور بلاشبہ ایک ریاست تھی جو پاکستان میں شامل ہوئی لیکن اگر اس وقت کی جغرافیائی حدود کا جائزہ لیں تو اس میں انڈیا کے بہت سے علاقے بھی شامل تھے۔ اس طرح ماضی میں صوبہ ملتان کی جغرافیائی حدود افغانستان کے علاقوں تک جاتی تھیں لیکن اب ہمیں موجودہ حالات اور ضروریات کے تناظر میں دیکھنا ہو گا کہ کیا ممکن ہے اور کیا نہیں؟بہاولپور اس وقت صرف 3 اضلاع پر مشتمل خطہ ہے۔ بطور صوبہ بہاولپور کا چلنا مشکل ناممکن ہے۔ جغرافیہ اور آمدن کے ذرائع کے حوالے کے باوجود بھی عوام کی رائے لی جا سکتی ہے اور متفقہ رائے کو اہمیت ملنی چاہیے۔ تحریک انصاف انشاء اللہ 2018ء کے الیکشن میں اپنی حکومت بنائے گی۔ ہم نے اپنے پارٹی منشور میں جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کا عہد اور وعدہ کیا ہے اس کیلئے میرے ساتھ شاہ محمود قریشی نے بہت کوششیں کی ہیں۔ پیپلز پا رٹی نے اس صوبہ کیلئے آواز اٹھائی لیکن پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکی۔ یہ سہرا انشاء اللہ پی ٹی آئی کے سر سجے گا۔ خوش قسمتی سے اس وقت کمزور حلقوں سے لے کر طاقتور حلقوں تک، تمام لوگ جنوبی پنجاب کے الگ صوبہ بنانے کی ضرورت پر متفق ہو گئے ہیں۔ بھارت کی اگر مثال لیں تو وہ صوبہ بنانے کے معاملے میں عوام کی رائے کا احترام کیا جاتاہے۔ چندی گڑھ 2 صوبوں کا دارالحکومت ہے جو یہ اتفاق رائے کی بڑی مثال ہے۔ میرے نزدیک جو حکومتیں اپنے عوام کی ضروریات اور مشکلات کا احساس کرتی ہیں، اگر وہ خلوص نیت سے کوشش کریں تو ہرمشکل مرحلہ طے ہو جاتا ہے۔ اس وقت تمام سیاسی جماعتوں خلوص نیت سے صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کیلئے کوشش کریں تو اس جائز مطالبے اور خواب کو پورا کرنے میں کوئی رکاوٹ درپیش نہیں آئے گی۔ اب یہ مطالبہ انتخابی نعرے تک محدود نہیں ہے بلکہ عملی جدوجہد اور عملی تکمیل کی طرف گامزن ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔