اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی بچے

صابر کربلائی  اتوار 14 اپريل 2013

فلسطین میں جہاں غاصب اسرائیلی افواج ظلم و بربریت کا بازار گرم رکھے ہوئے ہیں وہاں فلسطین کے معصوم بچے بھی ان مظالم سے مبرا نہیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بچے فرشتوں کا روپ ہوتے ہیں۔ مہذب معاشروں میں بچوں کے اندر صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے خصوصی انسٹی ٹیوشن قائم کیے جاتے ہیں لیکن دنیا میں ایک جگہ مقبوضہ فلسطین کے نام سے جانی جاتی ہے، جہاں پر انسانیت کی دھجیاں اس طرح بکھیری جاتی ہیں جیسے گاجر مولی کو کاٹا جاتا ہو۔ اسی فلسطین کے باسیوں کو جہاں دیگر مسائل کا سامنا ہے وہاں غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم بھی ہیں کہ جس کی طول تاریخ میں مثال نہیں ملتی ہے۔

ایسے ہی مظالم کا سامنا فلسطین میں بسنے والے معصوم بچوں کو بھی ہے۔ بچے تو فرشتوں کا روپ ہوتے ہیں، معصوم ہوتے ہیں اور بے ضرر بھی ہوتے ہیں لیکن فلسطین میں بسنے والے بچوں کو نہ تو کھیلنے کودنے کا حق ہے اور نہ ہی اپنی زندگی کے رنگوں کو مزید رنگین کرنا کا کوئی حق ہے۔ کیونکہ فلسطینی بچوں کے سامنے ایک درندہ صفت فوج کھڑی ہے جسے اسرائیلی فوج کہا جاتا ہے۔

حال ہی میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں غاصب صہیونی ریاست اسرائیل نے سات ہزار فلسطینی معصوم بچوں کو جن کی عمریں 9 سے 14 برس کے درمیان ہیں کو گرفتار کیا اور سیکڑوں دن تک جیلوں میں قید رکھنے کے بعد چھوڑ دیا۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غاصب اسرائیلی افواج ہر ماہ سات سو سے زائد فلسطینی بچوں کو گرفتار کرتے ہیں اور ان کو قید و بند میں ڈال دیا جاتا ہے۔

اسرائیلی فوجی جن طریقوں سے فلسطینی بچوں کو گرفتار کرتے ہیں اور ان پر تشدد کرتے ہیں اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں۔

غاصب صہیونی افواج رات گئے فلسطینیوں کے گھروں پر چھاپہ مارتے ہیں اور گھروں میں موجود معصوم بچوں کو جبراً گرفتار کرکے ان کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ گرفتاری کے وقت بچوں کے چہروں پر کپڑا ڈال دیا جاتا ہے یا ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی جاتی ہے جب کہ ان کے ہاتھ پشت کی طرف آہنی زنجیروں سے باندھ کر ان کو اپنی گاڑیوں میں بٹھا کر جیلوں میں لے جایا جاتا ہے۔اکثر اوقات بچوں کو گرفتار کرتے وقت ان کو گھسیٹ کر یا پھر مار پیٹ کرکے قیدی بنایا جاتا ہے، بچوں کو ان کے گھر والوں کے سامنے گرفتار کیا جاتا ہے جب کہ ان کے جرم کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا جاتا۔ ایک فلسطینی بچے نے بتایا ہے کہ جب تک ان کو گاڑی میں سوار رکھا جاتا ہے اسرائیلی فوجی ان کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور گھونسوں اور لاتوں کی بارش جاری رہتی ہے تا حد یہ کہ گاڑی جیل تک نہ پہنچ جائے۔

گرفتاری کے بعد انویسٹی گیشن سینٹر پر لایا جاتا ہے اور چوبیس گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ دیر تک بچوں کو بغیر خوارک، پانی اور ضروری چیزوں کے رکھا جاتا ہے اور تفتیش کا طریقہ بھی انتہائی سخت رکھا جاتا ہے جس میں بائیس بائیس گھنٹے لگاتار بچوں کو جگائے رکھنا اور مختلف طریقوں سے ڈرا دھمکا کر تفتیش کرنا شامل ہے۔

اسرائیلی قید میں بچوں کو موت کی دھمکی سمیت جنسی ہراساں بھی کیا جاتا ہے جب کہ غاصب اسرائیلی افواج کی جانب سے پابند ی عائد کی گئی ہے کہ گرفتار کیے گئے بچے اپنے لیے کسی وکیل کا بندوبست بھی نہیں کر سکتے ہیں۔

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اسرائیلی درندوں کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے اکثر بچے دوران تفتیش اپنا جرم قبول کر لیتے ہیں، ان بچوں کے جرم میں اسرائیلی فوجیوں کی طرف پتھر پھینکنا ہوتا ہے۔ ان بچوں سے ایسے معاہدوں پر دستخط کروائے جاتے ہیں جو اسرئیلی سرکاری زبان ’’ہیبریو‘‘ میں لکھے جاتے ہیں جو کہ بچے سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔

سادہ الفاظ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ بچوں پر ہونے والے اسرائیلی مظالم انتہائی سنگین اور وحشت ناک ہوتے ہیں جو قید و بند کے دوران ان پر روا رکھے جاتے ہیں۔ان بچوں کو سخت سے سخت سزائوں کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔

اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی بچوں میں دو بچوں کو اسرائیلی افواج نے خفیہ قیدی بنا کر رکھا ہوا ہے جن کے بارے میں جنیوا کنونشن میں بھی آواز اٹھائی گئی لیکن تاحال ان دونوں فلسطینی بچوں سے ان کے گھر والوں کو نہیں ملنے دیا گیا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کہاں ہے؟ کہاں ہیں انسانی حقوق کے علمبردار؟ کہاں ہیں امریکی صدور جو انسانی حقوق کے چیمپئن بنتے ہیں؟ کہاں ہیں دنیا کی باضمیر حکومتیں؟ کہاں ہے مسلم امہ؟ کہاں ہیں انسانیت کی حفاظت کا دم بھرنے والے؟ آخر کہاں ہیں یہ سب لوگ جو بڑی بڑی باتیں کرتے تو تھکتے نہیں لیکن ان کو فلسطینیوں پر اور بالخصوص بچوں پر ہونے والے یہ دہشت ناک مظالم نظر نہیں آتے… ان سب کے لیے میں اتنا ہی کہوں گا ’’شرم تم کو مگر نہیں آتی…‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔