اصل پی پی اور بھٹوز…

نجمہ عالم  اتوار 14 اپريل 2013

پیپلز پارٹی کو خود ساختہ امیرالمومنین ضیاء الحق کے کوڑے، قید و بند، ہر طرح کا ظلم و ستم، دشمنوں کا منفی پروپیگنڈہ، اندرونی سیاست اور بیرونی طاقتوں کی ریشہ دوانیاں ختم نہ کر سکیں۔ کیونکہ اس نظریاتی پارٹی کی جڑیں عوام کے دلوں میں پیوست تھیں۔ عوام کی اکثریت اور عام کارکنان کی بے پناہ حمایت اور جذبات نے اس پارٹی کو کڑے سے کڑے حالات میں بھی منتشر نہ ہونے دیا، بھٹو کی سیاسی بصیرت اور سحر انگیز شخصیت نے ان کے بعد بھی پارٹی کو ملک کی سب سے اہم اور مقبول پارٹی بنائے رکھا اور جب تمام تر آمرانہ ہتھکنڈوں کو آزما کر ضیاء الحق بھی اپنے انجام سے دوچار ہو گئے۔

ان کی کوششِ جمیلہ کے کچھ عرصے بعد جب انتخابات ہوئے تو بھٹو کی تعلیم یافتہ جواں سال اور پرکشش شخصیت کی مالک بیٹی ان انتخابات میں فاتح قرار پائی۔ بے نظیر کی رسم حلف برداری کی تقریب ٹی وی پر دیکھ کر بھٹو کو چاہنے والوں کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں کہ جب دوبارہ بھی (تمام تر منفی کوششوں کے بعد) پیپلزپارٹی ہی کو آنا تھا تو بھٹو کے ماورائے عدالت قتل کا کیا جواز رہ جاتا ہے۔ بہرحال ایک وقت تھا کہ ہم بھی پیپلز پارٹی کے زبردست حامی بلکہ بھٹو کے چاہنے والوں میں شمار ہوتے تھے۔ ہمیشہ جب بھٹو صاحب کراچی آتے ہم استقبالی جلوس کے ہمراہ ایئرپورٹ انھیں لینے جاتے۔ ان کے ہر جلسے میں نہ صرف شرکت کرتے بلکہ اسٹیج پر جا کر نعرے لگواتے، حسب حال اشعار سے محفل کو گرماتے۔

کارنر میٹنگز کے علاوہ بھٹو صاحب کی اس تاریخی پریس کانفرنس میں شرکت کا اعزاز بھی ہمیں حاصل ہے جس میں مارشل لاء کی جانب سے 90 دن میں انتخابات کرانے کا وعدہ کیا تھا (مگر جو ضیاء دور میں کبھی نہ ہوئے) اور بھٹو صاحب نے ان میں بھرپور حصہ لینے کا تاریخی اعلان کیا تھا۔ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم بھی کبھی پیپلز پارٹی اور بھٹو کے اس قدر دیوانے تھے اور ہم ہی کیا ملک کے بیشتر نوجوانوں کا وہی حال تھا، مگر جب بھٹو صاحب کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا تو یہ نشہ کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گیا۔ اب بھٹو کا چہلم، تعزیاتی اجلاس میں نہ صرف شرکت کرنا ہمارا مشن قرار پایا بلکہ برسی کے سلسلے میں خود ہم نے اپنے گھر پر قرآن خوانی و فاتحہ خوانی کا انتظام کیا۔

مارشل لاء دور میں جب بھٹو صاحب کو گرفتار کیا گیا تو گویا پورے ملک میں تمام تر سختیوں کے باوجود ایک آگ سی لگ گئی۔ بھٹو صاحب کی رہائی کے لیے لوگوں نے خودسوزی جیسے انتہائی اقدامات تک سے گریز نہیں کیا۔ بھٹو صاحب کی رہائی کے لیے مختلف سطح پر کئی اداروں اور تنظیموں کے تحت مہم چلائی جا رہی تھی ان میں بھی ہم نے بھرپور حصہ لیا۔ ضیاء الحق کے سخت ترین مارشل لاء دور میں جب کراچی کے ہر گلی کوچے پر فوجی تعینات تھے سخت دہشت انگیز ماحول تھا۔ اس کے باوجود احتجاج جاری تھا۔

ہم نے بھی اپنی یونیورسٹی کی بہت سی ساتھیوں کے ساتھ ناظم آباد پہلی چورنگی (فردوس کالونی والی) پر اس صورت میں مظاہرہ کیا کہ جب مسلح افواج کے بکتر بند اس چورنگی سے غالب لائبریری والی چورنگی تک جا کر واپس آتے تو اس میں تقریباً بارہ یا پندرہ منٹ لگ جاتے۔ اس دوران ہم تمام لڑکیاں فٹ پاتھ سے اتر کر چلتی ٹریفک کے سامنے اپنے بینرز کھول کر آ جاتیں اور بھٹو کو رہا کرو، جئے بھٹو، سدا جئے، وغیرہ کے فلک شگاف نعرے لگاتیں، ہمارے حمایتی فوٹو گرافر ہماری تصاویر اس رازداری سے بناتے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی پھر وہ اپنا کیمرہ چھپا کر دکانوں کی بھیڑ میں گم ہو جاتے اور یہ تصاویر اخبارات میں چھپ جاتیں مگر ہمارے چہرے کے آگے بینرز ہوتے تا کہ کوئی بھی پہچانا نہ جا سکے۔

اس طرح پانچ، چھ بار ہم یہ مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ہماری گاڑیاں اپنے دروازے کھلے ادھر ادھر تیار کھڑی تھیں ہم بڑی عجلت میں ان پر سوار ہوئے اور مختلف گاڑیاں مختلف سمتوں کو دوڑ گئیں، ہمارے ڈرائیور نے اپنی گاڑی سائٹ کی سڑک پر ڈال دی، ایک فوجی جیپ ہمارے تعاقب میں لگ گئی، کہانی ذرا طویل ہے۔۔۔۔ مختصراً یہ کہ ڈرائیور نے بڑی ہوشیاری سے ایک دوراہے پر ایک زیر تعمیر سڑک پر جس پر رُوڑیاں بچھی ہوئی تھیں اور ٹریفک کے لیے بند تھی پر اپنی گاڑی ڈال کر فوجی جیب کو دھوکا دے کر جان چھڑائی۔ بہرحال شام تک ہم کسی نہ کسی صورت کئی بسیں، ویگنیں بدل بدل کر بخیریت گھر پہنچ گئے۔ اس زمانے میں ہم چادر (اجرک) اوڑھتے تھے۔

ابھی ہم گھر پہنچ کر اپنے والد کو مزے لے لے کر اپنی کامیاب مہم کی داستان سنا ہی رہے تھے کہ ہماری بڑی بہن بڑی عجلت اور پریشانی میں آئیں اور کہا کہ تم فوراً میرے ساتھ چلو کیونکہ میرے پاس فون آیا ہے کہ تمہاری گاڑی کی تمام لڑکیاں پکڑی جا چکی ہیں اور فوجیوں کو اجرک والی لڑکی کی تلاش ہے، اس لیے نجمہ کو گھر سے فوراً کہیں منتقل کر دیں چنانچہ ہم جو صبح سے بھوکے پیاسے تھے اسی صورت میں بہن صاحبہ کے ہمراہ ایک غیر معروف جگہ پر اپنی خالہ کے گھر منتقل ہو گئے۔

بہن صاحبہ کی ہدایت تھی کہ نہ ٹیرس پر آنا اور نہ کھڑکی کے قریب۔ وہ ہمیں چھوڑ کر جلدی واپس چلی گئیں، انھوں نے اپنی گاڑی بھی احتیاطاً دوسری گلی میں کھڑی کی تھی۔ یوں ہم خدا کے فضل سے محفوظ رہے۔ (باقی تمام لڑکیوں کو بھی کچھ دیر تھانوں میں پوچھ گچھ کے بعد رہا کر دیا گیا تھا) یہ لمبی چوڑی داستان ہم نے اس لیے بیان کی ہے کہ آپ کو خاص کر نئی نسل کو پیپلز پارٹی اور بھٹو صاحب سے ہماری عقیدت و محبت کا اندازہ ہو جائے۔

آخر کار جب بھٹو کی جدائی کا زخم کچھ بھرا، ہم نے سیاست پر لعنت بھیج کر اپنی ساری ہمدردیاں پیپلز پارٹی سے ختم کر کے لاتعلقی اختیار کر لی اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اتنی مضبوط پارٹی اپنے اتنے اہم لیڈر کو نہ بچا سکی اور دوسری سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ اب ہم پر یہ حقیقت واضح ہو چکی تھی کہ بھٹو کو تختہ دار تک پہنچانے والوں میں خود وہ بونے بھی شامل ہیں جنھیں بھٹو صاحب کی قد آور شخصیت کے سامنے اپنے بونے ہونے کا احساس ستاتا رہا تھا۔

چنانچہ انھوں نے طے کیا کہ اگر اس بلند و بالا شخصیت کو سامنے سے ہٹا دیا جائے تو لوگوں کی نگاہ ہم بونوں پر براہ راست پڑے گی، ان احساس کمتری میں مبتلا افراد میں کچھ بھٹو کے سیاسی جانشین، کچھ منہ بولے بیٹے، وارث اور بھائی بند شامل تھے۔ مگر ان کی یہ خواہش آج تک تو پوری نہ ہو سکی بلکہ وہ تو سیاسی منظر نامے ہی سے غائب ہو گئے۔ بھٹو صاحب کی جگہ لینا تو دور کی بات ہے وہ تو اب پیپلز پارٹی سے بھی بیک بینی و دوگوش باہر ہیں اور گم نامی کی چادر اوڑھے عوام سے منہ چھپائے کونے میں بیٹھے ہیں۔

اس ساری داستان کا مقصد یہ ہے کہ ہم آپ کو بتا سکیں کہ تمام تر اندرونی و بیرونی سازشوں کے باوجود پیپلز پارٹی ملک کی مقبول ترین پارٹی رہی کیونکہ لوگ بھٹو کے ویژن سے متاثر تھے اور ان کے دیئے ہوئے نعروں کی وجہ سے پارٹی سے بہت پرُ امید۔ جب ہی تو بھٹو کے بعد بھی ان کی بیٹی دو بار وزیر اعظم منتخب ہوئی۔ اگر زندگی وفا کرتی تو تیسری بار بھی وہی کامیاب ہوتی۔ مگر سارا گراؤنڈ تیار کرنے کے بعد وہ دہشت گردی یا اندرونی سیاست کا شکار ہو گئیں، وہی سیاست جو ان کے عظیم والد کی راہ میں حائل تھی اور تیار شدہ میدان ان کے شوہر نامدار کے ہاتھ لگ گیا۔

انھوں نے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں اپنی ہنستی مسکراتی مفاہمتی پالیسی کے ذریعے تاریخ میں کسی اسمبلی کی پانچ سالہ مدت پہلی بار مکمل تو کر لی مگر ان پر کرپشن کے الزام بھی لگتے رہے۔ مگر پارٹی کی تنظیم نو کی نہ اس کی شہرت کو برقرار رکھا بلکہ اس کی مقبولیت کو الٹا نقصان پہنچایا اور اس مقبول ترین پارٹی سے لوگوں کو متنفر اور بے زار و دلبرداشتہ کردیا۔

غرض یہ کہ جو کام ضیاء الحق کے کوڑے، قید و بند اور عتاب کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کا بغض و عناد نہ کرسکا وہ انھوں نے میٹھی چھری سے کر دیا اور اب پی پی پی عملاً اپنی اصل صورت و شکل میں اپنے بنیادی اصولوں کی صورت میں پورے پاکستان میں کہیں نہیں۔ پنجاب جو پی پی کا گڑھ کہلاتا تھا وہاں اب یہ پارٹی اپنی حکومت قائم کرنے میں ناکام ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔