وہ روح سفر تھی…

انیس ہارون  اتوار 14 اپريل 2013

پروین رحمان اب ہمارے درمیان نہیں رہیں مگر ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ اپنے کام کے حوالے سے مستقل مزاجی، صلاحیتوں اور خلوص کی بنا پر انھوں نے اپنی زندگی غریب علاقوں کے محروم طبقوں کے لیے وقف کر دی تھی۔ ایک انسان دوست شخصیت کا اٹھ جانا کسی بھی معاشرے کا بہت بڑا المیہ ہوتا ہے، میں پروین کو عرصے سے جانتی تھی۔ اس کے ساتھ ایک کانفرنس میں کام بھی کیا تھا۔ ہمارے کچھ مشترکہ دوست بھی ہیں، ایک سلسلہ تھا جو پروین سے جڑتا تھا اور میرے لیے وہ کتنی اہم تھی اس کا اندازہ مجھے اس لمحے ہوا جب اس کو کھونے کی روح فرسا خبر ملی، تصدیق ایک دوست نے کی اور میں چیخ اٹھی، نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔

ایک فرشتہ صفت، نرم خو، نرم دل اور ہر وقت مسکراتے چہرے کو کون خون میں نہلا سکتا ہے، مگر یہ حقیقت تھی اس کا ادراک وقت کرتا ہے اور سامنے نظر آنے والے حقائق کرتے ہیں۔ پروین رحمان کے جنازے پر سارے دوست جمع تھے، اس کی ضعیف العمر والدہ سب کو بتا رہی تھیں کہ وہ صبح جاتے ہوئے انھیں کتنا پیار کر رہی تھی، بڑی بہن یہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھیں کہ کفن میں لپٹا ہوا ساکت جسم ان کی ہنستی بولتی بہن کا ہے۔ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ جو زندگیاں کسی بڑے مقصد کے لیے وقف کر دی جاتی ہیں ان کے جانے پر ماتم کرنے کے بجائے سراہنا چاہیے لیکن اس روز میں اپنے آپ کو بھی نہ سمجھا سکی۔ جیسے دکھ اور مایوسی نے میرے دل میں گھر کر لیا ہو۔

دو تین روز بعد کچھ طوفان تھما تو کئی سوالات ابھرے، پروین نے کسی کا کیا بگاڑا تھا، قاتل کون ہو سکتے ہیں، انھیں کیا فائدہ پہنچا ہو گا؟ دشمن کون ہیں؟ کیا انھیں صرف پروین سے دشمنی تھی۔ زر، زمین کی ہوس تھی، ایک با اختیار عورت سے ڈر تھا؟ یہی سب کچھ وجوہات ہو سکتی ہیں، تو پھر کیا ہم ایسے کام کرنے بند کر دیں گے، صرف مذمت ہی پر اکتفا کریں گے، الگ الگ ٹکڑیوں میں بٹے رہیں گے، زبانوں پر قفل لگا دیں گے، آنکھوں پر پٹی باندھ لیں گے؟ اور صرف اپنے کام سے کام رکھیں گے۔

مجھے یہ تو مسئلے کا حل نظر نہیں آتا۔ پہلے بھی وہ صرف اپنے کام سے کام رکھتے تھے، پھر یہ کیوں ہوا، اس پر کچھ سوچنے کی ضرورت ہے، ساری دنیا میں ترقی کے تصور میں بہت تبدیلی آئی ہے، اب یہ ممکن نہیں رہا کہ سماجی بہبود کے ترقیاتی منصوبوں کو اپنے ماحول اور ملک کی سیاسی و معاشی صورتحال سے الگ رکھ کر دیکھا جائے، ملکوں کی سیاست، معیشت کے گرد گھومتی ہے اور یہ سب جانتے ہیں کہ اقتصادی ڈھانچے کس طرح سرمایہ دارانہ نظام، مارکیٹ اکانومی اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے بندھے ہوئے ہیں۔

ملک میں مٹھی بھر لوگ تمام وسائل پر قابض ہیں اور اس قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے انھیں سیاسی اقتدار کی ضرورت ہوتی ہے، ایک چھوٹے پٹہ دار سے لے کر نوکر شاہی اور سیاسی جماعتیں اس کھیل میں شامل ہوتی ہے اور آپس ہی میں بندر بانٹ کرتے ہیں، جس میں تشدد، لوٹ مار، خونریزی بھی ہوتی ہے اور سمجھوتے بھی، جس میں عام لوگوں کے علاوہ سب کا فائدہ ہوتا ہے، ملکی وسائل میں زمین، پانی، بجلی، گیس، پٹرول اور تمام معدنیات شامل ہیں جو کسی بھی ملک کا اثاثہ اور قدرتی وسائل میں شمار ہوتے ہیں۔

علاوہ ازیں لینڈ مافیا، بھتہ مافیا، ٹرانسپورٹ پر قابض گروپ اور تو اور ٹھپہ مافیا بھی ہوتی ہے جو گھر بیٹھے ہی لوگوں کے ووٹ ڈال دیتی ہے اور عوام کو ان کی مرضی کے نمائندے منتخب کرنے سے محروم کر دیتی ہے، یہ سب اپنے عسکری ونگ رکھتے ہیں اور کئی جگہ ہمیں ان کے تصادم کی نئی نئی شکلیں دیکھنے کو ملتی ہیں جو بربریت میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے معاشرے کے تمام اقدار اور امن و چین درہم برہم کر دیتے ہیں، امن کی دھجیاں بکھر جاتی ہیں اور انسانی جانیں ضایع ہو جاتی ہیں۔

کراچی میں یہی سب کچھ ہو رہا ہے اور پروین رحمان کا افسوسناک قتل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، گو کہ نہ تو وہ کوئی سیاستدان تھیں اور نہ ہی تقریریں کر کے لیڈری کر رہی تھیں، پروین تو خاموشی سے بے اختیار لوگوں کو با اختیار بنانے کے لیے کام کر رہی تھیں۔ انھیں ان کے وسائل پر حق دلا کر ان کی زندگیاں بہتر کرنے کی کوشش کر رہی تھیں، تین دہائیوں سے اورنگی، قصبہ، بنارس، اور آس پاس کے دو ہزار گوٹھوں کے مکینوں کے لیے صبح سے رات گئے گلیوں گلیوں گھوم کر ان کے مسائل معلوم کرنا، انھیں حل کرنے کی کوشش کرنا اور انھیں عام سہولتیں بہم پہنچانے کی تگ و دو میں مصروف تھیں، یہی تو وہ ایجنڈا ہے جو ساری مافیا کو کھٹکتا ہے کہ اگر عام آدمی سمجھ دار ہو جائے اور اپنا حق مانگنے کے لیے اکٹھا ہو کر ایک طاقت بن جائے تو ہمارا کیا ہو گا؟

ریاست اگر فلاحی عزائم رکھتی ہو تو وہ ایسے ادارے تشکیل دیتی ہے جن کا مقصد عام آدمی کی فلاح و بہبود ہوتا ہے اور وہ ادارے جمہوریت اور سماجی انصاف کے اصولوں پر کام کرتے ہیں لیکن ریاست صرف سیکیورٹی اسٹیٹ بن جائے تو عوام کی فلاح پیچھے رہ جاتی ہے اور اپنے مفادات کی جنگ شروع ہو جاتی ہے، مفادات کی جنگ میں تو سب جائز ہو جاتا ہے، قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ان ہی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے ہوتے ہیں جو حکمران چاہتے ہیں۔ پروین رحمان نے جو سب سے اہم کام کیا تھا وہ ان زمینوں کا ریکارڈ محفوظ کرنا تھا جو دو ہزار ایک سو ستر گوٹھوں کی تھی جو کراچی کے مضافات میں ہیں اور جنھیں ترقی کے نام پر مستقل یا باقاعدہ کیا جا رہا تھا۔

پروین کے پاس 2011ء میں 1,673 ایسے گوٹھوں کی تفصیل تھی جہاں سے غریب لوگوں کو نکال کر مختلف پارٹیاں اپنے وفاداروں کے حلقے بنا رہی تھیں۔ اپنی تحقیق کے ذریعے ویب سائٹ پر ان علاقوں کے ریکارڈ کا رکھنا جہاں کرپشن اور قبضہ مافیا کا راج تھا ایک خطرناک کام تھا۔ کرپشن کے الزام لگانا اور کھلی کتاب کی طرح ایک ریسرچر کا اپنی ویب سائٹ پر پیش کرنا دو مختلف چیزیں ہیں۔ اس کا عزم کہ ہم اس کرپٹ نظام کو بدل دیں گے، معاشرے کے دشمن عناصر کو نہیں بھایا، وہ اپنے استاد اختر حمید خان کی طرح لوگوں کے ساتھ کام کرنے اپنی مدد آپ اور اپنے آپ پر بھروسہ کرنے جیسے اصولوں پر یقین رکھتی تھی۔

پروین نے یہ مفروضہ بھی توڑا تھا کہ لوگ لسانی مفادات کی خاطر ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں، یہ لڑائی در اصل معاشی مفاد کی ہے جس میں زبان اور نسل کا سہارا لیا جا رہا ہے، عام لوگ بھی تو یہی کہتے ہیں کہ آخر کون لڑ رہا ہے، ہمارے محلے میں نہ تو سندھی، مہاجر، پٹھان، بلوچ، پنجابی، ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں اور نہ ہی شیعہ سنی کا کوئی جھگڑا ہے۔

پھر آخر یہ خونریزی کیوں؟ کون ہمارے نام لے کر دوسروں کے گلے کاٹ رہا ہے، یہ آپس کے سیاسی و معاشی مفادات کی جنگ ہے، حکومتیں آتی ہیں، جاتی ہیں مگر عوام کا بھلا نہیں ہوتا، جو عوام کے لیے کچھ کرنے نکلے اس کو ختم کر دیا جاتا ہے، پھر اسے شہید کے رتبے پر فائز کر دیتے ہیں اور پھر یہ بحث چھڑ جاتی ہے کہ مرنے والا کس کا بندہ تھا، بڑی سرکار یہ اعلان کرتی ہے کہ ہم نے نوٹس لے لیا ہے، واہ صاحب خوب، کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری، کہ خواب اقتدار سے چونک کر نوٹس تو لیا۔ یہ کھیل تماشا زیادہ عرصہ جاری نہیں رہ سکتا لوگوں میں اپنے اچھے برے کا شعور آ گیا ہے، سب کی اصلیت جان گئے ہیں، 2013ء کے انتخابات اگر صاف و شفاف ہوں تو بڑے بت گریں گے۔

دعا یہ ہے کہ جمہوریت اور انتخابات کا تسلسل جاری رہے، ایک ہی ہلے میں سارا گند نہیں چھٹ سکتا، تبدیلی بتدریج آئے گی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ پروین رحمان جیسے نیک دل لوگ عوام کی بھلائی کے لیے کام کرتے رہیں گے، پروین بڑی بہادر عورت تھی اسے پورا اندازہ تھا کہ وہ کتنا اہم کام کر رہی ہے اور دشمن بے شمار ہیں، لیکن اس نے یہ خطرہ مول لیا، خلوص نیت سے کام کرنا اور خاموشی سے اپنا کام جاری رکھنا اس کا مشن تھا، مجھے یقین ہے کہ ایک نہیں کئی لوگ پروین کے کام کو لے کر آگے بڑھاتے رہیں گے، اتنی بڑی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔