اقلیتوں کے حقوق اور ہماری ذمے داریاں

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی  اتوار 14 اپريل 2013
drtayyabsinghanvi100@gmail.com

[email protected]

اسلام انسانی مساوات، اخوت اور ہمدردی کا مذہب ہے۔ اسلام دنیا میں اﷲ تعالیٰ کے آخری اور مکمل پیغام کی صورت میں دنیا کے سامنے آ چکا ہے۔ اسلام کے اصولوں نے ہر مسلمان کو یہ سکھایا ہے کہ وہ بلا لحاظ رنگ و نسل اپنے پڑوسیوں اور اقلیتوں کی حفاظت کرے اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مسلمانوں کو غیر مذاہب کے لوگوں کے لیے رواداری کا سلوک کرنے کی تلقین کی ہے بلکہ انھیں یہ بھی حکم دیا ہے کہ ان کی حفاظت میں غیر مسلموں کی جو عبادت گاہیں ہیں ان کا تحفظ ان کا فرض ہے۔

اسلام کی خصوصیت اور وصف یہ ہے کہ وہ دین رحمت ہے، دین حیات ہے، دین انسانیت ہے، دین الٰہی ہے، دین معرفت ہے، اس بنا پر اگر اسلام ان موضوعات کا نام ہے تو یہ حقیقت بھی بالکل واضح ہے کہ معاشرے میں ہر مذاہب اور فرقے کے انسان رہتے ہیں اور اکثر اوقات انسان کا ایک دوسرے سے واسطہ رہتا ہے، انسان معاشرے سے کٹ کر نہیں رہ سکتا۔ پاکستان کا قیام 1947ء میں عمل میں آیا، پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے، اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق آئین پاکستان کی روشنی میں واضح کر دیے گئے ہیں۔

’’الخلق عیال اﷲ‘‘ بلاشبہ تمام مخلوق اﷲ تعالیٰ کا کنبہ ہے اور سب انسان ایک ہی باپ حضرت آدمؑ اور ایک ہی ماں حضرت حوا کی اولاد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اختلاف کی صورت میں بھی اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا کہ ایک انسان دوسرے انسان کو برا سمجھے یا برا کہے، رب العالمین اپنے بندوں سے باہمی احترام اور اعلیٰ اخلاق کا طالب ہے اور ان لوگوں کو بھی برا کہنے کا روادار نہیں جو اﷲ کو نہیں مانتے اور غیر اﷲ کی پرستش کرتے ہیں۔ انفرادی، اجتماعی، قومی، ملی اور انسانی غرض ہر سطح پر اسلام، آدمی اور آدمیت کے احترام و تقدیس کا قائل ہے اور اس کے ماننے والوں کو بلا امتیاز رنگ و نسل اور مذہب و عقیدہ ہر کسی سے انصاف کرتے رہنے اور اﷲ سے ڈرتے رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ رحمتہ اللعالمینؐ کا خطبہ حجتہ الوداع بلاشبہ حقوق انسانی کا عالمی منشور ہے۔

آپؐ نے فرمایا ’’اے افراد نسل انسانی تمہارے خون، مال اور عزت و آبرو ایک دوسرے پر قطعی حرام کر دی گئی‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ و احترام اور قیام عدل کے سلسلے میں مسلم اور غیر مسلم کے مابین کسی امتیاز کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ نے غیر مسلموں کے حقوق کا جو ذمہ لیا اس کے پیش نظر انھیں معاہدہ کیا گیا یعنی وہ افراد جن سے اﷲ اور اس کے رسول نے یہ عہد کر رکھا ہے کہ ان کے حقوق کا پورا پورا تحفظ کیا جائے گا، لہٰذا ہر سچے مسلمان اور پاکستانی کے لیے ضروری ہے کہ وہ بھی تمام انسانوں کا احترام کرے اور ان کی بھلائی اور خیر خواہی کے لیے کمر بستہ رہے۔

غیر مسلموں کے لیے ہمارے دین اسلام میں کتنی رواداری اور حسن سلوک کی تعلیم ہے، اس بات کا اندازہ کرنا ہو تو ہمارے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ پر ایک نظر ڈالیں، ساری شکایتیں دور ہو جائیں گی۔ آپؐ نے غیر مسلموں کے ساتھ جو احسان و ہمدردی اور خوش اخلاقی کے معاملات کیے، ان کی دنیا جہان میں نظیر ملنا مشکل ہے۔

خاتم النبیین، سیدالمرسلین، رحمۃ اللعالمینؐ نبی رحمت ہیں۔ آپؐ کی پوری حیات مقدسہ اور سیرت طیبہ عفو و در گزر، رحمت اور مثالی مذہبی رواداری سے عبارت ہے۔ انسانیت کے محسن اعظم، ہادی عالم، رحمت مجسم، حضرت محمدؐ نے غیر مسلم اقوام اور اقلیتوں کے لیے مراعات، آزادی اور مذہبی رواداری پر مبنی ہدایات اور عملی اقدامات تاریخ انسانی کے اس تاریک دور میں روا فرمائے کہ جب لوگ مذہبی آزادی و رواداری سے ناآشنا تھے اور مذہبی آزادی و رواداری کے مفہوم و تصور سے انسانی ذہن خالی تھا۔ اسلامی حکومت میں اسلام ہر مذہب و فرقے سے تعلق رکھنے والوں کی ضمیر اور عبادت کی آزادی کا ضامن ہے۔

سورۃ البقرہ جبر یا سختی نہ کرنے کا وہی رواداری کا اصول بیان کر رہی ہے جو اسلام اپنے ماننے والوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ رواداری وہ نظریہ تھا جس کے باعث مسلمان ملکوں میں اسلامی سیاسی ابتلاء کے باوجود غیر مسلم ملتیں اپنی انفرادی زندگی اور تمدن و تہذیب کو برقرار رکھ سکیں۔ عیسائی کلیسا سے ناقوس کی آواز متصلہ مسجد کی اذان کے ساتھ بلند ہوتی تھی۔ ہسپانیہ میں تقریباً آٹھ صدی تک مسلمانوں کی حکومت رہی لیکن انھوں نے کبھی دباؤ یا جبر سے غیر مسلموں کو مسلمان بنانے کی کوشش نہ کی۔

قرآن میں بے شمار آیات ہیں جن میں یہی چیز دہرائی گئی کہ خدا حدود اﷲ سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اسلام کا بنیادی نظریہ حیات تمام دیگر ادیان میں صرف آزادی دینا ہی نہیں بلکہ سیاسی نظام اور معاشرتی ماحول میں ان کی مکمل حفاظت کا انتظام بھی ہے۔ فلسطین کی فتح کے وقت عین نماز کے موقع پر اگرچہ بطریق نے آپ کو گرجا میں نماز ادا کرنے کی اجازت دی، لیکن آپ نے مستقبل میں گرجے کو مسجد میں جواز بنانے کے پیش نظر نماز ادا نہ کی۔ آپؐ نے اپنی زندگی میں ایک عیسائی وفد کے اراکین کو اپنی مسجد میں عبادت کرنے کی اجازت دی۔

اس پر انھوں نے کہا کہ ہماری عبادت میں موسیقی کا استعمال ہوتا ہے اور ممکن ہے کہ آپ کے خیال میں مسجد میں یہ چیز مناسب نہ ہو، لیکن اس کے باوجود آپ نے ان کو اپنے طور پر نماز ادا کرنے کی اجازت دی۔ کیا کوئی ایسا روادار اور فراخ دل پیغمبر دوسرے مذاہب و عقائد کے خلاف کسی قسم کی سختی اور تنگ نظر رکھ سکتا تھا۔ راجہ داہر کے زمانے میں محمد بن قاسم نے جب فتح حاصل کی، اس وقت محمد بن قاسم نے ہندوؤں کی مذہبی عبادت گاہوں کے سلسلے میں اعلان کر دیا کہ ’’نہ ان کے مندروں اور عبادت خانوں میں کسی قسم کی مداخلت کی جائے گی‘‘۔ مورخین نے لکھا ہے کہ ’’محمد بن قاسم اور اس کے عہد کے مسلمان گورنروں نے ملک سندھ میں ہندوؤں کے مندروں کے لیے بڑی بڑی جاگیریں وقف کیں‘‘۔

مشہور سیاح کپتان ہملٹن اپنے سفرنامے میں لکھتا ہے کہ ’’ہندوستان کی مسلم حکومت کے پارسی بھی اپنے رسوم مذہب رزشت کے بموجب ادا کرتے ہیں‘‘۔ شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر حاکم بنارس ابوالحسن کے نام اپنے خط مورخہ 35 جمادی الاول 1065 میں تحریر فرمایا ’’ہماری پاک شریعت اور سچے مذہب کی رو سے یہ ناجائز ہے کہ غیر مذہب کے قدیم مندروں کو گرایا جائے۔ اطلاعات یہ موصول ہوئی ہیں کہ ہندوؤں کے مذہبی معاملات میں دخل دیتے ہیں۔ لہٰذا حکم یہ دیا جاتا ہے کہ آئندہ کوئی شخص ہندوؤں اور برہمنوں کو کسی وجہ سے بھی تنگ نہ کرے‘‘۔

تاریخ عالم اور تاریخ اسلام اس بات کی گواہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ حسن سلوک کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ عالمگیر تہذیب کے قیام کے لیے اسلام نے دور عروج میں جو تدبیریں اختیار کیں ان کی تفصیل یہ ہے۔ داعی اعظم محمدؐ نے تمام ماننے والوں کو آپس میں بھائی اور امت واحد قرار دیا: ’’الناس کلھم اخوۃ‘‘ سب لوگ بھائی بھائی ہیں۔ ایک حدیث میں آپؐ نے فرمایا ’’انھم امۃواحدۃ‘‘ ۔ ’’یعنی وہ سب ایک امت ہیں‘‘۔ اول الذکر حدیث میں لفظ ’’الناس‘‘ کا تذکرہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ پوری انسانیت کے رسول اور اقوام عالم کے لیے رحمت ہیں۔ لفظ ’’الناس‘‘ قرآن میں 241 مرتبہ پایا جاتا ہے۔ اس لیے اس وقت اسلامی تہذہب و ثقافت نہ صرف یہودیوں اور عیسائیوں بلکہ تمام دنیا والوں کی تہذیب و ثقافت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔