- لانگ مارچ، توڑپھوڑ کیسز میں عمران خان کی بریت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
- پارک لین ریفرنس سماعت؛ آصف زرداری کو اب صدارتی استثنیٰ حاصل ہے، وکلا
- انسداد انتہا پسندی؛ پولیس نے 462 سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کروا دیے
- خواتین کے حقوق کا بہانہ؛ آسٹریلیا کا افغانستان سے سیریز کھیلنے سے انکار
- کراچی؛ ایل پی جی کی دکان پر افطار کے وقت ڈکیتی، فوٹیج سامنے آ گئی
- پی ٹی آئی کا اسلام آباد میں جلسے کیلیے ہائیکورٹ سے رجوع
- پاک فوج میں بھرتی کیپٹن سمیت افغان شہریوں کو برطرف کیا گیا، وزیر دفاع
- الشفا اسپتال پر اسرائیلی حملے میں غزہ کے پولیس چیف شہید
- حماس سے لڑائی میں ایک اور اسرائیلی فوجی ہلاک؛ مجموعی تعداد 250 ہوگئی
- پی ایس ایل9 فائنل؛ عماد وسیم نے کیا تاریخ رقم کی؟
- پی ایس ایل9؛ شاداب نے اہلیہ کو ایوارڈ، ماں کو میڈل دے دیا
- 5 ہزار ایکڑ پر چارے کی کاشت، سعودی کمپنی سے معاہدہ
- بجلی 5روپے فی یونٹ مہنگی ہونے کا امکان
- ڈیجیٹل ذرائع سے قرض، ایس ای سی پی نے گائیڈ لائنز جاری کر دیں
- موبائل کی درآمدات میں 156 فیصد اضافہ
- ایچ بی ایف سی نے عوام کو سستے تعمیراتی قرضوں کی فراہمی بند کردی
- حسن اور حسین نواز کی بریت کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ
- مفت راشن اسکیم؛ عوام کی عزت نفس کا بھی خیال کیجیے
- مشفیق الرحیم، انجیلو میتھیوز کے ٹائم آؤٹ کا مذاق اڑانے لگے
- کراچی میں سی ٹی ڈی کی کارروائی، ٹی ٹی پی کا اہم دہشتگرد گرفتار
بھارتی نائب صدر نے چیف جسٹس کے خلاف مواخذے کی قرارداد مسترد کردی
نئی دہلی: بھارت کے نائب صدر وینکیانائڈو نے چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جمع کرائی گئی مواخذے کی تحریک کو مسترد کر دیا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی کے مطابق بھارتی چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف کانگریس سمیت اپوزیشن کی سات جماعتوں کے 71 اراکین کی جانب سے جمعہ کو مواخذے کے لیے تحریک جمع کرائی گئی تھی جسے بھارت کے نائب صدر اور راجیہ سبھا کے چیئرمین وینکیا نائڈو نے ماہرین سے قانونی اور آئینی مشاورت کے بعد آج مسترد کردیا ہے۔
راجیہ سبھا کے چیئرمین وینکیانائڈو کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی جانب سے جمع کرائی گئی تحریک کی ایک ایک شق اور الزامات کا بغور جائزہ لیا ہے اور اس حساس معاملے پر ماہرین سے مشاورت بھی کی گئی جس کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ چیف جسٹس کے خلاف مواخذے کی قرار داد میرٹ پر پورا نہیں اترتی اس لیے اس قرارداد کو مسترد کرتا ہوں۔
چیئرمین راجیہ سبھا نے مزید کہا کہ قرارداد میں درج پانچوں الزامات میں کی کوئی حقیقت سامنے نہیں آسکی ہے جب کے یہ الزامات عدالت عالیہ کی آزادی سلب کرنے کے مترادف ہو سکتے ہیں جو کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے اس لیے اس قرارداد کو ایوان میں بحث کے لیے نہیں لایا جاسکتا۔
دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ قرار داد ہی واحد طریقہ تھا جس کے تحت پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے سینئر ججوں کے خلاف سنگین معاملا ت کی انکوائری کو یقینی بنا سکتی ہے۔
واضح رہے کہ بھارت کے ججز انکوائری ایکٹ 1968ء کے تحت کسی بھی جج کے خلاف شکایت سامنے آنے پر لوک سبھا کے 100 یا راجیہ سبھا کے 50 ارکان تحریک پیش کر سکتے ہیں جس پر کارروائی کرتے ہوئے پرزائیڈنگ افسر تین رکنی کمیٹی تشکیل دیتا ہے جس میں دو ججز ہوتے ہیں جو ان شکایات کا تحقیقات کرتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔