پانچویں سیاسی لہر؟

محمد ابراہیم عزمی ایڈووکیٹ  اتوار 14 اپريل 2013
03332257239@hotmail.com

[email protected]

کیا آج کے پاکستان میں پانچویں سیاسی لہر چل چکی ہے؟ جس طرح تجارت کی دنیا میں کوئی چیز مقبول ہوجائے تو وہ کاروباری لہر کہلاتی ہے۔ جس چیز کی جانب لوگ تیزی سے لپکتے ہیں تو اسے ’’ہاٹ کیک‘‘ کہتے ہیں۔ جب ووٹ دینے کا وقت آتا ہے تو ووٹر ایک چیز کی تلاش کرتا ہے۔ وہ کھیل اور فلم کی طرح ہر سیاسی لیڈر میں ہیرو کو ڈھونڈتا ہے، اسے دنیا میں کوئی نہ کوئی ہیرو مل ہی جاتا ہے، کبھی وہ دلیپ کمار، راج کپور اور سدھیر کو ہیرو مانتا ہے تو کسی دور میں امیتابھ، محمد علی، ندیم اور وحید مراد کا پرستار بنتا ہے تو کبھی شاہ رخ، عامر اور سلمان کا فین بن جاتا ہے۔

سلطان راہی اور بدرمنیر بھی ایسی ہی تاریخ رکھتے ہیں۔ ہیرو کی تلاش اسے کرکٹ کے میدان میں بھی لے آتی ہے۔کبھی اسے سوبرز اور حنیف پسند آتے ہیں تو کبھی گواسکر، میانداد اور عمران تو کبھی ٹنڈولکر، انضمام اور یونس کو وہ دل دے بیٹھتا ہے۔ سیاست کی لہریں بڑی خطرناک ہوتی ہیں، عوام جس کے پرستار بن جاتے ہیں وہ بڑا ہی نہیں عظیم لیڈر بن جاتا ہے، اسی طرح اس پر ذمے داریاں بھی بڑی عائد ہوجاتی ہیں۔ حالیہ تاریخ میں نیلسن منڈیلا، مہاتیر محمد، طیب اردگان، گاندھی اور جناح کے لیے چلنے والی سیاسی لہروں نے انھیں عظیم تر بنادیا۔ جب ہم آج کے پاکستان کی بات کر رہے ہیں تو ہمیں چار لہروں کا جائزہ لینا ہوگا اور پھر دیکھنا ہوگا کہ اب پاکستان میں پانچویں سیاسی لہر چلنے کو ہے یا نہیں؟

بھٹو کی لہر پہلی سیاسی لہر تھی جو پاکستان میں چلی۔ ہم پاکستان کی سیاسی لہروں کی بات کر رہے ہیں، آج کے پاکستان کی، لہٰذا مجیب کے لیے بنگال میں چلنے والی لہر ہمارا موضوع نہیں۔ 70 میں سیاسی افق پر ابھرنے والے بھٹو کو پہلی مرتبہ پنجاب نے اپنا دل دے دیا۔ پنجاب کا سیاسی دل بھٹو کے ساتھ دھڑکنے لگا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پنجابیوں کا جنون بھٹو کو بین الاقوامی سطح کا لیڈر بنادے گا۔ ایوب کے وزیر خارجہ کے طور پر اقوام متحدہ میں بھٹو کی تقریر سے پنجاب نے بھٹو کو جانا۔ پھر کشمیر پر سخت موقف کے بعد اقتدار سے علیحدگی پر پنجاب نے بھٹو کو پہچانا۔

یوں پیپلز پارٹی کے قیام اور انتخابی مہم میں بھٹو کے گمنام امیدواروں پر اعتماد نے بھٹو کو تاریخ میں امر کردیا۔ وہ سیاسی لہر پاکستان کی پہلی لہر تھی جو ستر میں اٹھی۔ لوگ جوق در جوق ’’جئے بھٹو‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے تلوار کے نشان پر مہر لگاتے گئے۔ اس سیاسی لہر سے پاکستان نے بہت کچھ پایا اور بہت کچھ کھویا۔ اب یہ مورخ کا کام ہے کہ وہ عوام کے اس فیصلے کا پوسٹمارٹم کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ ستر میں اٹھنے والی بھٹو کے لیے لہر کو پاکستان کی منفرد سیاسی لہر قرار دیا جاسکتا ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان کے لیے سیاسی لہر۔ پہلی سیاسی لہر۔

ضیاء الحق کا اقتدار بھٹو کے چاہنے والوں کے لیے ڈراؤنا خواب ہے۔ بے نظیربھٹو اپریل 86 میں پاکستان آئیں۔ ان کے لیے عوامی حمایت بھٹو کی حمایت کا عکس تھی۔ اہل لاہور کچھ اور تو اہل کراچی کچھ اور سوچ رہے تھے۔ پاکستان کے دماغ سمجھے جانے والے شہر میں ایک لہر اٹھی۔ اس لہر کا مرکز سندھ کے شہری علاقے تھے۔ الطاف حسین کے داخلے و نوکریوں کے لیے احتجاج کو شہر قائد نے اپنے دل کی آواز سمجھا۔

لوگ جوق درجوق پتنگ کو ووٹ دینے لگے۔ کراچی و حیدرآباد میں بلامقابلہ منتخب ہونے والے میئرز ان کی مقبولیت کی ابتدا تھی۔ اگلے دو انتخابات نے اس مقبولیت کو پروان چڑھایا۔ اس کا عروج 93 میں دیکھا گیا جب قومی اسمبلی کے انتخابات کے بعد صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ کی یہ دوسری سیاسی لہر تھی جو 80 کے عشرے میں سندھ کے شہری علاقے سے اٹھی۔ تعلیمی اداروں میں داخلوں اور سرکاری ملازمتوں میں حصہ لینے کی سیاسی لہر۔ دوسری سیاسی لہر۔

نواز شریف کے لیے چلنے والی لہر کو تیسری سیاسی لہر قرار دیا جاسکتا ہے۔ 90 کا عشرہ نواز شریف کا عشرہ تھا۔ اہل پنجاب بھٹو کے بعد شریف کو اپنا دل دے چکے۔ نوے کے انتخابات میں آئی جے آئی کی کامیابی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک صنعتکار کی کامیابی تھی۔ تین سال اپوزیشن میں رہنے کے باوجود ایک بار پھر دو تہائی سے کامیابی نے کیا ثابت کیا؟ اس سے یہ ثابت ہوا کہ یہ عشرہ نواز شریف کا عشرہ ہے۔

جب صدی کا آخری برس آخری آخری مہینوں کی جانب بڑھ رہا تھا تو کمال کو زوال شروع ہوا۔ اقتدار ایک فوجی جنرل کے ہاتھ آگیا۔ ’’قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ کا نعرہ لگانے والے کہیں نظر نہ آئے۔ ستر کا عشرہ بھٹو کا، اسّی کا عشرہ الطاف کا تو نوے کا عشرہ شریف کا ثابت ہوا۔ اس سیاسی لہر نے نواز شریف کو ایک بڑا لیڈر بنادیا۔ خوشحال پاکستان کے لیے یہ تیسری سیاسی لہر تھی۔

پرویز مشرف نئی صدی میں پاکستان کے حکمران تھے۔ انھوں نے نواز شریف اور بے نظیر کو سیاست سے باہر رکھنے کی کوشش کی۔ نئی صدی کے پہلے عشرے نے سیاسی لہر کے لیے الگ علاقہ چنا۔ اب تک سیاسی لہریں میدانی علاقوں سے اٹھاکرتی تھیں۔ لاہور اور کراچی اس کا مرکز ہوا کرتے تھے۔ اکیسویں صدی کی سیاسی لہر پاکستان کے پہاڑی علاقوں سے اٹھی۔ متحدہ مجلس عمل نے صوبہ سرحد بلوچستان کے عوام کو اپیل کی۔ ڈرون حملوں کے خلاف ایم ایم اے کے واضح موقف نے انھیں کامیابی بخشی۔ یہ سیاسی لہر منفرد ہونے کا ایک اور پہلو لیے ہوئے ہے۔

یہ اتحاد یا مغربی اتحاد کی کامیابی تھی۔ اب تک بھٹو، الطاف اور شریف کی شخصیات کے کرشموں نے سیاسی لہروں کو جنم دیا تھا۔ پہلی مرتبہ قاضی حسین احمد اور مولانا فضل الرحمن کے اتحاد نے ایک عجیب لہر کو جنم دیا۔ اب تک کی تمام لہریں معاش کے گرد گھومتی تھیں۔ روٹی، نوکری اور خوشحالی کے گرد۔ پہلی مرتبہ جان کی حفاظت پر ایک موقف کو ووٹ دیا گیا۔ یہ لہر پاکستان کی سیاسی تاریخ کی چوتھی لہر کہلائی جاسکتی ہے۔

پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ اور ایم ایم اے کے بعد اب کوئی پانچویں سیاسی لہر پیدا ہوسکتی ہے؟ ستر کے بعد پاکستان کے ہر عشرے نے ایک سیاسی لہر دیکھی ہے۔ نئے پاکستان کے نعرے کو لے کر عمران خان میدان میں ہیں۔ وہ پنجاب کے میدانی اور خیبرپختونخوا کے پہاڑی علاقوں میں پرانے سیاسی کھلاڑیوں کو ٹف ٹائم دے رہے ہیں۔ اقبال کا مرد کوہستانی اور بندہ صحرائی فطرت کے مقاصد کی نگہبانی کرپائے گا؟ انصاف، خوشحالی اور کرپشن سے پاک پاکستان کے نعرے کو نوجوانوں نے پذیرائی بخشی ہے۔

وہ پرانی پارٹیوں اور پرانے سسٹم سے عاجز ہیں۔ پچھلے پانچ برسوں کی بدحالی اور تمام پارٹیوں کی اقتدار کی بس میں سواروں نے عمران کے کام کو آسان بنادیا ہے۔ ہر عشرے میں ایک سیاسی لہر کا نظارہ کرنے والے پاکستانی اس عشرے کی سیاسی لہر کا نظارہ کب کریں گے؟ اس برس یا آنے والے دو چار برسوں میں؟ ایک ہاتھ میں بیلٹ پیپر اور دوسرے ہاتھ میں مہر اس کا فیصلہ کرے گی۔ تیس سیکنڈ کا اہم وقت فیصلہ کرے گا کہ کب اٹھے گی پاکستان میں پانچویں سیاسی لہر؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔