- کراچی: ڈی آئی جی کے بیٹے کی ہوائی فائرنگ، اسلحے کی نمائش کی ویڈیوز وائرل
- انوار الحق کاکڑ، ایمل ولی بلوچستان سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب
- جناح اسپتال میں خواتین ڈاکٹروں کو بطور سزا کمرے میں بند کرنے کا انکشاف
- کولیسٹرول قابو کرنیوالی ادویات مسوڑھوں کی بیماری میں مفید قرار
- تکلیف میں مبتلا شہری کے پیٹ سے زندہ بام مچھلی برآمد
- ماہرین کا اینڈرائیڈ صارفین کو 28 خطرناک ایپس ڈیلیٹ کرنے کا مشورہ
- اسرائیل نے امن کا پرچم لہرانے والے 2 فلسطینی نوجوانوں کو قتل کردیا
- حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی مشروط اجازت دے دی
- سائفر کیس میں امریکی ناظم الامور کو نہ بلایا گیا نہ انکا واٹس ایپ ریکارڈ لایا گیا، وکیل عمران خان
- سندھ ہائیکورٹ میں جج اور سینئر وکیل میں تلخ جملوں کا تبادلہ
- حکومت کا ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان
- زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 8 ارب ڈالر کی سطح پر مستحکم
- پی ٹی آئی کا عدلیہ کی آزادی وعمران خان کی رہائی کیلیے ریلی کا اعلان
- ہائی کورٹ ججز کے خط پر چیف جسٹس کی زیرصدارت فل کورٹ اجلاس
- اسلام آباد اور خیبر پختون خوا میں زلزلے کے جھٹکے
- حافظ نعیم کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کو نوٹس
- خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں میں موسم بہار کی تعطیلات کا اعلان
- اسپیکر کے پی اسمبلی کو مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین سے حلف لینے کا حکم
- امریکا میں چاقو بردار شخص کے حملے میں 4 افراد ہلاک اور 5 زخمی
- آئی پی ایل؛ ’’پریتی زنٹا نے مجھے اپنے ہاتھوں سے پراٹھے بناکر کھلائے‘‘
بغیر آکسیجن پانی میں 13 منٹ تک رہنے والے سمندری خانہ بدوش
جکارتہ: انڈونیشیا کے قدیم قبائلی ہزاروں برس سے سمندر کے کنارے رہتے ہیں، ان کی اکثریت کشتیوں میں رہتی ہے اور وہ کسی بیرونی آلے کے بغیر 13 منٹ تک پانی کے اندر رہتے ہوئے مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں۔
یہ افراد باجاؤ قبائل سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک عرصے سے ماہرین ان پر تحقیق کررہے ہیں۔ سائنس ایک عرصے تک ان کی اس حیرت انگیز صلاحیت کی وجہ جاننے سے قاصر رہی ہے کہ آخر وہ پانی کی گہرائی میں سانس لیے بغیر کیسے رہتے ہیں۔
انڈونیشیا میں باجاؤ افراد کو سمندری خانہ بدوش بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ زیادہ تر وقت کشتیوں اور پانیوں میں ہی گزارتے ہیں۔ کیمبرج یونیورسٹی کے ماہرین نے تحقیق کرکے بتایا ہے کہ ان کے جسم کا اہم عضو یعنی تلّی (اسپلین) بقیہ افراد کے مقابلے میں 50 فیصد بڑا ہوتا ہے جو انہیں پانی میں غیرمعمولی وقت تک رہنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پِتّے کی جسامت انسانوں کی پانی میں رہنے کی صلاحیت یا ڈائیو ریفلیکس میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
انسانوں کا اہم عضو تلّی دل اور دماغ کو آکسیجن کی تقسیم میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ۔ جیسے ہی دل کی دھڑکن سست ہوتی ہے، اہم اعضا کو خون زائد مقدار میں پہنچنا شروع ہوجاتا ہے۔ اس موقع پر تلّی سکڑتا اور پھیلتا ہے اور خون کے سرخ خلیات کو زیادہ بہتر انداز میں جسم میں گردش کرنے میں مدد دیتا ہے۔ عام افراد میں ضرورت کے وقت پِتّہ آکسیجن کی 9 فیصد مقدار بڑھاتا ہے لیکن انڈونیشیائی قبائلیوں میں اس کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہے۔
تلّی اور آکسیجن پر تحقیق کرنے والی ماہر میلیسا لارڈو کہتی ہیں کہ سمندر میں طویل وقت گزارنے والی سیلز میں سے بعض کے پتے غیرمعمولی طور بڑے ہوتے ہیں، اگر اس طرح سمندری جانور زیادہ وقت پانی میں گزا رسکتے ہیں تو خود انسان بھی اس کی بدولت آکسیجن کے بغیر زیادہ دیرتک پانی میں رہ سکتے ہیں۔
کیمبرج کے سائنس دانوں نے کئی ماہ باجاؤ افراد کے ساتھ گزارے ہیں جن میں بڑوں اور بچوں کے الٹرا ساؤنڈ، خون کے نمونے اور جینیاتی سیمپل لے کر ان کا موازنہ دیگر آبادیوں کے ساتھ کیا گیا ہے۔ باجاؤ میں ایک ہی تبدیل نوٹ کی گئی جو ان کا غیرمعمولی طور پر بڑھی ہوئی تلّی بھی ہے۔
پھر ڈی این اے کے تجزیئے سے معلوم ہوا کہ یہاں کے لوگوں میں ایک جین PDE10A بہت سرگرم ہے جو تھائرائیڈ ہارمون زیادہ بنارہا ہے جس کے نتیجے میں پِتّہ بڑا ہورہا ہے۔
اس کے بعد ماہرین نے کئی افراد کے سروے کے بعد کہا کہ باجاؤ کے لوگ اوسطاً روزانہ 60 فیصد وقت پانی میں گزارتے ہیں۔ ایک غوطے میں وہ 230 فٹ یا 70 میٹر گہرائی تک پہنچتے ہیں اور وہاں 12 سے 13 منٹ تک آکسیجن کے بغیر رہتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔