ووٹرز کی ذمے داریاں

شبیر احمد ارمان  منگل 24 اپريل 2018
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام کو ایک بار پھر اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کا موقع میسر ہو رہا ہے ۔ ووٹ کی اہمیت و افادیت مسلمہ ہے ، ووٹ کے درست استعمال سے ملک وقوم کی تقدیر سنور سکتی ہے اور جذباتی استعمال سے بگڑ بھی سکتی ہے، لہٰذا ووٹرزکو اپنی قیمتی رائے دینے سے قبل تمام پہلوؤں کا بغور جائزہ لینے کے بعد کسی نتیجے پر پہنچنا چاہیے ۔

جب ملک کے کچلے ہوئے غریب عوام مفاد پرست اور خدمت پرست سیاست دانوں میں تمیزکریں اور محض شخصیت پرستی کی بنیاد پر اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے سے گریزکریں اور صرف اور صرف ملک وقوم کے وسیع تر مفادات کو مدنظر رکھ کر اپنا قیمتی ووٹ استعمال کریں۔

یادرکھیں ! ووٹ صرف بلیٹ پیپرز پر مہر لگانے کانام نہیں بلکہ ایک قسم کی شہادت ہے کہ جس امیدوار کے حق میں ووٹ کاسٹ کیا جا رہا ہے وہ شخص راسخ العقیدہ مسلم ، دین اسلام اور ملک وقوم کا سچا وفادار ومخلص ہے اور جس عہدے و رتبہ و منصب کے لیے وہ امیدوار ہے اس کی وہ اہلیت رکھتا ہے اور یہ بات ذہین نشین رہے کہ گواہی دینے والا روز قیامت جوابدہ ہوتا ہے کہ جو گواہی دی گئی تھی وہ سچی تھی یا جھوٹی ؟

وطن عزیز کی آبادی میں اچھے اور باصلاحیت لوگ موجود ہیں جو دل و جان سے اپنے اپنے شعبوں میں ملک و قوم کی خدمت کررہے ہیں اور وہ عوامی نمایندگی کے ذریعے اپنی خدمات کو وسیع کرنے کے خواہش مند بھی ہیں ۔اندھیرے میں محب الوطن نیک صالح ، ایماندار ، بے غرض اور بے لوث مخلص خوف خدا رکھنے والے لوگ ہی نئی روشنی ہیں یہی چراغ جل اٹھیں گے تو روشنی ہوگی اور یہ چراغ معاشرے کے مثبت سوچ و فکر اور درست فیصلہ سے روشن ہوسکتے ہیں ۔

جن کی روشنی سے گھٹا ٹوپ اندھیرا ختم ہوسکتا ہے اور اگر کہیں ایسا مرحلہ درپیش آئے کہ فیصلہ کرنا مشکل ہوکہ ووٹ کسے دیا جائے مد مقابل امیدوار آپ کے حقیقی معیار کے مطابق نہیں ہیں تو ایسی صورت حال میں موازنہ کا عمل اختیار کیا جائے جو سب سے زیادہ مناسب امیدوار ہوگا اسے ووٹ کاسٹ کیا جائے تاکہ کم ازکم نقصان کا اندیشہ رہے کیونکہ ووٹ قیمتی ہے اسے ہر حال میں استعمال کرنا چاہیے ،ایک عدد ووٹ کے کاسٹ کرنے یا نہ کرنے سے اچھے اور برے نمایندے کا انتخاب ہوسکتا ہے یا مسلط کیا جاسکتا ہے اور یہ بات ذہین نشین رہے کہ جس امید وار کو ووٹ دیکر ہم اپنا نمایندہ منتخب کرکے ایوانوں میں پہنچا دیتے ہیں اگر وہ وہاںجاکر اپنے ووٹرز سے کیے گئے وعدوں سے منحرف ہوجائے ۔

ملک و قوم کے وسیع تر مفادات کے برعکس کام کرنے لگے یا غلط کاموں میں مصروف ہو جائے یا غلط فیصلے و ظلم و ستم کرنے لگے تو اس قومی جرم میں ووٹرز کا بھی حصہ شامل ہوتا ہے ۔ ایک اور مسئلہ ہمارے معاشرے کو مایوس کن شرح تعلیم کا درپیش ہے۔جب کہ سچائی کو پرکھنے کے لیے مناسب علم کا ہونا شرط ہے جو درست وغلط میں امتیاز پیدا کرتا ہے چونکہ ہمارا ملک زرعی ملک ہے تین چوتھائی آبادی دیہات میں رہائش پذیر ہے جہاں عام آدمی کی نہیں بلکہ وہاں پر قائم شخصی نظام کی بات تسلیم کی جاتی ہے ۔

وہاں ووٹرز اپنی مرضی سے نہیں علاقے کی با اثر شخصیت کی پسند و ناپسند کے مطابق ووٹ کاسٹ کرنا اپنی جان کی امان تصور کرتے ہیں اور یہ غیر جمہوری عمل شہری سطح پر ٹیکنیکل انداز میں پایا جاتا ہے جب کہ ہر پاکستانی شہری کو جس کی عمر 18سال ہو یا اس سے زائد ہو خواہ وہ مرد ہو یا عورت آزادانہ طور پر اپنا ووٹ استعمال کرنے کا قانونی حق محفوظ رکھتا ہے ۔اگرچہ پورا معاشرہ جمہوریت کا شیدائی ہے مگر عملا اس کے اصولوں سے انحراف کرنا معاشرہ کا جز بن چکا ہے ۔ ہم جس مغربی جمہوریت دعویدار دکھائی دیتے ہیں ۔

درحقیقت ہم اس سے بھی کافی دور نظر آتے ہیں مغربی جمہوریت میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا مادہ ہوتا ہے جب کہ ہمارے یہاں ایک دوسرے کو برداشت کا فقدان ہے حتیٰ کہ انتخابات کے زمانے میں بھی جمہوری اصولوں کو پر تشدد ماحول میں تبدیل کردیا جاتا ہے ۔اس جانب بھی اصلاح احوال کی ضرورت ہے ۔ ہمارے یہاں امیدوار کی معیار تعلیم ، کردار اور صلاحیت کو نہیں بلکہ اس کی با اثر شخصیت اور دولت کی ریل پیل کو اعلیٰ معیار جانا جاتا رہا ہے جس کا منفی نتیجہ آج ہمارے سامنے معاشرے میں پھیلی ہوا گھٹا ٹوپ اندھیرا ہے ہمیشہ ہر آنے والے نے سبز باغ دکھائیں ہیں اور جانے والے نے اپنے گناہ و کرتوت آنے والے کے سر تھوپ دیے ہیں۔

70سالوں سے جاری و ساری یہ نا ٹک اس وقت تک جاری رہے گا جب تک قوم میں یہ شعور و آگہی نہ آجائے کہ وہ ووٹ کیوں دیتی ہے ؟ ووٹ کی اہمیت و افادیت کتنی ہے کس طرح اپنے منتخب کردہ نمایندے سے کام لیا جا سکتا ہے ؟ کس طرح اپنے نمایندے کا محاسبہ کیا جاسکتا ہے ؟

قومی غیرت و حب الوطنی سے سرشار قوم کی دیرینہ خواہش ہے کہ کشکول توڑ دیا جائے اور تقریبا ہر حکومت نے اسے توڑنے کا اعلان کیا اور کوشش بھی کی لیکن اس میں انھیں کامیابی نصیب نہیں ہوسکی اس کی کئی ایک وجوہات و رکاوٹیں ہوسکتی ہیں لیکن اس ضمن میں قومی جذبہ و ایثار و قربانی عروج پر رہی ہے اور ہے بس اب کچھ کر گزرنا چاہیے بہت ہوگیا ناز نخرے گوری چمڑی کی اب سنجیدگی سے قوم کو متحرک کرتے ہوئے کشکول توڑنا ہوگا، ورنہ دیگر احتساب اور انتخابات بے سود ثابت ہوسکتے ہیں کیوں کہ پاکستانی قوم خود مختار حکومتوں کے خواہ ہیں اگر کشکول نہیں توڑا گیا تو پاکستانی قوم اپنا ووٹ کا حق استعمال کرنے سے پہلے اتنا ضرور سوچ رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے کہ اگر کسی امیدوارکو اپنا ووٹ دیکر ایم این اے اور ایم پی اے بنا ہی دیںتو وہ کشکول کی موجودگی میں کس حد تک ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں کام کرسکے گا ؟

قوم مایوس ہے یا دانشور طبقہ مایوسی پھیلارہا ہے؟کی بحث میں پڑے بغیر اگر مایوسیوں کا سدباب کیا جائے تو قوم کو خوش رہنے کی تلقین کرنے کی باتیں وزن رکھ سکتی ہیں جب تک مایوسی پر غلبہ نہیں پایا جاتا قوم کو خوش رہنے کی تلقین کرنا بالکل ایسی بات ہوگی کہ جیسے بھوک و پیاس سے بلبلاتے ہوئے بچے کو رنگ برنگی چیزیں دکھلائی جائیں جنھیں دیکھ کر وقتی طور پر بچہ خوش تو ہوجاتا ہے لیکن اس کی بھوک و پیاس برقرار رہتی ہے ۔

قومی مایوسی کے اسباب ہمارے سامنے کھلی کتاب ہیں بس انھیں حرف غلط کی طرح مٹانا ہوگا اور یہی وقت کا تقاضا ہے آج ہر سو مایوسیوںکے گہرے بادل چھائے ہوئے نظر آتے ہیں۔ڈر ہے یہ اس قدر نہ برسیں کہ سیلاب کی صورت میں تباہی نہ مچا دیں!اس سے پہلے کہ امید کا آخری چراغ سے بھی لوگ مایوس ہوجائیں ہمیں ابھی سے روشن مستقبل کے چراغ جلانے ہوںگے لہٰذا اس بار پاکستانی قوم کو ذاتی پسند و ناپسند اور شخصیت پرستی کے خول سے نکل کر ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا ہوگا اور ایسے امیدواروںکو منتخب کرنا ہوگا جو حقیقی معنوں میں نمایندگی کا حق رکھتے ہوجن کی کارکردگی سے ملک و قوم ترقی و خوشحالی کی راہ پر تیزی سے گامزن ہوجائے ۔

اہر پاکستانی مرد و زن پر بھی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہر سطح پر ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں اپنا کردار ادا کرے اور خود احتسابی کا عمل اختیار کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارا شمار بھی ترقی یافتہ اقوام و ممالک میں نہ ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔