تمام پیچیدہ جان داروں کی ڈی این اے شناخت کا عالمی منصوبہ شروع

ویب ڈیسک  جمعرات 26 اپريل 2018
سائنس دانوں نے 15 لاکھ پیچیدہ جان داروں کے جینوم ڈرافٹ تیار کرنے کا اعلان کیا ہے جس پر کھربوں روپے کی رقم خرچ کی جائے گی (فوٹو: فائل)

سائنس دانوں نے 15 لاکھ پیچیدہ جان داروں کے جینوم ڈرافٹ تیار کرنے کا اعلان کیا ہے جس پر کھربوں روپے کی رقم خرچ کی جائے گی (فوٹو: فائل)

 واشنگٹن: امریکا کے عالمی شہرت یافتہ سائنسی تحقیقی ادارے اسمتھ سونین نے اربوں ڈالر کی لاگت سے ایک ایسے پروگرام کا آغاز کیا ہے جس کے تحت دنیا بھر کے اہم جانوروں، درختوں، پودوں، الجی، خرد نامیوں (مائیکروبز) اور دیگر جان داروں کے ڈی این اے کا مطالعہ کرتے ہوئے ان کے جینوم کا مکمل ڈیٹا تیار کیا جائے گا۔

’’ارتھ بایو جینوم‘‘ پروگرام کو حیاتیاتی تاریخ کا ایک اہم ترین منصوبہ قرار دیا جارہا ہے جس پر 4 ارب 70 کروڑ ڈالر کی خطیر رقم خرچ ہوگی۔ دنیا بھر میں سائنس دانوں کی 24 ٹیمیں اس پروگرام پر کام کریں گی اور مجموعی طور پر 15 لاکھ جان داروں کا جینیاتی ڈیٹابیس ’زندگی کی لائبریری‘ کا حصہ بنے گا تاہم اس کام میں کم ازکم 10 سال لگ سکتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق ارضی حیاتیاتی جینوم پروجیکٹ سے ہمیں انسانیت، زمین، جان داروں اور موسمیاتی تبدیلیوں جیسے کئی پہلوؤں کو جاننے میں مدد ملے گی اور ان معلومات کی روشنی میں زمین پر حیاتیاتی تنوع اور زندگی سے جڑے تمام مسائل سے بھی آگاہی حاصل ہوگی۔

اب تک ہم 2600 سے بھی کم جانوروں کے جینوم کو جان سکے ہیں جو حیاتیاتی رنگارنگی (بایو ڈائیورسٹی) کا صرف 0.2 فیصد حصہ بناتے ہیں جبکہ 10 سے 15 لاکھ جان دار ہمارے منتظر ہیں کہ ہم ان پر بھی تحقیق کرسکیں اور اسی بنا پر اس پروجیکٹ کو بہت اہم قرار دیا جارہا ہے۔

اگرچہ اس کی تجویز چند برس قبل کچھ سائنس دانوں نے پیش کی تھی تاہم اس وقت یہ منصوبہ شروع نہیں کیا جاسکا تھا۔ اسمتھ سونین میوزیم آف نیچرل ہسٹری سے وابستہ حیاتیات داں ڈاکٹر جان کریس کہتے ہیں کہ اپنی تکمیل کے بعد یہ منصوبہ زندگی کے ارتقاء اور انسانوں کےلیے حیاتیاتی تنوع (بایو ڈائیورسٹی) کے فوائد کو بھی واضح کرے گا۔

زمین پر جان داروں کے ارتقاء کی جینیاتی وجوہ اور سیارے پر زندگی کے تانے بانے کو سمجھنے کےلیے بھی یہ منصوبہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ جان داروں اور قیمتی حیاتیات کے تحفظ کی راہ بھی ہموار ہوگی لیکن اس سے ہٹ کر نئی ادویہ کی تیاری، نئے ماحول دوست ایندھن، غذائی ذرائع اور دیگر اہم پہلوؤں پر بھی کام آگے بڑھے گا۔

زمین پر ہماری اور جان داروں کی بقا کےلیے انتہائی ضروری اس منصوبے میں 24 اہم شعبہ جات کے ماہرین کام کریں گے جو امریکا، چین، افریقا، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا اور یورپی یونین سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک بہت مشکل اور مہنگا ترین منصوبہ ہے لیکن تمام سائنس دانوں نے اس امر پر اتفاق کیا ہے کہ مزید تاخیر سے سیارہ زمین کی فطری حیات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔