بہادر کمانڈروں کی داستانِ شجاعت

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 25 اپريل 2018
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

لیفٹیننٹ جنرل (ر)طاہر محمود قاضی اونچے لمبے، شریف النفس اور پڑھے لکھے انسان ہیں،چند سال پہلے جب وہ ملائیشیا میں پاکستان کے سفیر تھے اور میں گوجرانوالہ میں ڈی آ ئی جی،تو ہمیں ان کی مدد کی ضرورت پڑگئی، انھوں نے بے حد دلچسپی لے کر ہماری مدد کی (اس کی تفصیل پھر کبھی لکھونگا) اور ہم اپنا ہدف حاصل کر نے میں کامیاب ہوگئے۔چند روز پہلے جنرل صاحب میرے دفتر تشریف لائے اور کہنے لگے’’میں آپ کے لیے ایک تحفہ لایا ہوں‘‘میں نے بڑے تجسّس سے پوچھا ’’وہ کیا ہے ؟‘‘ انھوں نے مجھے ایک کتاب تھماتے ہوئے مصنف اور کتاب کا مختصر پس منظر بھی بتایا۔

“The Stolen Victory” کے مصنف بریگیڈئیر سلطان احمد پاک فوج کے بہادر اور جری افسر تھے، انھوں نے1965 اور1971کی پاک بھارت جنگوںمیں بڑے دلیرانہ کا رنامے انجام دیے جنکے اعتراف میں انھیں دومرتبہ ستارۂ جرات دیاگیا، 1971 میں سابق مشرقی پاکستان میں حا لا ت خراب ہوئے تو انھیں31 بلوچ رجمنٹ کی کمان سونپ کر مشرقی پاکستان میں انڈین بارڈر کے قریب  تعینّات کیاگیاان کا یونٹ ہیڈکواٹِر ضلع میمن سنگھ کی تحصیل جمال پورکے پاس تھا،جسکی FDLپوسٹیں کمال پور اورنقشی پاک بھارت سرحد کے عین اوپر تھیں۔

1971کی جنگ پر بیسیوں کتابیں لکھی گئی ہیں جو زیادہ تر دورسے تماشہ دیکھنے والوںیا پیشہ ور قلمکاروں نے لکھی ہیں، بہت سی کتابوں میں پاکستانی فوج کے نام نہاد ’’مظالم ‘‘ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے جوحقائق کے برعکس ہے ۔جنگ کا نتیجہ اسقدر بھیانک تھا اور ہزیمت اسقدر ھولناک تھی کہ فوج کے جونیئر افسروں کی شجاعت اور بہادری کے کارنامے اس سانحۂ عظیم کے گرد میں گم ہوگئے اور سکتے  اورصدمے سے دوچار قوم کئی سال تک ایسی داستانیں سننے کے لیے تیار نہ ہوئی ۔لیکن فوجی جوانوں کی بے مثال شجاعت کے یہ سچے واقعات بھی دنیا کے سامنے آنے چاہئیں۔میں بھی اوربہت سے اور لوگ بھی دریافت کیا کرتے تھے کہ کیا ہماری فوج بالکل لڑی ہی نہیں؟کیاساری فوج ہی شکست تسلیم کرلینے اور ہتھیار ڈالنے کے حق میں تھی؟ میرے خیال میں یہ پہلی کتاب ہے جو جنگ لڑنے والے اُس شخص نے لکھی ہے جو جنگ کا عملی کردار تھا ،جودُشمن کے حملے سہتابھی رہااور دُشمن کے خلاف حملے کرتابھی رہا۔

میں ویک اینڈ پر گاؤں آیا تو کتاب ساتھ لے آیااور دودنوں میں کتاب ختم کرکے ہی اٹھابلکہ یوں کہنا زیادہ درست ہے کہ کتاب نے اٹھنے ہی نہیں دیا،اوراُسوقت ہی اٹھ سکا جب آخری صفحے کی لائنیں ختم ہوگئیں اورمجھے بہت سے سوالوں کے جواب مل گئے۔

مصنف کواس حقیقت کا پوراادراک ہے کہ جنگ تباہی اور بربادی لاتی ہے،اورعظیم انسانی المیّوں کو جنم دیتی ہے،  اس لیے جنگ ایک قابلِ نفرت سرگرمی ہے مگریہ ناپسند یدہ فعل ختم نہیں ہوسکتا۔71کے بعد بھی جنگیں ہوتی رہی ہیں اورآج بھی ہو رہی ہیں ۔ جب تک انسانوں میں کمزور کے وسائل پر قبضہ کرنے اور غلبہ حاصل کرنے کا رجحان موجود رہیگا جنگیں ہوتی رہیں گی۔

مشرقی پاکستان میں بلاشبہ پاک فوج کے لیے حالات بڑے نامساعد تھے، پاک فضائیہ کی سپورٹ ختم ہو چکی تھی۔ بھارتی فوج کے کمانڈر پاکستانی فوج کے پاس وسائل کی کمیابی سے آگاہ تھے، اس لیے وہ جنگ کے دوران بھی بھارتی جارحیّت کی مزاحمت کر نے والے فوجی کمانڈروں کو بد دل کرنے، مزاحمت چھوڑ دینے اور سرنڈر کر نے پر اکساتے رہے، مصنف لکھتے ہیں کہ 9دسمبر کے روز انڈین پوسٹ کی جانب سے سول کپڑوں میں ملبوث ایک شخص آتا ہوا نظر آیاجسے ہمارے فوجی پکڑ لائے،اُس کے پاس ایک خط تھا جو بھارتی بریگیڈ کمانڈرہردیو سنگھ کلیر نے 13بلوچ کے سی او کو لکھا تھا۔

بھارتی بریگیڈیئرنے لکھا ’’تمہاری یونٹ ہر طرف سے گھِرچکی ہے اور تمہارے لیے بچ کر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ۔پوری بریگیڈ کا توپخانہ تیار ہے جو کل صبح تم پر گولے برسانا شروع کر دیگا۔تم نے ہماری فضائیہ کی ہلکی سی بمباری کا بھی مزہ چکھا ہے مگر تمہاری یونٹ پر حملے کے لیے چالیس ِمگ طیارے مجھے الاٹ کر دیے گئے ہیں۔تمہارے لیے اب امید کی کوئی کرن نہیں ہے، تمہاری سینٹر کمانڈنے تمہیںپہلے ہی بے یارو مدد گار چھوڑ دیاہے۔تمہاری طرف سے آج شام ساڑھے چھ بجے تک جواب آنا چائیے ور نہ ہم تمہاری یونٹ کو توپوں اور جہازوں کی بمباری سے تباہ کرنے پر مجبور ہوں گے۔31بلوچ کے کمانڈر نے خط پڑھکر فوراًقلم اور کاغذ منگوایااور جواب لکھا،ڈئیر بریگیڈیئر!ہم یہاں جمال پور میں لڑائی شروع ہونے کا انتظار کر رہے ہیں، لڑائی تو ابھی شروع ہی نہیں ہوئی ۔لہٰذاباتیں چھوڑ کر لڑائی کی طرف آئیں۔ آپ نے فضائی بمباری کا ذکر کیاہے،پاکستانی شیروں کے حوصلے پست کرنے کے لیے چالیس مِگ طیّارے تو کچھ بھی نہیں، اس سے کئی گنا زیادہ بھی منگوالیں تو بھی ہماراکچھ نہیں بگاڑ سکتے۔پاکستانی کمانڈرنے بھارتی کمانڈر کو جواب کے ساتھ مشین گن کی گولی بھی بھیج دی۔

31بلوچ کے کمانڈنگ آفیسر نے کتاب میں اپنے نوجوان کمانڈروں کا تعارف کروایا ہے جن میں خاص طور پر میجرمحمد ایوب ،کیپٹن جاوید جلال الدین ،کیپٹن توقیر قمر،کیپٹن احسن صدیق ،لیفٹیننٹ منیر احمد بٹ…ایک سے بڑھ کر ایک تھامگر 26سالہ اونچالمبا،پھرتیلا،ذہین اسپورٹس مین میجر ایوب اپنی بہادری ،شجاعت، قربانی کے جذبے جوانوں سے وفاداری ،خلوص اور وطن سے محبّت کے باعث بے مثال تھا۔اس کے دل میں خوف نام کی کوئی چیزنہ تھی اُس نے بڑے مشکل اورخطرناک آپریشن کا میابی سے مکمل کیے اور دشمن کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔وہ شجاعت اور بہادری میں ضرب المثل بن چکاتھاجسکے قصیّ پورے مشرقی پاکستان میںپھیل چکے تھے حتّٰی کہ دشمن بھی اس کی بہادر ی کا معترف تھا۔وہ بلاشبہ سُپرمین کی طرح کاایک افسانوی کردار تھا۔

میجرایوب کی بے مثال بہادری کے اعتراف میں اسے ’ Sword of 31 Baloch‘ کہا جاتاتھا۔ جب ایک انتہائی مشکل اور خطرات سے بھرپور آپریشن مکمل کرکے اُس نے سب کو حیرت زدہ کردیاتویونٹ کے کمانڈنگ آفیسرنے ملک کے اس قابلِ فخرسپوت کے لیے نشانِ حیدر کی سفارش کی ۔بعد میں ایک آپریشن کے دوران میجر ایوب شہید ہو گئے تو کمانڈنگ آفیسر کے بقول ایسے لگا کہ یونٹ پر آسمان گر پڑا ہے۔اپنے اس محبوب کمانڈر کی شہادت کے بعد یونٹ کا ہر فرد اپنے آپ کو ایوبین کہنے لگا، کیپٹن احسن کی جرأت اور فولادی عزم کا اعتراف تو انڈین آرمی جنرل مانک شاء نے بھی کیا۔ بی بی سی کو انٹر ویودیتے ہوئے انھوں نے کہا ’’ کمال پور چوکی پرہمارے تمام پر حملے نوجوان کیپٹن احسن کاحوصلہ پست نہ کر سکے ۔۔۔۔ہم اس کی دلیری اور آہنی عزم کا اعتراف کرتے ہیں ۔۔۔۔میں نے کتاب پڑھ کر پوچھا جنرل صاحب !ان بہادر کمانڈروں سے میںکہاں مل سکتاہوں؟ کہنے لگے کیپٹن احسن حیات ہے اور اسلام آباد میں مقیم ہے ،میں کسی روز اسے آپ کے پاس لے آؤنگا میں  نے کہا نہیںمیںخودجاکر اس بہادر کمانڈرکو سلیوٹ کرنا چاہتا ہوں۔

مجھے اس کا فون نمبر بھیج دیں ۔فون کیاتو آواز آئی میںکرنل احسن بول رہا ہوں۔میں نے پوچھا کمال پور پوسٹ والے کیپٹن احسن ؟جواب آیا سر وہی !میں پی آئی اے میں آپ کے ماتحت بھی رہ چکاہوں۔ جب آپ جنرل مینجرسیکیوریٹی تھے تو میں مینجر کراچی تھا، ’’کل جب کرنل احسن نے اپنے گھر کے دروازے پر مجھے ریسیو کرتے ہوئے کہا سر !میں خود آ جاتاتو میں نے کہا ’’ میں پی آئی اے والے کرنل احسن سے ملنے نہیں آیا میں کمال پور کے کمانڈر کیپٹن احسن کو سیلیوٹ کرنے اورپھول پیش کرنے آیا ہوں‘‘۔

سابق مشرقی پاکستان میں فوج کے تربّیت یافتہ ریگولر سولجر ز کی تعداد کم تھی اس لیے (جسطرح ہرجنگ میں ہوتا ہے)وہاںبھی فوج کے لیے رضا کاروں (volunteers)کی ضرورت پڑی جوپاکستانی فوج کے ساتھ ملکر ارضِ وطن کا دفاع کرسکیں۔تو کیا عوامی لیگ کے نوجوان فوج کی حمایت میں آگے آتے؟وہ تو پاک فوج اور غیر بنگالیوں پر گولیاںچلارہے تھے۔کیالادین عناصردفاع وطن کے لیے آگے آتے؟وہ توپاکستان کی بنیاد اور نظریئے کے ہی خلاف تھے۔ لہٰذااسلامی ذہن رکھنے والے نوجوان آگے آئے انھوںنے البدر کے نام سے تنظیم بنائی،فوج نے انھیں تربیت دی اور وہ اپنی فوج کے ساتھ ملکر اپنے وطن کا دفاع کرتے رہے،کئی فوجی افسروں کی طرح بریگیڈیئر سلطان احمد نے بھی البدر کے رضاکاروں کی مدد کی کھل کر تعریف کی ہے۔

مصنف نے واضح طور پر لکھا ہے کہ ’’فوج کے نوجوان اور جونیئر افسرتو ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اور ملکی وقار اور آزادی کے تحفّظ کے لیے لڑنے اور اپنی جانیں دینے کے لیے تیار تھے لیکن اُسوقت کے سینیئر جرنیلوں میں حرص، ھوس، بزدلی اوربدترین اخلاقی کمزوریاں تھیں ایسے بدکردار لوگ اعلیٰ کمان تک کیسے پہنچ جاتے ہیں، اس پر حکومت اور جی ایچ کیو کو ضرور غور کرناچائیے‘‘۔

بریگیڈیئرسلطان احمد بتاتے ہیں کہ’’15دسمبر (سرنڈر سے ایک روز قبل)کی شام انڈین بمبار طیّاروں نے ا یسٹر ن کمان ہیڈکوارٹرز پر بمباری کی لہٰذااس خدشے کے پیشِ نظر کہ کہیں ہائی کمان حوصلہ چھوڑکر سرنڈر پر تیار نہ ہو جائے، میںنے ایک تحریری رپورٹ بھیجی کہ ‘‘دریائے تنگی پر حفاظتی انتظامات مکمل ہیں، دشمن کسی صورت میں دریائے تنگی عبور نہیں کر سکے گا۔میں خود تنگی کے بڑے پل پر موجود ہوں ۔مگر کچھ دیر بعد معلوم ہوا کہ ہائی کمان نے سرنڈر کا فیصلہ کرلیاہے حالانکہ ڈھاکا کا کئی مہینوں تک دفاع کیا جاسکتاتھا۔

یہ بات بلاشبہ اطمینان بخش ہے کہ ہماری فوج میں بریگیڈیئرسلطان احمد،بریگیڈیئرسعداللہ ،میجر ایوب ،کیپٹن احسن،کیپٹن جاوید جلال الدین جیسے نڈر دلیر اور فرض شناس محافظ موجود ہیں جو وطنِ عزیز کی سرحدوں کی حفاظت کی پوری صلاحیّت رکھتے ہیں مگر دل یہ سوچ کرڈوبنے لگتاہے اور خدشات یہ سوچ کر گھیر لیتے ہیںکہ جہاں وطن پر قربان ہونے والے بہادر سپوت موجود ہیں وہاں پھر کوئی یحییٰ اورنیازی جیسے بد کردار اور اقتدار کی ہَوس میں ڈوبے ہوئے جرنیل اپنے بہادر سپوتوں سے ان کی فتح نہ چھین لیں ۔

کون نہیں جانتا کہ مسلم لیگ کی بنیاد بنگال میں رکھی گئی اور تحریکِ پاکستان کا پرچم بھی سب سے پہلے بنگالی رہنماؤں نے اٹھایا،پاکستان کے بانیوں کی اولاد اپنے بزرگوں کا لگایا ہوا پودااپنے ہاتھوں سے ہی کا ٹنا چاہتی تھی؟ہمارے بنگالی بھائی اپنے ہاتھوں سے لگائے ہوئے چمن کو برباد کرنے پر کیوں تیار ہوگئے؟ یہ سوال ہمیشہ دل و دماغ میں کھٹکتا رہا۔

جس روزThe Stolen Victory” “ملی اس سے گزشتہ روز مجھے سابق فیڈرل سیکریٹری جناب مسعود مفتی نے اپنی کتاب ’’چہرے اور مہرے ‘‘ دے دی۔ کچھ سوالوں کے جواب بریگیڈیئرسلطان احمد کی کتاب اور کرنل احسن صدیق کی گفتگوسے مل گئے۔ مگر کچھ بنیادی سوالوں کے جواب ملنا باقی تھے، وہ مشرقی پاکستان میں تعینّات نیک نام افسر مسعود مفتی کی کتاب نے دے دیے۔اِس پر اگلے کالم میں  بات ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔