اتائیت کا خاتمہ ہوسکے گا؟

علی احمد ڈھلوں  بدھ 25 اپريل 2018
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

لاہور سے اسلام آباد براستہ موٹروے سفر کریں تو راستے میں سرگودھا ڈویژن کے ایک وسیع علاقے سے گزر ہوتا ہے۔ اسی راستے سے چند ماہ قبل سرگودھا شہر جانے کا اتفاق ہوا ، ہمارے ایک دوست جو وہیں کے رہائشی بھی ہیں نے اصرار کیا کہ کوٹ مومن انٹرچینج سے ہم موٹر وے سے نیچے اتریں گے اور وہاں سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ایک خوبصورت گاؤں’’کوٹ عمرانہ‘‘ جائیں گے، وہاں کچھ دیر قیام کے بعد شہر جائیں گے۔

کوٹ عمرانہ پہنچے تو وہاں چوہدری اکرم نمبردار سے ملاقات ہوئی، دوپہر کا وقت تھا، کھلی فضا اور تازہ ہوا،سرسبز فصلیں،یہ ماحول روح کو تازہ کر رہا تھا۔ لیکن چوہدری اکرم پریشان دکھائی دیے،انھوں نے بتایا کہ اس گاؤں میں ڈیڑھ سو سے زائد لوگوں کو ایڈز ہے۔ ہم ہکا بکا رہ گئے۔ نمبردار نے بتایا کہ یہ مرض گزشتہ تین چار سال سے ہمارے گاؤں میں موجود تھا ، گزشتہ سال بھی اس بیماری سے 2سو لوگ لقمہ اجل بنے، ہم نے وزیر اعلیٰ کو خط لکھا ، محکمہ صحت کو خیال آہی گیا، یہاں سے خون کے نمونے ڈسٹرکٹ اسپتال سرگودھا بھیجے گئے جہاں سے ایڈز کی تشخیص ہوئی، پھر پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام کی جانب سے کیمپ لگا اور پتہ چلا کہ سو سے زائد لوگوں کو ایڈز ہے۔ یہ بتاتے ہوئے نمبردار کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ نمبردار صاحب نے بتایا کہ یہ بیماری ہمارے علاقے میں اپنوں کے ہاتھوں سے ہی پھیلی ہے۔

پہلی دفعہ اس بیماری کے تشخیص ہونے کے بعد مختلف اداروں نے یہاں تحقیق کی اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ ایڈز کے پھیلاؤ میں دو لوگ قصور وار ہیں، ایک وہ عطائی ڈاکٹر جو خود بھی ایڈز سے ڈیڑھ سال پہلے مرگیا تھا اور دوسرا گاؤں کا نائی جو ’’سیپی‘‘ یعنی سالانہ اُجرت پر لوگوں کی حجامت کرتا اور شیو بناتا ہے۔ نمبر دار صاحب نے بتایا کہ آس پاس گاؤں میں کہیں کوئی ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے لوگ عطائی ڈاکٹر کے پاس ہی جاتے تھے۔ جو لوگوں کو ایک ہی سرنج سے انجیکشن لگاتاتھا، پھر نیلی پیلی گولیاں دے کر کسی سے پیسے وصول کرتا اور کسی سے سالانہ اُجرت کی شکل میں گندم وغیرہ لے لیتا تھا۔ عجیب بات یہ تھی کہ وہ پیشے کے لحاظ سے نائی تھا، اور شاید مڈل پاس تھا، بس وہ خود تو اس بیماری سے مرا ہی ساتھ سیکڑوں گاؤں والوں کو بھی لے ڈوبا۔انھوں نے بتایا کہ ان کے گاؤں یا قریبی دیہات میں کوئی ڈسپنسری تک موجود نہیں۔ قریب ترین ایک بنیادی صحت کا مرکز بچہ کلاں میں ہے جو گاؤں سے چند کلو میٹر دور ہے۔

ایسے میں چھوٹی موٹی تکالیف کی صورت میں لوگ کوشش کرتے ہیں کہ اس ’’نائی ڈاکٹر‘‘کے پاس ہی چلے جائیں۔ پھر ہمیں نمبردار نے چند گھروں کی نشاندہی بھی کرائی جن کے پیارے اس مرض سے مر گئے تھے۔اور پھر وہاں سے نمبردار ہمیں ایک گھنٹے  سے زائد کی مسافت طے کرکے ڈسٹرکٹ اسپتال سرگودھا لے گئے جہاں ہڈیوں کا ڈھانچہ بنے چند لوگوں دکھائے جن کی عمریں 30سے 35تھیں۔ جنھیں ابتداء میں کہا گیا تھا کہ انھیں ٹی بی ہے یا ہیپاٹائٹس ! یہ حال سرگودھا کے نواحی علاقوں کا ہی نہیں بلکہ ہمارے ملک میں موجود 10ہزار سے زائد چھوٹے بڑے گاؤں اور قصبوں کا ہے ۔ ان علاقوں میں لوگوں کے ان پڑھ ہونے کا فائدہ اُٹھا کر کچھ لوگ جو سا ل دو سال کسی کوالیفائڈ ڈاکٹر یا حکیم کے پاس کا م کرتے ہیں اور پھر اپنا کلینک کھول لیتے ہیں۔ یا کسی ہو میومیڈیکل کالج میں داخلہ لے لیتے ہیں اور دو چار ماہ کے بعد کالج والے ان لوگوں کو پریکٹس کی اجازت دے دیتے ہیں لیکن وہ ہومیو کے ساتھ ساتھ ایلوپیتھک کی دوا بھی فروخت کرتے ہیں۔

سرکاری میڈیکل آفیسر ان پر چھاپے مارتے ہیں، پکڑے جاتے ہیں، کچھ لے دے کر معاملہ ٹھپ ہو جاتا ہے۔ اب جب کہ آج کل صوبہ پنجاب میں چیف جسٹس کے حکم پر ان عطائیوں کے خلاف زبردست مہم جاری ہے۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کی عطائیوں کے خلاف جاری مہم اور رپورٹوں کو دیکھ کر فوری حکم جاری کیا ہے کہ ایک ہفتے کے اندر اندر پورے ملک میں عطائیوں کو گرفتار کرلیا جائے اور انھیں رپورٹ دی جائے۔ خیر ایک ہفتے میں تمام عطائیوں کو گرفتار کرنا ممکن نہیں البتہ کچھ عرصہ میں سارے عطائی گرفتار کیے جاسکتے ہیں۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں چار لاکھ عطائی ہیں اور دو لاکھ ڈاکٹرز ہیں۔

ملک کی گلی گلی میں عطائی موجود ہیں ۔ اس حوالے سے فیصل آباد پہلے نمبر پر ہے جہاں 22 ہزار 500 عطائیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ لاہور دوسرے نمبر پر ہے جہاں 14ہزار 500 عطائی ہیں اور ساہیوال تیسرے نمبر پر ہے جہاں 14ہزار عطائی پریکٹس کر رہے ہیں۔ جو ہیپاٹائٹس بی، سی اور ایڈز اور کئی دیگر خطرناک بیماریاں ایک مریض سے دوسرے مریض کو منتقل کر رہے ہیں۔ اس وقت سب سے زیادہ بیماریاں پھیلانے کا باعث عطائی اور خصوصاً عطائی ڈینٹل سرجن ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔