کراچی کے لوگ کس سے شکوہ کریں؟

ڈاکٹر منصور نورانی  بدھ 25 اپريل 2018
mnoorani08@gmail.com

[email protected]

کراچی اِس ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اِس شہر میں اردو بولنے والوں کے علاوہ ہر زبان اور علاقے کے لوگ کثیر تعداد میں رہتے ہیں۔کبھی یہ شہر امن و آشتی کی آماجگاہ تھا۔ پٹھان، پنجابی، بلوچی، سندھی اور مہاجر سب مل جل کر رہا کرتے تھے ۔کسی کوکسی کی ذات سے کوئی دشمنی نہ تھی، بلکہ یہ لوگ اپنے بچوں کی شادیاں بھی ایک دوسرے کے گھرانوں میں کر دیا کرتے تھے، لیکن نجانے پھر کیا ہوا اِس کوکسی کی نظر لگ گئی۔ یہ شہر قتل وغارت گر ی، دہشتگردی، چوری اور ڈکیتیوں کی نذر ہوگیا۔

جن لوگوں نے کراچی شہر کی شناخت اور خدمت کے نام پر ووٹ حاصل کیے انھوں نے ہی اِس شہر کو تباہ و برباد کرڈالا۔ شہرکے تقریباً تیس قیمتی سال ضایع ہوگئے اور یہ شہر ترقی وخوشحالی حاصل کرنے کی بجائے ملک کے دیگر شہروں سے بہت پیچھے رہ گیا۔ یہاں لوگوں کے مسائل تو کیا حل ہوتے پہلے سے موجود سہولتیں بھی ختم ہو کر رہ گئیں۔ لوگوں کا کاروبار اور بزنس ٹھپ ہوکر رہ گیا۔ آئے دن کے احتجاج اور ہڑتالوں نے روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے اور روزگار حاصل کرنے والوں سے دو وقت کی روٹی بھی چھین لی۔ دس دس اور بارہ افراد روزانہ قتل کردیے جاتے تھے، کسی دن اگر یہ تعداد کم ہو جائے تو حیرانی ہوا کرتی تھی۔ سو سو گاڑیاں، موٹر سائیکلیںاور موبائل فونزکا چھینا جانا ایک معمول کی بات تھی۔ ہر ہفتے ایک خونی احتجاج ضرور ہوا کرتا تھا۔ یہاں کے مسائل سے حکمرانوں کی عدم دلچسپی بے اعتنائی اور بے شرمی کی آخری حدوں کو چھو رہی تھی۔

کوئی پر سان حال نہیں تھا۔ وزیر داخلہ دس دس شہریوں کی ہلاکت کو بڑے شہروں کا معمول قرار دے رہے تھے۔ انھیں یہ آپس کے خاندانی جھگڑے اور عشق و محبت کے افسوسناک انجام معلوم ہو رہے تھے۔ وہ یہ تسلیم کرنے پر قطعاً رضامند ہی نہ تھے کہ اُن کی ناقص کارکردگی نے اِس شہر کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ وہ زرداری صاحب کے حکم پر آئے دن نائن زیرو ضرور پہنچ جایا کرتے تھے، لیکن شہر کو امن وامان دینے کے لیے نہیں بلکہ وفاق میں اپنی حکومت بچانے کے لیے۔ وہ یہ مشق کہن با قاعدگی سے ادا کیا کرتے تھے۔ انھیں کراچی کے شہریوں کے مسائل اور مصائب سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔

کراچی شہر کو اگر کسی کی کوششوں نے امن دیا تو ہمیں تمام اختلافات کے باوجود یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ میاں صاحب کی کوششوں اورکاوشوںکے نتیجے میں ہی ممکن ہو پایا ہے۔ کراچی شہر سے میاں صاحب کوگزشتہ انتخابات میں خاطر خواہ تعداد میں ووٹ نہیں ملے لیکن انھوں نے اِس کی پرواہ کیے بغیر یہاں امن و امان قائم کرنے کے لیے نہ صرف اپنی نیتوں اور اپنے مصمم ارادوں کا اظہارکیا بلکہ حقیقت میں یہ کرکے بھی دکھایا۔ ہماری عسکری قیادت نے بھی بلاشبہ اِس ضمن میں اُن کی بھر پور مدد کی اور یہ ایک مشکل ٹارگٹ کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ میاں صاحب سے پہلے بھی اِس ملک میں سارے ادارے اور قوتیں موجود تھیں لیکن سوچنا یہ ہے کہ پھرکیوں کامیابی حاصل نہ ہوئی۔

جس طرح سارے ملک سے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے حکومتی اورعسکری اداروں نے 2013ء کے بعد مل جل کر جب یہ طے کیا کہ ہمیں ہر صورت میں یہ مسئلہ حل کرنا ہے تو ہم سب نے دیکھا کہ صرف دو سال میں یہ سب کچھ ممکن ہوگیا۔ جب ارادے اور نیتیں صاف ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمیں کامیابی حاصل نہ ہو۔ بالکل اِسی طرح جب میاں صاحب نے کراچی شہرکو بھی اُس کا امن واپس لوٹانے کا تہیہ کیا تو پھر اُسے کرکے بھی دکھایا۔ آج کراچی میں پہلے کی طرح مکمل امن قائم ہو چکا ہے ۔ لوگ بے خوف وخطرگھوم پھر رہے ہیں، اپنا کاروبارکر رہے ہیں۔ یہاں اب کوئی اگر مسئلہ ہے تو اِس شہر اور صوبے کی حکومتوں کے ناقص کارکردگی کا ہے۔

دس برس میں اِس صوبے کی حکومت نے کراچی شہرکو ٹرانسپورٹ کی جدید سہولتوں سے اگر نوازا ہے تو وہ یہ ہے کہ داؤد چورنگی سے لے کر ٹاور تک دس بسوں پر مشتمل ایک فلیٹ عنایت فرمایا ہے۔گزشتہ دس سال میں ہر سال سالانہ بجٹ میں شہر کو جدید ٹرانسپورٹ فراہم کرنے کی غرض سے نجانے کتنی کتنی رقم مختص کی جاتی رہی ہے، لیکن اِن خطیر رقوم کے استعمال سے اب جاکے اِس شہرکو اگرکچھ ملا ہے تو وہ محض یہ دس بسیں ہی ملی ہیں۔ الیکشنوں سے عین دو ماہ قبل دس بسیں عنایت فرما کر ہمارے حکمراں یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے دوکروڑ افراد کے اِس شہر میں ٹرانسپورٹ کا دیرینہ مسئلہ حل کردیا ہے۔

سرکلر ریلوے جو آج سے پندرہ بیس سال قبل شہر میں آئے دن کے ہنگاموں کی وجہ سے بند کر دی گئی تھی۔ تمام اعلانات کے باوجود آج تک شروع نہیں کی گئی۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ جاپانی کمپنی کے ساتھ معاہدہ طے پاچکا ہے اور اِس پر کام شروع ہونے ہی والا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ اِسے سی پیک کے دیگر مجوزہ منصوبوں کا حصہ بنا دیا گیا ہے اور لاہورکی اورنج ٹرین کے منصوبے کی طرح اِس کے لیے بھی رقم چین ہی فراہم کرے گا، لیکن اِسے پھر سے بحال کرنے اور فعال بنانے کی ضمن میں کوئی پیشرفت ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے۔ معاملہ وہیں پر رکا ہوا ہے جہاں سے شروع ہوا تھا۔ ریلوے لائن پر ناجائز قابضین کا قبضہ بدستور جاری ہے۔ اسٹیشن گھروں پر چرسیوں، جواریوں اور موالیوں نے ڈیرہ جمایا ہوا ہے۔ پورا ٹریک ایک کھنڈر اور آثار قدیمہ کی تصویر بناہوا ہے۔ لگتا ہے حکومت ِسندھ اِسے شروع کرنا ہی نہیں چاہتی۔

کراچی میں کچرا اُٹھانے کا مسئلہ ابھی تک جوں کا توں ہے۔ عدالتوں کے حکم پر دو چار روزکچھ کام ہو جاتا ہے، پھر وہی عد م توجہی اور عدم دلچسپی اِس شہرکامقد ر بن جاتی ہے۔ ہر طرف غلاظت اور گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔گٹر اور نالے ابل رہے ہیں۔کسی کوکوئی پرواہ نہیں، شہری حکومت فنڈزکا رونا رو رہی ہے اورصوبائی حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ وہ شہرکی حکمراں پارٹی کی اندرونی چپقلش سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی عیاشیوں میں لگی ہوئی ہے۔ یہی حال کراچی الیکٹرک کا ہے۔ گرمی بڑھتے ہی شہر بھر میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں بے تحاشہ اضافہ کردیا گیا ہے۔

وہ اپنی نا اہلی کا ذمے دار سوئی سدرن گیس کو قرار دیکر خودکو اِس مسئلے سے بری الذمہ کرلیتی ہے اور سوئی سدرن گیس والے اپنا پرانے حساب کتاب کھول کر رقم کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں۔ اِس سارے جھگڑے میں مارے وہ لوگ گئے جو ہر ماہ بجلی کا بل بھی ادا کرنے کے باوجود اِس سخت گرمی میں لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیل رہے ہیں۔ وفاق سندھ حکومت کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے اور صوبائی حکومت وفاقی حکومت کو ۔اِس الزام در الزام تراشی میں کراچی کے لوگ کس سے شکوہ کریں۔ انھوں نے جن کو ووٹ دیا تھا وہ آج خود اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ اب اِس قابل ہی نہیں رہے کہ اپنے لوگوں کے مسائل حل کرپائیں ۔ انھیں تو پی آئی بی کالونی اور بہادرآباد کے چکر لگانے اور پریس کانفرنسوں سے فرصت نہیں۔

وفاقی حکومت کے تعاون سے یہاں پنجاب کے شہروں کی طرز پرگرین بس سروس کا ایک منصوبہ شروع کیا گیا تھا جوآج دو سال گزرجانے کے باوجود مکمل نہیں ہو پایا ہے۔ اُس کی تکمیل میں تاخیر کی وجہ سے شہریوں کو بے شمار اذیتیوں سے دوچار ہونا پڑا ہے، لیکن حکمرانوں کو اپنے کیے پرکسی ہزیمت اور شرمندگی کا احساس ہی نہیں ہے۔ وہ بڑے اطمینان سے یہ محسوس کر رہے ہیں کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے الیکشن کا نتیجہ تو وہی آنا ہے جوگزشتہ تیس برسوں سے آتا رہا ہے۔

اس ملک کے باقی تین صوبوں میں ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ وہاں کس کی حکومت بنے گی لیکن صوبہ سندھ ایک واحد صوبہ ہے جہاں ہرکوئی بڑے وثوق اور یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہے کہ اگلے انتخابات کے بعد یہاں کس پارٹی کی حکومت بنے گی، جب حالات اِس طرح کے ہوں تو بھلا کیا ضرورت ہے کام کرنے کی اور لوگوں کی مسائل حل کرنے کی۔ پیپلزپارٹی کو اِس سلسلے میں کسی مشقت اور جدوجہد کی ضرور ت ہی نہیں ہے۔ وہ اپنا سب سے کمزور اور ناقص اُمیدوار بھی یہاں نامزد کرتی ہے تو وہ باآسانی جیت جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے سندھ صوبے میں حکومت کرنا صرف پاکستان پیپلز پارٹی کی قسمت میں لکھ دیا گیا ہے۔ اِسے آپ جمہوریت کی خوبصورتی کہیں یا بد صورتی یا اللہ تعالیٰ کا عذاب ۔ لیکن یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔