آبی پالیسی، بجٹ پر صوبوں کے تحفظات

ایڈیٹوریل  جمعرات 26 اپريل 2018
پاکستان کوممکنہ آبی بحران کے ملکوں میں سر فہرست آنے کے انتظار میں نہیں رہنا چاہیے۔ فوٹو:فائل

پاکستان کوممکنہ آبی بحران کے ملکوں میں سر فہرست آنے کے انتظار میں نہیں رہنا چاہیے۔ فوٹو:فائل

مشترکہ مفادات کونسل نے متفقہ طورپر ملک کی پہلی آبی پالیسی اور پاکستان واٹر چارٹر کی منظوری دیدی ہے۔ وزیراعظم کی سربراہی میں قومی سطح کے ادارہ ’’قومی واٹر کونسل‘‘ کے ذریعے پالیسی پر عملدرآمد اور نگرانی کی جائے گی۔ وزیراعظم اور چاروں وزرائے اعلیٰ نے پاکستان واٹر چارٹر پر دستخط بھی کیے۔

مشترکہ مفادات کونسل کا 37واں اجلاس وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک ، وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو، وفاقی وزراء اور سینئر حکام نے شرکت کی۔ادھر قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس سے سندھ، کے پی کے اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ ترقیاتی بجٹ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے واک آؤٹ کرگئے۔

بادی النظر میں مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں آبی پالیسی کی ملکی تاریخ میں پہلی بار تشکیل اور چارٹر پر مشترکہ دستخط ایک خوش آیند اور اہم پیش رفت کہی جانی چاہیے جب کہ دوسری طرف قومی اقتصادی کونسل میں ترقیاتی بجٹ اجلاس میں تحفظات اور خدشات کا اظہار کرتے ہوئے تینوں وزرائے اعلیٰ کی جانب سے بائیکاٹ کا فیصلہ ایک سیاسی دھچکے سے کم نہیں کیونکہ دونوں اجلاس درست وقت میں قومی اہمیت کے دو اہم فورمز پر ہوئے اور توقع تھی کہ ملک کو درپیش بحرانی صورتحال میں شرکائے اجلاس دور اندیشی، مفاہمت اور اختلاف رائے کے مثبت اظہار کی ایک قابل تقلید نظیر پیش کریں گے جس کا اظہار مشترکہ مفاداتی کونسل کے اجلاس میں انتہائی احسن طریقہ سے کیا گیا جب کہ صوبوں کے سالانہ بجٹ اور ترقیاتی پروگراموں پر وفاق و صوبوں کے اختلافات کھل کر سامنے آگئے، تینوں وزرائے اعلیٰ نے بجٹ میں اپنی اسکیموں کی عدم شمولیت اور دیگر ایشوز پر اعتراض کرتے ہوئے واک آؤٹ کیا ۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، وزیر اعلیٰ بلوچستان قدوس بزنجو اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کا استدلال تھا کہ بائیکاٹ کے سبب کونسل کا کورم ٹوٹ چکا تھا اس لیے سالانہ بجٹ کی تیاری ممکن نہیں۔ جب کہ یہ تجویز بھی پیش کی گئی کہ چونکہ مئی میں اسمبلیاں تحلیل ہوجائیں گی لہذا بجٹ تین ماہ کا ہونا چاہیے۔ افسوس ہے کہ نوبت واک آؤٹ تک جا پہنچی جب کہ وزیراعظم اور وفاقی حکام کو اسی اجلاس میں قائل کیا جاتا تو بہتر تھا، کونسل کے فورم کی توقیر اور دلیل کی جیت ہوتی یوں تینوں وزرائے اعلیٰ کی شکایات کے ازالے کے لیے انٹرا اجلاس میں کوئی پیش رفت ہوجاتی، لیکن فورمز پر ایک ہی روز کے دو اجلاسوں کے دو مختلف نتائج نے سیاسی خلفشار کو راستہ دیا ۔واضح رہے قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرصدارت ہوا جس میں چاروں وزراء اعلیٰ اور مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل شریک ہوئے۔

اجلاس میں پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) پر غور کیا گیا اور اس پر وفاق اور صوبوں نے اعتراضات اٹھائے،پھر اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔ بعد ازاں تینوں وزراء اعلیٰ نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں پی ایس ڈی پی کو منظورنہیں کیا گیا اور ہمارے جانے کے بعد ایسا کیا گیا تو یہ غیر قانونی ہوگا کیوں کہ ہمارے واک آؤٹ کے بعد کونسل کا کورم ٹوٹ گیا تھا جب کہ وزرائے اعلیٰ بلوچستان قدوس بزنجو اور خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے بھی اختلافی نکات پیش کیے۔

دریں اثنا مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ صوبے پی ایس ڈی پی میں اپنی اسکیمیں شامل کرا سکتے ہیں ۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی،ترقیات واصلاحات احسن اقبال نے بائیکاٹ کو سیاسی مقاصد کا حامل اور پوائنٹ اسکورنگ قرار دیا، وزیر مملکت برائے خزانہ رانا افضل کا کہنا تھا کہ سال بھرکا بجٹ پیش ہوگا، قلیل مدتی بجٹ کی بات سیاسی اسٹنٹ ہے۔بہر کیف اصل مسئلہ سیاسی اسٹیک ہولڈرز کی تنازعات وشکایات کے تصفیہ میں معاملہ فہمی،افہام وتفہیم اور وفاق وصوبوں کے مابین سنجیدہ مکالمہ کا ہے، ارباب حکومت کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ قوم کتنے کڑے امتحان سے گزر رہی ہے،اس لیے احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔

یہ کامیابی معمولی نہیں کہ مشترکہ مفادات کونسل کو قومی آبی پالیسی کے تمام بڑے فریقین کے ساتھ مشاورت کے بعد تیاری کا مژدہ سنایا گیا، اسی طرح وفاق و صوبوں میں تعلقات کار اور مسائل کے تصفیہ کے لیے جائز فورم پر آواز اٹھانے کے بین الصوبائی کلچر کو مستحکم کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔

لازم ہے کہ آبی ترجیحات کے تعین، آبی وسائل کی ترقی اور استعمال کے لیے مربوط منصوبہ بندی، ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات، پانی کے حصے، آبپاشی اور بارش کے پانی پر منحصر زراعت، پینے کے صاف پانی اور سینی ٹیشن، پن بجلی، صنعت، زمینی پانی، آبی حقوق و ذمے داریاں، پائیدار آبی ڈھانچہ، پانی سے متعلق مسائل، کوالٹی مینجمنٹ، آگاہی اور تحقیق، تحفظ کے انتظامات، قانونی فریم ورک اور آبی شعبہ کے اداروں کی استعداد کار بڑھانے سمیت قومی آبی پالیسی پر مکمل عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے، پاکستان کوممکنہ آبی بحران کے ملکوں میں سر فہرست آنے کے انتظار میں نہیں رہنا چاہیے۔ ارسا کا کردار زیادہ موثر بنایا جائے جب کہ آبی وسائل کی منصفانہ تقسیم بھی شفاف ہونی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔