سامراجی ملکوں کی چیرہ دستیاں

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 26 اپريل 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

اقوام متحدہ نام کا ایک ادارہ ہے جو دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا میں امن قائم کرنے اور جنگ کو روکنے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا، لیکن یہ ادارہ نہ جنگیں روک سکا نہ دنیا میں امن قائم کرسکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ادارہ نہ آزاد رہا نہ خود مختار بلکہ اس کی حیثیت امریکا اور اس کے اتحادیوں کی رکھیل جیسی ہوکر رہ گئی ہے۔ فلسطین میں اسرائیل کی بربریت کی وجہ یہ ہے کہ امریکا نے اسرائیل کو فلسطین کے خلاف کارروائیوں کی غیر اعلانیہ چھوٹ دی ہے۔

کشمیر میں ستر سال سے خون اس لیے بہایا جا رہا ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی بھارت کو ناراض نہیں کرنا چاہتے کیونکہ بھارت کے ساتھ ان کے اقتصادی اور سیاسی مفادات جڑے ہوئے ہیں۔ اس شرمناک سیاست کا نتیجہ یہ ہے کہ امریکا، فرانس اور برطانیہ نے شام کے دو شہروں دمشق اور حمص پر وحشیانہ حملہ کردیا، بہانہ یہ بنایا گیا کہ امریکا اور اس کے وحشی اتحادی شام میں کیمیائی ہتھیاروں کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس بہانے کے باوجود دنیا یہ سوال کر رہی ہے کہ اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق کوئی ملک خواہ وہ امریکا ہو، فرانس ہو، برطانیہ ہو یا روس اقوام متحدہ کی اجازت کے بغیر کسی آزاد اور خود مختار ملک پر حملہ نہیں کرسکتے۔

امریکا پہلی بار اقوام متحدہ کے اصولوں کی خلاف ورزی نہیں کر رہا ہے ویت نام، کوریا تو ماضی کی باتیں ہیں ابھی حال میں امریکا نے اقوام متحدہ کے قوانین کو جوتوں سے رگڑ کر عراق پر حملہ کیا، بہانہ یہ بنایا گیا کہ عراق کے پاس خطرناک ہتھیاروں کا بہت بڑا ذخیرہ ہے جو بعد میں خود امریکا کی ایجنسیوں نے اس الزام کو غلط قرار دے دیا۔

عراق پر حملے کے زخم ابھی ہرے ہی تھے کہ امریکا نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ افغانستان پر حملہ کردیا اور کارپٹ بمباری کرکے افغانستان کی سرزمین کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ اس حماقت کا انجام تو بڑا شرمناک ہوا عراق اور افغانستان میں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان دونوں ملکوں کے لاکھوں بے گناہ عوام امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جنگی کارروائیوں سے جاں بحق ہوگئے۔

عراق اور شام میں اصل مسئلہ امریکا اور روس کے مفادات کا ہے مثلاً امریکا شام کے صدر بشار الاسد کو پسند نہیں کرتا وہ ہر قیمت پر بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانا چاہتا ہے کیونکہ شام کے صدر بشارالاسد کے ایران سے برادرانہ تعلقات ہیں اور امریکا ایران کو اپنا دشمن سمجھتا ہے اور ایران کو دشمن سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ ایران اسرائیل کی خلیج میں بالادستی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اسرائیل روایتی ہتھیاروں میں عربوں پر برتری رکھنے کے علاوہ ایٹمی ہتھیار کے ذخائر بھی رکھتا ہے۔ ایران اسرائیل سے اپنے دفاع کے لیے ایٹمی ہتھیار بنانا چاہتا ہے۔ امریکا اس کے سخت خلاف اس لیے ہے کہ مشرق وسطیٰ سے اسرائیل کی برتری ختم ہوگی تو مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات خاص طور پر تیل کے ذخائر پر امریکا کا کنٹرول خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ عرب ممالک اور ایران کے درمیان تعلقات مستقل کشیدہ رہتے ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب ممالک امریکا کو اپنا سب کچھ بنائے ہوئے ہیں اور امریکا کی سرپرستی کو ایران کو دبائے رکھنے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں جب کہ ایران امریکا کو اپنا دشمن سمجھتا ہے۔

ان تضادات نے دنیا کو مستقل جنگوں اور عدم استحکام کا شکار بناکر رکھ دیا ہے جب تک سوشلسٹ کیمپ موجود تھا مغرب کو جارحانہ کارروائیوں میں محتاط رہنا پڑتا تھا جب روسی بلاک ٹوٹ گیا تو مغربی ممالک سوشلسٹ بلاک کے خطرے سے آزاد ہوگئے اور دنیا میں جہاں چاہے جارحیت کرنے پر تل گئے۔ اس حوالے سے سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ عرب ملک شخصی اور خاندانی آمریت کے حامل ہیں۔

قومی اور عالمی فیصلے جمہوریت کے مطابق نہیں بلکہ شخصی اور خاندانی آمریتوں کے تحت کیے جاتے ہیں ۔ اس کلچر کی وجہ سے ان ملکوں میں حکمرانوں کے مفادات کو اولیت حاصل ہوتی ہے عوامی مفادات سیکنڈری ہوجاتے ہیں۔ اس حوالے سے سامراجی ملکوں کو یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ اپنے مفادات کے مطابق فیصلے شاہوں سے بہ آسانی کرا لیتے ہیں جب کہ جمہوری ملکوں میں امریکا کو اپنے مفادات کے مطابق فیصلے کرانا آسان نہیں رہتا۔

پاکستان کی جمہوریت کو لولی لنگڑی جمہوریت کہا جاتا ہے لیکن اسی لولی لنگڑی جمہوریت سے بھی اپنے مفادات کے مطابق فیصلے کرانا امریکا کے لیے ممکن نہیں رہا۔ شام، عراق، یمن، لیبیا وغیرہ دہشت گردی اور جنگوں کی آگ میں جل رہے ہیں لیکن یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ مسلم ممالک عرب ممالک اور او آئی سی مسلم ملکوں کو سامراجی جنگوں سامراجی مفادات کے شکنجے سے نکالنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے کیونکہ ان کے مفادات امریکا اور اس کے اتحادیوں سے جڑے ہوئے ہیں وہ کسی قیمت پر اپنے مفادات سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔

شام پر امریکا فرانس اور برطانیہ کا حملہ جہاں علاقائی مفادات کا معاملہ ہے وہیں اس بات کا اظہار بھی ہے کہ روس چین اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ عالمی سطح پر طاقت کے توازن کے ٹوٹ جانے سے اب دنیا عملاً امریکا اور اس کے اتحادیوں کے کنٹرول میں ہے۔ بھارت جو ماضی میں غیر جانبدار بلاک کا سربراہ تھا بدقسمتی سے وہ اب امریکا کا یار وفادار اور امریکا سے فوجی معاہدوں میں جکڑا ہوا ملک بن گیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بھارت چین کو اپنا رقیب سمجھتا ہے چونکہ امریکا بھی چین کو اپنا مستقبل کا رقیب رو سیاہ سمجھتا ہے اس لیے ان دونوں ملکوں میں قربت اور اتحاد فطری ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشلسٹ بلاک ختم ہوگیا ہے لیکن ایشیا میں تین بڑی طاقتیں اب بھی اس قدر طاقتور ہیں کہ اگر یہ تینوں ملک روس، چین اور بھارت ایشیا کی سلامتی اور ترقی کے لیے متحد ہوں تو نہ امریکا برطانیہ اور فرانس کو اقوام متحدہ کو نظرانداز کرکے شام پر حملے کی جرأت ہوتی نہ اس علاقے میں مغربی استعمار کی بالادستی کا موقع ملتا، شام جنگوں کے عذاب میں عشروں سے گرفتار ہے ان ملکوں یعنی عراق، شام، یمن، سعودی عریبیہ اور افریقی ممالک دہشت گردی اور فقہ گردی میں سر سے پیر تک ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ سے کوئی امید کرنا حماقت ہے لیکن  شام، عراق، یمن، سعودی عرب، عرب ممالک کیا دہشت گردی کے خلاف نام نہاد بڑے بڑے اتحاد بنانے کے بجائے صرف دہشت گردی کے ایک مسئلے  پر خلوص نیت سے متحرک نہیں ہوسکتے لیکن اس کے لیے امریکا کے شکنجے سے باہر آنا پڑے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔