تحریک انصاف کا 29 اپریل کا جلسہ

مزمل سہروردی  جمعرات 26 اپريل 2018
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پاکستان کی سیاست اس وقت شدید ابہام کا شکار ہے۔ یہ ابہام خوبصورت ہے۔ کوئی بھی فریق ایسا نہیں ہے جو یہ دعویٰ کر سکے کہ اس کی جیت یقینی ہے۔ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے پاس جیت کا کوئی نہ کوئی فارمولا موجود ہے۔ پیپلزپارٹی جس کی پنجاب میں بحالی ناکام ہو گئی ہے وہ بھی وزارت عظمیٰ کے خواب دیکھ رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ زرداری گیم میں واپس آگئے ہیں۔ انھوں نے اقتدار کے ایوانوں میں دوبارہ سرنگ لگا لی ہے۔سینیٹ کی مثال سب کے سامنے ہے۔

سب زرداری سے مزید معجزوںکی توقع کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف بھی جیت کی امید میں ہے۔ ان کا بھی خیال ہے کہ یہ انتخابات تحریک انصاف کا ہے۔ عمران خان کا جادو سر چڑھ کر بولے گا۔ اس لیے ان کی گیم یقینی ہے۔ تیسری طرف شہباز شریف بھی گیم میں ہیں۔ وہ مسلم لیگ (ن) کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئے ہیں۔

شہر شہر جا رہے ہیں اور مسلم لیگ (ن) کی گیم کو ٹریک پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس طرح تمام جماعتوں کے حامی کسی نہ کسی شکل میں اس امید میں ہیں کہ اگلے انتخابات کے بعد ان کی جماعت اقتدار میں آسکتی ہے۔ تینوں ہی گیم میں ہیں۔ یہ ابہام خوبصورت اور حسین بھی ہے اور اس نے پاکستان کی سیاست اور بھی دلچسپ اور حسین بنا دیا ہے۔

جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے تو اب تک پاکستان میں اقتدار کے حصول کے لیے سب سے لمبی جدو جہد تحریک انصاف نے ہی کی ہے۔ اس ضمن میں عمومی رائے یہی ہے کہ عمران خان کو پاکستان کی سیاست میں قابل قدر پذیرائی ملی ہے۔ وہ ایک کم عرصہ میں اپنا ووٹ بینک بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ لیکن میں اس رائے سے متفق نہیں ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں جتنی سیاسی جماعتیں اقتدار کی گیم میں آئی ہیں ان میں تحریک انصاف کو اپنی جگہ بنانے میں سب سے زیادہ وقت لگا ہے۔

عمران خان کو باقی جماعتوں کے مقابلے میں اپنی جگہ بنانے میں زیادہ وقت لگا ہے۔ اس حوالہ سے سب سے موزوں مثال پیپلز پارٹی اور ذوالفقار بھٹو کی ہے۔ بھٹو کی جماعت پیپلزپارٹی 1967میں قائم ہوئی اور تین سال میں ہی بھٹو وزیر اعظم بن گئے اور بھٹو کی جماعت نے انتخابی سیاست میں میدان مار لیا۔ اسی طرح نواز شریف کی مثال تو سب سے مختلف ہے انھوں نے پہلے اقتدار حاصل کیا اور بعد میں سیاسی جماعت بنائی۔ق لیگ بھی بننے کے دو سال کے اندر ہی اقتدار میں آگئی تھی۔ گو کہ اسے اسٹبلشمنٹ کی حمائت حاصل تھی۔ لیکن اسٹبلشمنٹ کی حمائت سب کو کسی نہ کسی شکل میں حاصل رہی ہے۔

جب کہ باقی چھوٹی جماعتوں کی صورتحال بھی مختلف ہے۔ تا ہم لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی جماعت اور اس کی قیادت نے اقتدار کی منزل حاصل کرنے کے لیے بائیس سال انتظار نہیں کیا ہے۔ عمران خان کو دشت سیاست میں بائیس سال ہو گئے ہیں۔ لیکن وہ ابھی تک اقتدار کی منزل سے دور ہیں۔ اس سے پہلے کسی بھی لیڈر کو اتنا لمبا عرصہ نہیں لگا ہے۔ لیکن یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ اب عمران خان کے پاس مزید وقت نہیں ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ عمران خان کا آخری الیکشن ہے۔ اگر اس بار نہیں تو کبھی نہیں والی صورتحال آگئی ہے۔ اس لیے یہ الیکشن عمران خان کا آخری الیکشن بھی ہے اور کسی حد تک تحریک انصاف کے لیے بھی ا قتدار حاصل کرنے کی آخری کوشش بھی ہو گی۔

آج بھی عمران خان اقتدار کی منزل حاصل کرنے کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں۔ وہ ووٹ بینک کے اعتبار سے دوسری بڑی جماعت بن گئے ہیں۔ انھوں نے پنجاب میں سرنگ لگا لی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ گیم میں ہیں۔ اسی لیے بلا شبہ گزشتہ پانچ سال میں کے پی کے حکومت ہونے کے باوجود بھی عمران خان کی توجہ پنجاب پر ہی رہی ہے۔ انھوں نے کے پی کے حکومت پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جس کیوجہ سے کے پی میں تحریک انصاف کی کارکردگی کے حوالہ سے سوال بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ تا ہم عمران خان کا فوکس پنجاب ہی رہا ہے اور پنجاب ہی ہے۔ کیونکہ عمران خان کو علم ہے کہ پنجاب کے بغیر وہ وزارت عظمیٰ کی کرسی نہیں حاصل کر سکتے۔

پنجاب میں عمران خان کے ووٹ بینک کے حوالہ سے کوئی دو رائے نہیں ہیں۔ لیکن پھر بھی ابھی ایسی صورتحال نہیں ہے کہ عمران خان کی پنجاب میں جیت یقینی ہو۔ ضمنی انتخابات میں جیت نے مسلم لیگ (ن) کو نفسیاتی برتری دی ہوئی ہے لیکن پھر بھی تحریک انصاف گیم میں ہے۔ اس نے ہر ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کا خوب مقابلہ کیا ہے۔ وہ دوسرے نمبر پر رہی ہے۔ اس نے اپنا ووٹ بینک منوایا ہے۔

اور یہ بات باور کروا لی ہے کہ صرف تحریک انصاف ہی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ورنہ پیپلزپارٹی جماعت اسلامی سمیت وہ تمام جماعتیں جن کا کبھی پنجاب میں ووٹ بینک ہوتا تھا اب اپنے ووٹ بینک سے ہاتھ دھو چکی ہیں اور ان کی اب پنجاب میں کوئی حیثیت نہیں رہی ہے۔ شائد 2018کے انتخابات پیپلزپارٹی کے لیے پنجاب میں مزید بھیانک نتائج سامنے لائے۔

عمران خان نے 29اپریل کو لاہور میں مینار پاکستان پرجلسہ کا اعلان کیا ہے۔ لاہور کو یہ ممتاز مقام حاصل ہے کہ عمران خان کی سیاسی اننگ کو بھی تیس اکتوبر کے مینار پاکستان کے جلسہ ہی سے بریک تھرو ملا تھا۔ اس جلسہ نے ہی عمران خان کی ڈوبتی سیاسی اننگ میں زندگی بخشی تھی۔ اس جلسہ سے پہلے عمران خان کی سیاسی اننگ کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ لیکن اس ایک جلسہ نے ان کی جدوجہد کو سیاسی شکل دے دی تھی۔ اس کے بعد بھی عمران خان نے مینار پاکستان اور لاہور میں مختلف جلسہ کیے ہیں لیکن تیس اکتوبر کے جلسہ کی اپنی ممتاز حیثیت آج بھی قائم ہے۔ شائد ویسا جلسہ دوبارہ نہیں ہو سکا ہے۔

لیکن آج تحریک انصاف ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے کہ اب نہیں تو کبھی نہیں کے مصداق یہ تحریک انصاف اور عمران خان کے لیے آخری موقع ہے۔اگر اب 29اپریل کو تحریک انصاف تیس اکتوبر کی تاریخ نہ دھرا سکی تو اس کی انتخابی مہم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ اس طرح یہ کوئی معمولی جلسہ نہیں ہو رہا ہے۔ یہ تحریک انصاف کے مستقبل کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے۔ اگر یہ جلسہ کامیاب ہو گیا۔ لوگ آگئے تو تحریک انصاف کو انتخابی مہم کے لیے جس گیم چینجر کی ضرورت ہے وہ مل جائے گا۔ لیکن اگر یہ جلسہ غیر معمولی نہ ہو سکا تو پھر تحریک انصاف کے لیے اقتدار کی منزل دور ہو جائے گی۔

میری تحریک انصاف کی قیادت سے گزارش ہے کہ وہ اس جلسہ میں لاہور سے باہر سے کم سے کم لوگ لانے کی کوشش کرے بلکہ تیس اکتوبر کے جلسہ کی طرح اس کو صرف لاہور کا جلسہ بنائیں۔ کیونکہ اگر یہ جلسہ کامیاب بھی ہو گیا اور یہ تاثر بن گیا کہ اس میں اہل لاہور نے کم اور بیرون لاہور سے زیادہ لوگ شریک ہوئے تو کامیا ب جلسہ بھی نتائج دینے میں ناکام ہو جائے گا۔ تحریک انصاف کو لاہور کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ لاہور کے نوجوان کو باہر نکالنے کی ضرورت ہے۔لاہور سے اپنے ووٹر کو باہر لانے کی ضرورت ہے۔ اگر لاہور سے باہر لوگ لاکر لاہور میں کامیاب جلسہ کر بھی لیاجائے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔وہ پیسے اور وقت کا ضیاع ہی ہو گا۔

عمران خان کی طویل سیاسی جدوجہد اب اپنے منطقی انجام کی طرف گامزن ہے ان کے پاس وقت کم ہے۔ یہ آخری موقع ہے۔ اگر اس بار پاکستان کے عوام نے عمران خان کو موقع نہیں دیا تو 2023میں شائد عمران خان وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہی نہ ہوں۔ پتہ نہیں تب تک تحریک انصاف کی کیا شکل بن جائے گی۔ عمران خان کے بعد تحریک انصاف کا تصور نظر نہیں آتا۔ اس لیے تحریک انصاف کے حامیوں کے لیے یہ آخری موقع ہے۔ جو گھر بیٹھا رہ جائے گا وہ سمجھے کہ اس کی جماعت بھی گھر ہی چلی جائے گی۔ لیکن افسوس تو یہ ہے کہ تحریک انصاف ابھی تک اپنے کارکنوں اور حامیوں کو یہ باور نہیں کروا سکی ہے کہ یہ آخری موقع ہے۔اب نہیں تو کبھی نہیں کا پیغام نہیں جا رہا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔