قاضی میں سچ آکھاں تینوں

شبنم گل  جمعرات 26 اپريل 2018
shabnumg@yahoo.com

[email protected]

سندھ کی تاریخ کے ہر دور میں فن و فکر کی ہریالی نظر آتی ہے۔ یہ تازگی ہر نسل کی روح میں نیا موسم بن کر مہکی ہے۔ شاہ عنایت شہید، منصور حلاج، مخدوم بلاول، شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچل سرمست نے ذہنوں میں خود آگہی کے چراغ چلائے۔

حضرت سچل سرمست 1739ء میں پیدا ہوئے اور 1827ء میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ اس بے باگ و حق گو شاعر کی زندگی کے اٹھاسی سال غیر انسانی رسموں کے اندھیروں سے لڑتے گزرے، سچل کا کلام اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ کس طرح اس نے مذہبی رجعت پرستی کا سامنا کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ کلہوڑا دور حکومت، فن و فکر اور سماجی ترقی میں آگے رہا، عمارت سازی، آبپاشی و سندھی زبان کی ترقی میں اس دور کا اہم حصہ نظر آتا ہے۔

سندھ کے سماجی پیش منظر میں پیری، مریدی کی جڑیں گہرائی میں پیوستہ رہی ہیں۔ عوامی مسائل جوں کے توں رہتے مگر گفتگو و دعوے پر فریب جال بن جاتے۔ حاکم ہمیشہ ملائیت کی آڑ لے کر عوام کا استحصال کرتے۔ سچل فرماتے ہیں۔

قاضی میں سچ آکھاں تینوں، چھوڑ مسائل مصلا

آؤ پئیں ھک سوک مئے دی، مول نہ تھیوے ملا

سچل جسے حق حاصل نا ہو وے، راہ کنوں اور بھلا

سچائی کو جھوٹ سے الگ کرنے کی ضرورت ہر دور میں رہی۔ علاوہ ازیں عوامی زندگی ہمیشہ سے اعلیٰ طبقوں کی اجارہ داری کا شکار رہی، کہنے کو تو صوفی شعرا، عشق حقیقی کے پر پیچ راستوں کے راہی کہلاتے مگر ان کی شاعری کا بنیادی مقصد عوام کو خود شناسی کے جوہر سے آشنا کرنا ہے لہٰذا صوفی مکتبہ کے تمام شعرا نے سب سے پہلے ذاتی آگہی، سمجھ، پرکھ و خود انحصاری کی بات کی ہے۔

دوسرے مرحلے پر انھوں نے عوامی بھلائی اور خاص طور پر سماجی شعور کو اپنی سوچ و اظہار کی سچائی سے بیدار کیا اور اپنے مقصد میں کامیاب رہے مگر بدقسمتی سے یہ پیغام تمام لوگوں تک نہیں پہنچ پایا۔ یہ فقط نظریے تک محدود رہا۔ شارح نے بھی اس وسیع مکتبہ فکر کو فلسفے کی بھول بھلیوں میں الجھادیا، جب کہ صوفی شاعری علم و عمل کی بہترین مثال ہے۔ علم، عمل کے بغیر اس طرح ہے جیسے خوشبو کے بغیر پھول۔

سچل نے جو سچائی ڈھونڈی وہ ایک لمحے کا کرشمہ تھی کیونکہ دل و روح شفاف ہیں تو حساس شاعر کا تعلق خود بخود وقت کے کانٹوں سے جڑ جاتا ہے۔ وقت شناسی، اسے وقت کا بادشاہ بنادیتی ہے۔ وقت فقط ان کا غلام ہوتا ہے، جو وقت کی معمولی جنبش کو سمجھتے ہیں ان کا احساس، وقت کی فری کوئنسی سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے کیونکہ قدیم ورثے کے تمام شاعر، لمحہ موجود کے فاتح کہلاتے ہیں، ماضی کے واہموں سے دور اور مستقبل کی خوش فہمیوں سے مبرا،سچل فرماتے ہیں:سمے کے سھاگ میں حسن کا پہلو نمایاں ہے۔ جہاں عام لوگ ہی خاص بن جاتے ہیں، یہ حسن خوبی بھی ہے اور مجاز کا اشارہ بھی ۔ سچل ان کیفیات کو پر اثر طور پر بیان کرتے ہیں۔ یہ لوگ گڈری میں لال کی طرح ہیں ۔ شاعر، گیان و دھیان کی انوکھی دنیا میں گم ہوتا ہے وہ جو راز بھی وقت کے لمحوں سے کشید کرتا ہے، اسے باطن کی دنیا سے دریافت کرتا ہے۔

اس کا من سیپ کی طرح ہے اور سجتے موتی کی مانند ۔ وہ راز داری پر یقین رکھتا ہے۔خاموش لمحوں کا شیدائی ہے، راز کھلتے ہی، احساس کی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ رومانیت میں راز داری اولین شرط ہے۔ مرتبہ یا عرفان یا سچ کی گہرائی ذات تک محدود رکھی جاتی ہے۔ کمال تک پہنچا ہوا شخص خود نہیں بتاتا کہ وہ عرفان کی کس بلند مرتبے پر کھڑا ہے۔ اس کی سانسیں بتاتی ہیں اس کی بے چینی راوی بن جاتی ہے، آنکھوں کا جلال کیف و مستی میں ڈھل جاتا ہے اور خاموشی کے سر بامعنی بن جاتے ہیں۔ سچل فرماتے ہیں: محبت پانے کی خاطر مشکلات راستہ سجھاتی ہے یہ تمام تر سوز، گداز وغم، رہبری کے ہنر میں ڈھل جاتا ہے۔

شاعری کی گہرائی لاشعور سے رجوع کرتی ہے۔ کیونکہ محبت کے مارے شعور کی دنیا سے غافل رہتے ہیں۔ وہ طلب کے کانٹوں سے الجھتے، جذبے تشنگی سے سمجھوتا کرلیتے ہیں۔ شاعری، جذبے کی گہرائی کا پر تو ہے۔ موجود میں غیر موجودگی کا اشارہ ہے۔

مست رہ کر میخانے کے اندر مانگ لی ہے مستی

مستی سے نہ خود کو پیمانے اس کی ہے کم بختی

باقی سب جھوٹی باتیں سچا، سچ ہے عشق الستی

سچل کہتے ہیں یہ کہ مستی ہو نشہ و بے خودی احساس کے خمار کا ہے، یہ حقیقت ہے کہ کائنات، ابدی سچائی کا پر تو ہے۔

یہ تمام تر اشارے و تماثیل اس ذات برحق کی طرف نشان دہی کرتے ہیں جیسے بے رنگ زمین سے طرح طرح کے پھول، پھل و میوے اُگتے ہیں۔ بالکل اسی طرح طالب کے ذہن کی زمین زرخیز بن جاتی ہے۔ عجزکے آنسوؤں سے نرمی پاتی ہے، دھیان کی ہوا میں زندگی اور محبت کی روشنی میں وجود کا راز۔

سچل سرمست بیک وقت سندھی، فارسی، اردو، عربی اور سرائیکی زبان میں شعر کہنے میں مہارت رکھتے تھے۔ سچل نے شاعری کو کسی مجسمے کی طرح تراشا ہے۔ اسلوب سے لے کر مختلف اضاف تک شاعری کے نئے رخ لے کر سامنے آئے۔

سچل سرمست نے کافی کی کلاسیکل صنف پر متعدد نوعیت کا کام کیا ہے۔

چھیراں کہڑی چھم چھم لائی

یار ویکھو رنگ لایا اے

غمزے رمزی ساز کھڑی تھئی

گاؤن والی گایا اے

ان کے موضوعات لوک داستان کے سروں سے سجائے ہیں ان میں سر سارنگ، بلاولی، جھنگلو، جوگ، کاموڈ، تلنگ، کونسیو ودیگر شامل ہیں۔

حضرت سچل سرمست کے بیت، غزل، وائی، کافی اور جھولنو میں خیال کی پختگی کے ساتھ روح کا ساز بھی شامل ہوجاتا ہے۔ لفظوں کے مابین فطری ردھم سننے والوں کو بے اختیار جھومنے پر مجبور کردیتا ہے۔

جھولنا، جھولے کو کہا جاتا ہے، یہ خوشی اور سرشاری کا ناقابل بیان تاثر ہے، جو روح کو سیراب کرجاتا ہے۔ سچل کا فارسی کلام اپنی مثال آپ ہے۔ایک روانی ہے احساس ہے اشعار لہر در لہر ذہن کے ساحل پر چلتے آتے ہیں۔ان میں تازگی، روانی اور ہلچل ہے۔ مثنوی وحدت نامہ میں فرماتے ہیں حسن ظہور پذیر ہے جس کے جلوے سے در و دیوار روشن ہوجاتے ہیں۔ اندر بھی محبوب جلوہ گھر ہے اور باہر بھی موجود ہے۔ ذرے میں بھی اسے دیکھ سکتے ہو۔ راز بے نقاب ہوچکے ہیں لہٰذا خود کو ختم کر ڈالو۔

سندھی زبان کے قدیم شعرا نے زبان کو لب و لہجے کی چاشنی عطا کی، فکر کی گہرائی اور الفاظ کا ذخیرہ متعارف کروایا۔ صوفی شعرا کی خاص بات یہ تھی کہ شاعری کو اصناف، کلاسیکی رنگ میں رنگی ہوئی تھیں جب کہ خیال رومانیت کی جدت کیے ہوئے۔ لہٰذا ان کا فکر ہر دور کے لیے ہے۔ جس میں عہد حاضر کے مسائل کا عکس صاف دکھائی دیتا ہے۔

سچل ’’ تار نامہ‘‘ میں پر سوز آواز کا تاثر بیان کرتے ہیں ۔ تار کے سر گزشت بیان کی ہے۔ جس میں تار بتاتی ہے کہ میں نے سختیاں، آگ اور ہتھوڑے کی چوٹوں کو جھیل کر یار کے ہاتھوں تک پہنچ پائی ہوں۔

یہ حقیقت ہے کہ زندگی کو دکھوں کے آئینے میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے، دکھ پر اثر ہیں، ذات کے بھنور سے باہر نکال کر انسانیت کے اجتماعی دکھوں سے جوڑ دیتے ہیں۔ سچل نے جس طرح حقیقت پسندی و خود انحصاری کا درس دیا ہے وہ اس پر آشوب دور کی اہم ضرورت ہے کہ سچل کے کلام کو پڑھنا اور سمجھنا بے حد ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔