کچھ ذکر اداکارہ نادرا کا

سعد اللہ جان برق  جمعـء 27 اپريل 2018
barq@email.com

[email protected]

ہدایتکار محبوب کی فلم آن جن لوگوں نے دیکھی ہے ان کو اس فلم کی ہیروئن نادرا ضرور یاد ہوگی جس کی شکل تو کچھ بھی نہیں تھی لیکن ہر وقت تیوری چڑھائی ہوئی رہتی تھی۔ ناک سے پھنکار رہی ہوتی تھی اور آنکھوں کو اپنے سائز سے دگنا کرکے کھا جانے والی نظروں سے دیکھتی تھی۔پھر یہی نادرا راجکپور کی ایک فلم میں بھی ویسی ہی تھی لیکن اب وہ کچھ کچھ کرپٹ ہو گئی۔ گویا فلم آن میں وہ ’’مغرور شہزادی‘‘ اور راجکپور کی فلم میں ایک چلتر باز عورت ہو گئی تھی ۔ہم بھی جب اپنی اس ’’نادرا‘‘ کو دیکھتے ہیں جو آج کل ہمارے ہاں ایک محکمے کی صورت میں جلوہ گر ہے بلکہ آہستہ آہستہ معصوم و مغرور شہزادی سے عیار اور ہوشیار ہو گئی ہے۔

ہمیں یاد ہے صوبہ خیر پخیر میں اس کی بنیاد ہمارے ایک دوست نے رکھی تھی۔ جواب نہ جانے کہاں ہوں گے‘ ریٹائرمنٹ کے بعد شاید ’’اسلام آباد کے کان نمک میں نمک بن گئے ہوں گے۔اداکار اور ڈاکٹر اسلم ہمارے دوست تھے اور انور بچپن سے ہمارے سامنے رہے تھے۔ مبالغے کی حد تک ایماندار اور سخت اور شاید اسی لیے ان کا انتخاب صوبے میں ’’نادرا‘‘ کی تشکیل کے لیے کیا گیا تھا۔چنانچہ انھوں نے اس کی بنیاد خالص دیانت، امانت اور فرض شناسی پر رکھی تھی۔

اندازہ اس سے لگائیں کہ ہمارے گاؤں کا ایک شخص اپنی کرپشن کے باعث زیر عتاب آگیا تھا ہم نے اس کے والد کے کہنے پر اس کی بڑی زور دار سفارش کی حالانکہ وہ ہمیں اپنے والد کی طرح مانتے تھے بلکہ کئی مواقع پر تقریبات میں بھی کہہ چکے ہیں کہ یہ ہمارا پانچواں بھائی ہے۔لیکن اس کے باوجود انھوں نے ہماری سفارش رد کر دی اور کہا کہ میں کم از کم نادرا کی بنیادوں میں کرپشن کو نہیں آنے دوں گا۔

لیکن پھر وہ ریٹائرڈ ہو گئے اور ’’نادرا‘‘ نے بھی راجکپور کی دوسری فلم کا کردار اپنا لیا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اب وہ پرانے ملازم کھڈے لائن لگائے جا چکے ہیں اور ان کی جگہ پر نئے سیاسی لاڈلے براجمان ہوگئے ہیں۔

کچھ روز پہلے ہماری ایک سر را سے ملاقات ہوگئی جو نادرا کے مرکزی دفتر میں ہوا کرتا تھا لیکن اب اس کا حلیہ ہی بدلہ ہوا تھا۔ تھوڑی سی ’’توند‘‘ بھی نکال لی تھی جو خوشحالی کے بجائے بدحالی کا پتہ دے رہی تھی۔ کپڑے بھی ملگجے اور میلے بغیر استری کے تھے۔ ماتھے کا رقبہ بھی آدھے سر تک پہنچ گیا تھا اور نہایت تھکا ہارا نظر آرہا تھا۔ ہمیں یقین ہو گیا کہ نادرا کی ملازمت چھوٹ گئی ہوگی

پوچھا کیا کر رہے ہو آج کل؟ بولا وہی نادرا

مگر یہ تیری درگت کیا ہے میرا تو خیال تھ کہ تم اب بڑے افسر بن گئے ہو گے‘ گاڑی وغیرہ خرید لی ہوگی۔ بولا اپنی اتنی قسمت کہاں؟ وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔

تو کیا افسر نہیں ہے؟ بولا۔ میں کیسے افسر بن سکتا ہوں، افسر تو اوپر سے آتے ہیں۔

کہاں سے؟ آسمان سے؟ بولا ہاں لیکن وہ آسمان نہیں بلکہ دوسرے بھی بہت سارے آسمان میں جو ہوتے زمین پر ہیں لیکن پورے کے پورے آسمان ہوتے ہیں ۔

تفصیل چاہتی تو گویا ایک بھرا ہوا پھوڑا پھوٹ گیا۔

روتا ہے دل جفائے محبت میں ٹوٹ کے

اچھا ہو گر یہ آبلہ بہہ جائے پھوٹ کے

اس کے مطابق نادرا میں کوئی نظام یا سروس سٹرکچر نہیں ہے نہ اسکیل ہیں نہ پروموشن نہ سروس سیکیورٹی نیچے کے اصل اہلکار اسی جگہ پر پانی کی طرح سڑتے رہتے ہیں۔

حالانکہ اسحاق ڈار نے بجٹ میں اعلان بھی کیا تھا۔ کہ سروس سڑکچر بنایا جائے گا لیکن نہیں ہے جس کے بازو میں طاقت ہے اور اوپر سے افسر بن کر آیا ہے۔ چاہے وہ کچھ بھی نہ جانتا ہو‘ وہ افسر ہے اور افسر تو افسر ہوتا ہے‘ کام کیوں کرے۔ کام کے لیے ماتحت خدا مارے جو ہیں۔ ہم حیران ہو رہے تھے اس لیے کہا ۔ مگر خدا مارے نادرا تو ایک سرکاری ادارہ ہے اور سرکاری اداروں کا تو سروس سٹرکچر لازمی ہے۔

زہریلی ہنسی ہنستے ہوئے بلکہ رونے کو ہنسی میں چھپاتے ہوئے بولا۔ ہوگا کاغذات میں پشاور نادرا بھی سرکاری ادارہ ہوگا لیکن عملی طور پر تو پرائیویٹ ادارہ بلکہ کمپنی ہے جس میں کارکن کچھ بھی نہیں‘ مالکوں کی مرضی ہے جس کو چاہے افسر بنا دیں جس کو چاہیں رگڑتے رہیں۔اس نشست میں بندے نے جو کچھ بتایا اس سے بہت دکھ ہوا ۔اس کے مطابق دنیا بھر کے ’’لاڈلے‘‘ جو پیدائشی طورپر امیر ہوتے ہیں نادرا میں گھسائے جا رہے ہیں اور جتنے زیادہ گھسائے جا رہے ہیں اتنے ہی کارکن دبتے جا رہے ہیں‘ دبائے جا رہے ہیں اور پیچھے پھسلوائے جا رہے ہیں۔

اچانک ہمیں ایک بزرگ کی کہانی یاد آگئی۔ اس بزرگ کے مزار پر ایک شخص نے بہت لمبی مدت گزار دی‘ اس امید میں کہ بزرگ اسے بھی کوئی رتبہ دے دے گا لیکن خدمت کرتے کرتے عرصہ بیت گیا کچھ بھی نہیں ملا۔ پھر ایک دن ایک نیا آدمی آیا اور اسے چند روز میں مرتبہ مل گیا اور وہ چلا گیا۔ اس پرانے والے خدمت گار نے ایک لاٹھی اٹھائی اور بزرگ کی قبر پر دے دھنا دھن برسائی۔ رات کو خواب میں وہ بزرگ دکھائی دیے جو زخموں سے چور چور تھے اور کہہ رہے تھے کہ یہ چوٹیں تم نے مجھے لاٹھی مار مار کر پہنچائی ہیں مجاور بولا تو میں کیا کرتا میں نے اتنا عرصہ خدمت کی کچھ نہیں ملا اور وہ آدمی آیا چند روز رہا اور رتبہ پا گیا۔

بزرگ نے کہا وہ اس لیے کہ وہ شخص مجھے پسند نہیں تھا۔ اس لیے رتبہ دے کر چلتا کر دیا۔ مگر تم تو مجھے اتنے پسند ہو کہ اپنے آپ سے جدا نہیں کرنا چاہتا۔ ہم نے بھی اس شخص کو یہی سمجھا یا کہ تم لوگ ’’نادرا‘‘ کو پسند بہت ہو گئے اس لیے۔ لیکن ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ نادرا تونادرا ہے چاہے شہزادی ہو یا طوائف۔ نئے ہوں یا پرانے اسے تو اپنی کمائی سے غرض ہے چاہے کوئی کالا چور ہی اسے کما کردے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔