چوہدری شجاعت کے انکشافات اور تاثرات

انیس باقر  جمعـء 27 اپريل 2018
anisbaqar@hotmail.com

[email protected]

چوہدری شجاعت حسین ایک عام سڑک پر چلتا ہوا کوئی شخص نہیں بلکہ پاکستان مسلم لیگ کے دھڑوں میں سے ایک دھڑے کی معتبر شخصیت ہیں۔ پاکستان میں جو بھی حکومت چلاتا ہے اس کا تعلق مسلم لیگ کے کسی دھڑے سے ہوتا ہے اور اگر وہ شخص رواں دواں حکومت کا تختہ الٹ کر آتا ہے تو چند برس گزرنے کے بعد وہ شخص شیروانی زیب تن کرکے مسلم لیگ کے کسی نئے دھڑے کا مالک بن جاتا ہے اور کاسہ لیسوں کی ایک ٹولی پیدا کرلیتا ہے۔

بالکل ایسے ہی جب کوئی بڑا شاعر ہوتا ہے تو وہ اپنے ساتھ چھوٹے چھوٹے شعرا کی ٹولی لے کر چلتا ہے جو  واہ واہ، کیا خوب کہا، یہ آپ ہی کا حصہ تھا کے جملوں سے مشاعرے کو گرما دیتے ہیں اور یقینا اس کے اثرات نہ صرف عام سامعین پر پڑتے ہیں بلکہ اس کے ناموس کو مزید بلند کردیتے ہیں۔ کچھ یہی احوال پاکستان کے لیڈروں کا ہے۔ آپ ذرا غور کریں تمام لیڈران جو ایوب خان کی سیاست کے بعد ملک کی سیاست میں قدم جمانے میں کامیاب ہوئے وہ ایسے ہی خانوادوں کے چشم و چراغ تھے اور مسلم لیگ کے حصے بخروں سے ہی پیدا ہوئے اور جس نے اس حصے بخرے سے خود کو جدا کرکے اپنی سیاسی بصیرت کا چراغ جلانا چاہا  تو پھر اس پر اندھیروں کی بارش کرکے اس کو بس تاریخ کی حقیقت بنا دیا گیا۔

چوہدری شجاعت کے انکشافات کوکسی باریک بینی اور دانشوری کے اجزا کی تلاش کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ بے سود ہوگا بلکہ یہ حقائق اور یقین کا ایک تحفہ ہے جو انھوں نے پاکستان کے عوام کو دیا ہے تاکہ اگر انھیں پاکستان میں سیاست کرنی ہے تو پھر بہت بڑی تعداد میں خوشامدی حضرات کا ٹولہ پیدا کرنا ہوگا۔ تاریخ کے وہ لوگ جو حق کی راہ میں مارے گئے وہ یقینا ہمیشہ زندہ و جاوید رہیں گے مگر یہاں تو عوامی لیڈر نہیں خواص کے لیڈروں کی ضرورت ہے۔

اگر آپ چوہدری صاحب کی کتاب کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو یہ سبق پوری طور سے پکا یاد کرنا ہوگا کہ وعدے کو وفا کرنا اور اس پر جان دینا احمقوں کی نشانی ہے، کیونکہ جب نواز شریف وزیر اعظم بنے تو انھوں نے چوہدری شجاعت کے برادر خورد کے بجائے اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو اس نشست پر براجمان کیا اور میرے خیال میں شہباز شریف کو سبق پر الٹا عمل کرتے وقت یہ زیر لب کہا ہوگا دیکھا وعدہ کیسا وفا کیا اور اگر میں وفا پرکاربند ہوتا تو میاں تم کہاں ہوتے۔

یہ نواز شریف کی کم علمی کی واضح تصویر ہے کہ ظاہر کی آنکھ سے تماشا کرتے رہے مگر دیدہ دل کو وا کرنے کی کبھی بھی کوشش نہ کی اور منفی اثرات عوام میں پیدا کرنے والے اعمال سے گریز نہ کیا بلکہ مفلسوں کے اس دیس میں جہاں عوام افلاس کے کھونٹے سے بندھے ہوئے ہیں وہاں مریم نواز کئی بار تاج پوشی کا تماشا کرتی رہیں اور عوامی لیڈرشپ کے لیے میاں برادران ان کو تیار کرتے رہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سفر معکوس بڑھتا گیا اور منزل دور تر ہوتی گئی اور اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب نواز کے خانوادے سے اقتدار کی رخصتی کے وسیع امکانات پیدا ہوچلے ہیں کیونکہ نواز لیگ نے اپنے پرعزم و حکمت یاروں کو منفی پہاڑے یاد کرائے ہیں لہٰذا مثبت اوقات کا اندازہ (ن) لیگ کے کارکنوں کو نہیں وہ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ جیسا وہ کہیں گے عوام ویسا ہی کریں گے۔

موجودہ دور میں چیف جسٹس ثاقب نثار سے وہی انداز اختیار کرنے کی کوشش میں مصروف رہے۔ جیساکہ شاہ کے ساتھ ان کا رویہ رہا تھا مگر وہ یہ بھول گئے کہ چیف جسٹس سجاد علی کے اس وقت کے زمینی حقائق کچھ اور تھے اور آج کے حقائق بالکل برعکس ہیں۔ اس وقت جس گروہ کو وہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ پر لفافہ فوج لے گئے تھے ان کو شہباز شریف نے واپسی پر یہ اعلان کیا کہ کارکنان پنجاب ہاؤس میں پراٹھہ قیمہ والی نان ان کا انتظار کر رہی ہے۔

ذرا غور کیجیے کس درجے کی پستی نمایاں ہیں اور ایسے لوگوں سے کیا توقعات رکھی جاسکتی ہیں۔ آنے والے وقت سے اب یہ اندازہ ہوتا جا رہا ہے کہ اب اس سیاسی بساط کے لپٹ جانے کا وقت قریب آن پہنچا ہے یہ بات چوہدری شجاعت صاحب نے 22 اپریل کو اپنے ایک بیان میں کہی کہ انتخابات کے دن دور جا رہے ہیں کیونکہ لیڈروں کے درمیان شدید اختلافات قریب تر نظر آرہے ہیں۔ چوہدری شجاعت کوئی مدبر نہیں جو ان کی بات کو حتمی مان لیں، ہاں مگر یہ اس مسلم لیگ کے ایک شراکت دار ضرور ہیں جن کے چھوٹے چھوٹے حصے حکمران جماعت کے کل و پرزہ ہیں۔ میری تحریر اس کتاب پر کوئی تبصرہ نہیں بلکہ چوہدری شجاعت کو حکمرانی میں جن لوگوں سے سابقہ پڑا اس کی سچی کہانی ہے۔ جہاں حکمرانوں کا اصل چہرہ نمایاں ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کتاب نے یہ بھی بتادیا کہ کیسا الیکشن، کیسا ووٹ اور اس کا تقدس یہ سب دکھاوا ہے۔

الیکشن ایک بہت بڑا اسٹیج ڈرامہ ہے حکومت کا اصل منبع عوام نہیں بلکہ امریکا بہادر ہیں اور جب کوئی پاکستانی حاکم امریکا کو جزبز کرتا ہے تو وہ عوام کو دھوکا دیتا ہے اور جھوٹ بول کر عوام کو گمراہ کرتا ہے۔ این آر او کے لیے کون سی تحریک تھی یہ تمام معاملات امریکا نے پاکستان میں امریکی سفیر اور اپنے نمایاں سینیٹرز جیسے جوبائیڈن اور ہمنواؤں کے مشورے سے طے کیے۔

پھر یہ بھی طے ہوگیا کہ پہلے زرداری اور بعدازاں نواز شریف البتہ اس ایشو کی اصل محرک  بینظیر صاحبہ کو منظر سے ہٹا دیا گیا اس کو ہٹانے والی قوت کا چہرہ سامنے نہ آیا بلکہ عوام کے نام کا دھمال جاری ہے اور عوام ہیں کہ 70 برس میں بھی ان کی شناخت نہ کرسکے جب کہ امریکی حکومت کے تابعدار ملازم ہونے پر بھی شرمندہ نہیں نہ کوئی اخلاقی بلندی ہے اور نہ سچائی بس ایک خالی ظرف کی سدا دیتے رہتے ہیں۔

خصوصاً جنرل ضیا الحق کے بعد اور ان کے دور سے ساتھ چلنے والوں کو تو اخلاقی اقدار کا کوئی علم نہیں البتہ محمد خان جونیجو کے ذہن میں ملکی مفاد تھا کیونکہ اس نے معمولی گاڑی میں بیٹھ کر سوزوکی کے عام سے ماڈل کو زینت بخشی مگر نواز شریف نے معاشی پالیسی کو بالکل برعکس انداز میں آگے بڑھایا۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی ملکی پالیسی کو استحکام بخشا یہ وہی انداز تھا جو جونیجو نے اختیار کیا تھا غیر ضروری اخراجات کو کٹ کردیا تھا مگر نواز شریف نے کساد بازاری کو ہوا دی اور معیشت کی بنیاد قرضوں پر رکھی جس کا نتیجہ آج ڈالر مضبوط تر ہو رہا ہے اور جلد روپیہ کی قدر میں مزید گراوٹ نظر آرہی ہے اور اب چونکہ سر پہ گرم اندھیری کا سایہ پھیلنے کو ہے تو ایکسپورٹ میں لوڈ شیڈنگ کا عفریت ملک کو مزید خسارے کی طرف دھکیل دے گا۔

بہرحال چوہدری شجاعت حسین کو ملکی سرمایہ کی جانچ پڑتال سے کوئی خاص ربط نہیں اسی لیے ٹیکسٹائل ایکسپورٹ زوال پذیر ہے لوڈ شیڈنگ سے قبل ملک کی فیکٹریوں میں آٹھ آٹھ گھنٹے کی تین شفٹیں ہوتی تھیں تو مزدور خوشحال تھے مگر اس پہلو پر یہاں گفت و شنید نہیں چوہدری صاحب ویسے نرم مزاج اور بنیادی طور پر ایک بڑے سیاستدان ہیں اور انھوں نے اپنی زندگی کے سفر کو جس طرح نوٹ کیا ہے ان کی کتاب پڑھنے والوں خصوصاً پاکستان کی سیاست سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بہت سی چیزیں باعث حیرت ہیں اور پاکستانی سیاست میں مغربی ممالک کے حکمرانوں اور امریکا کا رویہ قابل غور ہے اور اس کی ترجیحات کے بغیر الیکشن کے زیرو زبر بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ لہٰذا چوہدری شجاعت کی کتاب پاکستانیوں کے لیے رمضان المبارک سے قبل ایک تحفہ ہے، انھوں  نے ان انکشافات کو ’’سچ تو یہ ہے‘‘ کا نام دیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔