بھارتی جرنیلوں کی پاکستان اور کشمیریوں بارے نئی سوچ ؟

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 27 اپريل 2018
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

اپریل 2018ء کے پہلے ہفتے یہ خبر سامنے آئی تھی کہ بھارتی فوج کے سینئر جرنیلوں کی ایک اہم، طویل اور مفصل کانفرنس ہونے والی ہے۔ یہ مگر پتہ نہیں چل رہا تھا کہ یہ کب ہوگی اورکہاں ہوگی؟ اپریل کے وسط میں یہ بھی عیاں ہو گیا؛ چنانچہ ہم نے دیکھا ہے کہ انڈین آرمی کے منتخب اور چنیدہ جرنیل چھ روز تک مسلسل ایک ہی چھت تلے سر جوڑ کر بیٹھے رہے۔

بھارتی سینئر جرنیلوں کی یہ اہم کانفرنس 16 تا21 اپریل 2018ء تک جاری رہی۔اس کا افتتاح تو نائب وزیر دفاع سبھاش رام راؤ نے کیا لیکن خاص بات یہ ہے کہ انڈین آرمی چیف، جنرل بپن راوت، مسلسل چھ روز تک اس کے ہر اجلاس میں شریک رہے۔

بھارتی فوج کے ترجمان کرنل امن آنند نے اگرچہ اس کانفرنس کے مقاصد کچھ مختلف بیان کیے ہیں لیکن عالمِ عرب کے ایک ممتاز انگریزی اخبارنے اپریل کے وسط میں اِس غیر معمولی کانفرنس پر تبصرہ کرتے ہُوئے کہا تھاکہ اِس کے دو اہم مقاصد نظر آتے ہیں: ایک تو یہ کہ چین کی بڑھتی ہُوئی فوجی اور معاشی طاقت سے کیسے اور کن کن محاذوں پر بخوبی نمٹا جا سکتا ہے اور دوسرا یہ کہ اسٹرٹیجک میدان میں پاکستان کی بڑھتی ہُوئی طاقت کو کن ہتھکنڈوں سے مسدود کیا جائے؟

اسرائیلی اخبار ’’دی ہارٹز‘‘ نے اپنے ایک طویل تجزئیے میں لکھا کہ بھارتی سینئر جرنیلوں کی اپریل کے تیسرے ہفتے شروع ہونے والی اس شش روزہ کانفرنس میں یہ سوچ بچار بھی شامل ہے کہ پاکستان اور چین نے ’’سی پیک‘‘ کے نام سے جس نئی دوستی کا مضبوط آغاز کیا ہے، اِسے منزلِ مقصود پر پہنچنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟

لاریب پاکستان کے ساتھ چین بھی کھڑا ہے۔ کیلی فورنیا(امریکا) میں ’’مڈل بری انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اسٹڈیز‘‘ کے اسسٹنٹ پروفیسر، شرد جوشی، کا کہنا ہے:’’سیاسی، سفارتی اور فوجی محاذ پر پاکستان اور چین کا اتحاد ہے۔ دونوں اتحادی بھارت کو اپنا مشترکہ دشمن سمجھتے ہیں۔ ایسے میں مستقبل کے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے بھارتی جرنیل سر جوڑ کر کیوں نہ بیٹھیں؟۔‘‘حیرانی کی بات ہے کہ ایک طرف تو بھارت، ہندو دانشور اور بھارتی جرنیل چین کی سخت مخالفت کررہے ہیں اور دوسری طرف بھارتی وزیر اعظم، نریندر مودی، آج (27اپریل) چینی صدر،ژی چنگ پنگ، سے چین میں ملاقات بھی کررہے ہیں۔

بھارتی جرنیلوں کی اِس کانفرنس سے چند ہفتے قبل بھارتی آرمی چیف نے اعتراف کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’کشمیریوں کو طاقت (بندوق) سے اپنے ڈھب پر نہیں لایا جا سکتا۔‘‘ اِس کا مطلب یہ ہے کہ بھارتی افواج نے مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں اور اُن کے خاندانوں پر ظلم و استحصال کا ہر ہتھکنڈہ تو آزما کر دیکھ لیا ہے لیکن اِن ظالمانہ کارروائیوں کا کوئی نتیجہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے حق میں نہیں نکل سکا ہے۔

ہزیمت نے بھارتی افواج کے پاؤں اکھیڑ ڈالے ہیں۔ اب تازہ شش روزہ کانفرنس میں بھی کشمیریوں کے بارے یہی کہا گیا ہے۔ بھارتی افواج کے ڈائریکٹر  جنرل اسٹاف ڈیوٹیز، لیفٹیننٹ جنرل اے کے شرما، نے کہا ہے کہ ’’چھ روزہ ٹاپ کمانڈرز کانفرنس میں اِس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ کشمیری حریت پسندوں اور ناراض کشمیری نوجوانوں کو کسی طرح واپس مین اسٹریم میں لایا جائے‘‘ اور یہ کہ ’’(مقبوضہ) کشمیر میں آزادی و علیحدگی پسندوں کے خلاف ملٹری آپریشن کرتے وقت اِس امر کا خاص خیال رکھا جائے کہ سویلین آبادی کا نقصان کم سے کم ہو سکے۔‘‘

شائد ایسے ہی کسی موقع پر کسی شاعر نے کہا تھا: ہائے اُس زُود پشیماں کا پشیماں ہونا۔اب جب کہ برسوں سے بھارتی افواج مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کے ساتھ ساتھ ہزاروں بیگناہ سویلین کشمیریوں کو بھی شہید کر چکی ہیں، پیلٹ بندوقوں سے سیکڑوں کشمیریوں کو یا تو مکمل اندھا کر دیا گیا ہے یا انھیں نیم نابینائی کے عذاب میں مبتلا کیا جا چکا ہے، ہزاروں کشمیری خواتین بیوہ کر دی گئی ہیں، ہزاروں کشمیری خواتین کے ساتھ ریپ کیا گیا ہے اور لاکھوں کشمیریوں کے گھر بھارتی افواج کے ہاتھوں نذرِ آتش کیے جا چکے ہیں اور اب جنرل بپن راوت کی زیرِ صدارت بھارتی جرنیل یہ فیصلہ کررہے ہیں کہ ملٹری آپریشنوں کے دوران سویلین کشمیریوں کا نقصان کم سے کم کیا جائے اور کشمیری نوجوانوں کو واپس پُر امن سماج کی طرف راغب کیا جائے۔

جس مقبوضہ کشمیر کی عفتیں اور عزتیں قابض بھارتی افواج نے پامال کر دی ہوں، اُس کشمیر کے غصے میں بپھرے نوجوانوں کو واپس ’’مین اسٹریم‘‘ میں لانا ممکنات میں سے نہیں ہے۔ اُن کشمیری مسلّح نوجوانوں کے ہاتھوں سے بندوق واپس لینا اب ممکن نہیں رہا جن کے سامنے اُن کے وطن کو لُوٹا اور پامال کیا گیا۔ جن کے سامنے اُن کے بزرگوں کی ہرروز توہین کی جاتی ہے اور جن کی آنکھوں کے سامنے اُن کے پیاروں کو بھارتی فوج ہر روز گولیوں سے بھُون ڈالتی ہے۔ وہ اِن ظالمانہ مناظر کو فراموش کرکے کیونکر اور کیسے بھارتی جرنیلوں کی آواز پر لبیک کہہ سکتے ہیں؟ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کشمیریوں نے یک زبان اور یکجہت ہو کر

انڈین ٹاپ کمانڈرز کی اِس درخواست اور خواہش کو مسترد کر دیا ہے۔ اُدھر بھارتی جرنیل یہ کہہ رہے تھے کہ کشمیری ناراض نوجوانوں کو واپس مین اسٹریم میں لانے کی کوششیں بروئے کار لائی جائیں اور اِدھر یہ خبریں آئی ہیں کہ نئے اعلیٰ تعلیم یافتہ کشمیری نوجوانوں نے بھارتی افواج کے بہیمانہ مظالم سے تنگ آکر ملازمت اور بزنس کرنے کے بجائے بھارتی قابض فوج کے خلاف بندوق اٹھا لی ہے اور حریت پسند تنظیموں میں شریک ہو گئے ہیں۔

سرینگر سے شایع ہونے والے مشہور انگریزی اخبار’’رائزنگ کشمیر‘‘ نے 20 اپریل 2018ء کو جاوید احمد کی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ایک اور ایم فِل کشمیری اسکالر نوجوان، زبیر احمد وانی ولد افضل وانی، بھی خاندان اور تعلیم سے ناتہ توڑ کر ’’حزب المجاہدین‘‘ میں شامل ہو گیا ہے۔ جب سے (11مارچ2018ء) بھارتی افواج نے شوپیاں میں نصف درجن سے زائد بیگناہ کشمیری نوجوانوں کو شہید اور اُن کے گھروں کو جلایا ہے، اعلیٰ تعلیم یافتہ کشمیری نوجوان مزید تیزی کے ساتھ بندوق اُٹھا کر آزادی پسندو ہتھیار بندتحریکوں میں شامل ہونے لگے ہیں۔

زبیر احمد وانی سے پہلے جنید احمد بھی’’حزب المجاہدین‘‘ میں شامل ہو گئے تھے۔ جنید احمد مقبوضہ کشمیر میں تحریکِ حریت کے سربراہ، محمد اشرف صحرائی، کے صاحبزادے ہیں۔ انھوں نے حال ہی میں کشمیر یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری لی تھی۔اُن سے پہلے علی گڑھ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے والے منان بشیر وانی بھی مذکورہ معروف کشمیری تحریک میں شامل ہو گئے تھے۔کشمیری نوجوان ، ادریس سلطان میر ولد محمد سلطان میر، کا کشمیری آزادی پسند مسلّح تحریک میں شامل ہونا بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے اعصاب پر بوجھ بن گیا ہے، اسلیے کہ ادریس سلطان میر بھارتی فوج کی ملازمت پر لات مار کر حریت پسندوں کے ساتھ مل گئے ہیں۔

اِس سے پہلے عابد نذیر ولد نذیر احمد چوپان بھی بھارتی فوج کی نہائت اچھی ملازمت چھوڑ کر کشمیری حریت پسندوں میں شامل ہو گئے تھے۔ بھارتی فوج کے افسروں کو اِس بات کا بڑا قلق ہے کہ نذیر احمد ایسا ذہین نوجوان کشمیری ، جسے نیشنل ڈیفنس اکیڈمی ایسے اعلیٰ فوجی ادارے میں بھی داخلہ مل گیا تھا، آخر کیونکر ہتھیار بند کشمیریوں کے ہتھے چڑھ گیا؟ سامنے کی بات بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو نظر نہیں آرہی ہے کہ جب کشمیریوں پر بھارتی افواج اسقدر بہیمانہ سلوک کررہے ہوں تو کشمیری نوجوان کب تک اپنے جذبات کو قابو رکھ سکتے ہیں؟ خود کو کب تک آزادی پسندوں سے جدا رکھ سکتے ہیں؟رواں برس کے چارماہ کے دوران دو درجن سے زائد اعلیٰ تعلیم یافتہ کشمیری نوجوان سب کچھ چھوڑ چھاڑ اور بندوق اٹھا کر مختلف حریت پسند کشمیری تنظیموں میں شامل ہو چکے ہیں۔

گزشتہ برس ایسے نوجوانوں کی تعداد124تھی جب کہ 2016ء میں یہ تعداد88 اور2015ء میں ایسے کشمیری نوجوانوں کی تعداد صرف 66 تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روز بروز اُن اعلیٰ تعلیم یافتہ کشمیری نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جو ’’مین اسٹریم‘‘ سے نکل کر بھارت کے خلاف بروئے کار کشمیری جہادی تحریکوں میں شامل ہورہے ہیں۔ ایسے میں بھارتی جرنیلوں کی اپیل پر بھلا کون کشمیری نوجوان کان دھرے گا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔