- نارووال: بارات میں موبائل فونز سمیت قیمتی تحائف کی بارش
- کراچی کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے
- کوئٹہ: برلن بڈی بیئر چوری کے خدشے کے پیش نظر متبادل جگہ منتقل
- گجرات میں اسپتال کی چھت گرنے سے خاتون سمیت تین افراد جاں بحق
- سعودی فرمانروا طبی معائنے کیلیے اسپتال میں داخل
- امریکی سیکریٹری اسٹیٹ سرکاری دورے پر چین پہنچ گئے
- ہم یہاں اچھی کرکٹ کھیلنے آئے ہیں، جیت سے اعتماد ملا، مائیکل بریسویل
- پچھلے میچ کی غلطیوں سے سیکھ کر سیریز جیتنے کی کوشش کرینگے، بابراعظم
- امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کا بل سینیٹ سے بھی منظور
- محمد رضوان اور عرفان خان کو نیوزی لینڈ کے خلاف آخری دو میچز میں آرام دینے کا فیصلہ
- کے ایم سی کا ٹریفک مسائل کو حل کرنے کیلئے انسداد تجاوزات مہم کا فیصلہ
- موٹروے پولیس اہلکار کو روندنے والی خاتون گرفتار
- ہندو جیم خانہ کیس؛ آپ کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے، چیف جسٹس کا رمیش کمار سے مکالمہ
- بشری بی بی کو کچھ ہوا تو حکومت اور فیصلہ سازوں کو معاف نہیں کریں گے، حلیم عادل شیخ
- متحدہ وفد کی احسن اقبال سے ملاقات، کراچی کے ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال
- کراچی میں سیشن جج کے بیٹے قتل کی تحقیقات مکمل،متقول کا دوست قصوروار قرار
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبروں نے اقوام متحدہ کو بھی خوفزدہ کردیا
- ایکس کی اسمارٹ ٹی وی ایپ متعارف کرانے کی تیاری
- جوائن کرنے کے چند ماہ بعد ہی اکثر لوگ ملازمت کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟
- لڑکی کا پیار جنون میں تبدیل، بوائے فرینڈ نے خوف کے مارے پولیس کو مطلع کردیا
کالا جادُو بولی وڈ پر چھانے لگا!
ہارر اور تھرلر فلمیں ہمیشہ سے بولی وڈ میں بنائی جاتی رہی ہیں مگر ماضی میں اس نوع کی فلمیں ثانوی اہمیت کی حامل سمجھتی جاتی تھیں۔
عام طور پر ان فلموں میں کم معروف اداکار کام کرتے تھے اور ان کا بجٹ بھی محدود ہوتا تھا۔ ایسی ڈراؤنی اور مافوق الفطرت قوتوں کے موضوعات پر بنائی گئی فلموں کی تعداد بہت کم تھی جن کی کاسٹ میں صف اول کے اداکار شامل ہوں۔ بہرکیف ڈراؤنی اور جادوئی فلمیں بھارت میں پسند کی جاتی رہی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہندو معاشرے میں جادو ٹونے کا چلن عام ہے۔
عام لوگ بھی سنیما اسکرین پر اس بارے میں جو کچھ دیکھتے ہیں اسے حقیقت سمجھ کر من و عن قبول کرلیتے ہیں۔ ہارر فلموں کے لیے ناظرین میں پائی جانے والی اسی قبولیت کے پیش نظر فلم سازوں نے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی ٹھان لی ہے اور اب سپراسٹارز کو لے کر اس طرح کی فلمیں بنائی جارہی ہیں۔ مرکزی اداکار کی حیثیت سے عامر خان کی ’’ تلاش‘‘ اور ہیروئن کی حیثیت سے بپاشا باسو کی ’’راز تھری‘‘ گذشتہ دنوں ریلیز ہونے والی تھرلر اور ہارر فلمیں تھیں۔ شائقین نے ان فلموں کو ہاتھوں ہاتھ لیا تھا۔
’’ ایک تھی ڈائن‘‘ اس سلسلے کی نئی فلم ہے جو تین روز کے بعد نمائش کے لیے پیش کی جائے گی۔ ’’ تلاش‘‘ اور ’’ راز تھری‘‘ کی طرح ’’ ایک تھی ڈائن‘‘ بھی بڑے بجٹ کی فلم ہے۔ یہ فلم ایکتا کپور اور وشال بھردواج کی پیش کش ہے جب کہ اس کے نمایاں اداکاروں میں عمران ہاشمی، کونکنا سین شرما اور کالکی کوچلن شامل ہیں۔ سیف علی خان اور کنال کھیمو کی فلم ’’ گو، گوا، گون‘‘ بھارت میں اپنے طرز کی منفرد فلم ہوگی جس کی کہانی ان مُردوں کے گرد گھومتی ہے جو کسی ماورائی قوت کے زیراثر زندہ ہوجاتے ہیں۔ انگریزی میں انھیں zombie کہا جاتا ہے۔ مغرب میں اس موضوع پر ان گنت فلمیں بنائی جاچکی ہیں مگر ہندی سنیما کے لیے یہ موضوع ابھی نیا ہے۔
ڈراما کوئین ایکتا کپور کی آنے والی فلم پر مختلف حلقوں بالخصوص خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کی جانب سے کڑی تنقید کی جارہی ہے۔ ٹائٹل ہی سے ظاہر ہے کہ اس فلم میں کسی اداکارہ کو جادوگرنی یا چڑیل کے روپ میں دکھایا جائے گا۔ حقوق انسانی اور حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والوں کا موقف ہے کہ اس طرح کی فلموں سے معاشرے میں عورتوں پر تشدد اور انھیں جان سے ماردینے کے واقعات میں اضافہ ہوتا ہے۔ چوں کہ کالا جادو، گندی آتما اور ان سے جڑی دیگر باتوں پر بالخصوص دیہی علاقوں میں رہنے والے پختہ اعتقاد رکھتے ہیں، اس لیے وہ فلموں میں دکھائے جانے والے مناظر پر فوراً یقین کرلیتے ہیں۔
حالیہ عرصے میں ہندوستانی ذرائع ابلاغ میں ایسے بہت سے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں جن میں دیہاتیوں نے کسی عورت کو جادوگرنی قرار دے کر طرح طرح سے اذیتیں پہنچا مار ڈالا، یا اس کا گھرجلا کر اسے گاؤں بدر کردیا۔ اس ضمن میں مختلف اداروں کی جانب سے ریسرچ بھی کی گئی ہیں، جن کے نتائج میں اس بات کا دعویٰ کیا گیا ہے کہ جادوگرنیوں سے متعلق فلمیں اور ڈرامے خواتین کے خلاف تشدد اور دیہاتیوں کے ہاتھوں ان کی ہلاکت کے واقعات میں اضافے کا سبب بنے ہیں۔ تاہم ایکتا کپور اس امر کی تردید کرتی ہیں کہ ان کی فلم ان واقعات کو بڑھاوا دے گی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔