کالا جادُو بولی وڈ پر چھانے لگا!

م ۔ ع  پير 15 اپريل 2013
’’ ایک تھی ڈائن‘‘ کڑی تنقید کی زد میں۔  فوٹو : فائل

’’ ایک تھی ڈائن‘‘ کڑی تنقید کی زد میں۔ فوٹو : فائل

 ہارر اور تھرلر فلمیں ہمیشہ سے بولی وڈ میں بنائی جاتی رہی ہیں مگر ماضی میں اس نوع کی فلمیں ثانوی اہمیت کی حامل سمجھتی جاتی تھیں۔

عام طور پر ان فلموں میں کم معروف اداکار کام کرتے تھے اور ان کا بجٹ بھی محدود ہوتا تھا۔ ایسی ڈراؤنی اور مافوق الفطرت قوتوں کے موضوعات پر بنائی گئی فلموں کی تعداد بہت کم تھی جن کی کاسٹ میں صف اول کے اداکار شامل ہوں۔ بہرکیف ڈراؤنی اور جادوئی فلمیں بھارت میں پسند کی جاتی رہی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہندو معاشرے میں جادو ٹونے کا چلن عام ہے۔

عام لوگ بھی سنیما اسکرین پر اس بارے میں جو کچھ دیکھتے ہیں اسے حقیقت سمجھ کر من و عن قبول کرلیتے ہیں۔ ہارر فلموں کے لیے ناظرین میں پائی جانے والی اسی قبولیت کے پیش نظر فلم سازوں نے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی ٹھان لی ہے اور اب سپراسٹارز کو لے کر اس طرح کی فلمیں بنائی جارہی ہیں۔ مرکزی اداکار کی حیثیت سے عامر خان کی ’’ تلاش‘‘ اور ہیروئن کی حیثیت سے بپاشا باسو کی ’’راز تھری‘‘ گذشتہ دنوں ریلیز ہونے والی تھرلر اور ہارر فلمیں تھیں۔ شائقین نے ان فلموں کو ہاتھوں ہاتھ لیا تھا۔

’’ ایک تھی ڈائن‘‘ اس سلسلے کی نئی فلم ہے جو تین روز کے بعد نمائش کے لیے پیش کی جائے گی۔ ’’ تلاش‘‘ اور ’’ راز تھری‘‘ کی طرح ’’ ایک تھی ڈائن‘‘ بھی بڑے بجٹ کی فلم ہے۔ یہ فلم ایکتا کپور اور وشال بھردواج کی پیش کش ہے جب کہ اس کے نمایاں اداکاروں میں عمران ہاشمی، کونکنا سین شرما اور کالکی کوچلن شامل ہیں۔ سیف علی خان اور کنال کھیمو کی فلم ’’ گو، گوا، گون‘‘ بھارت میں اپنے طرز کی منفرد فلم ہوگی جس کی کہانی ان مُردوں کے گرد گھومتی ہے جو کسی ماورائی قوت کے زیراثر زندہ ہوجاتے ہیں۔ انگریزی میں انھیں zombie کہا جاتا ہے۔ مغرب میں اس موضوع پر ان گنت فلمیں بنائی جاچکی ہیں مگر ہندی سنیما کے لیے یہ موضوع ابھی نیا ہے۔

ڈراما کوئین ایکتا کپور کی آنے والی فلم پر مختلف حلقوں بالخصوص خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کی جانب سے کڑی تنقید کی جارہی ہے۔ ٹائٹل ہی سے ظاہر ہے کہ اس فلم میں کسی اداکارہ کو جادوگرنی یا چڑیل کے روپ میں دکھایا جائے گا۔ حقوق انسانی اور حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والوں کا موقف ہے کہ اس طرح کی فلموں سے معاشرے میں عورتوں پر تشدد اور انھیں جان سے ماردینے کے واقعات میں اضافہ ہوتا ہے۔ چوں کہ کالا جادو، گندی آتما اور ان سے جڑی دیگر باتوں پر بالخصوص دیہی علاقوں میں رہنے والے پختہ اعتقاد رکھتے ہیں، اس لیے وہ فلموں میں دکھائے جانے والے مناظر پر فوراً یقین کرلیتے ہیں۔

حالیہ عرصے میں ہندوستانی ذرائع ابلاغ میں ایسے بہت سے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں جن میں دیہاتیوں نے کسی عورت کو جادوگرنی قرار دے کر طرح طرح سے اذیتیں پہنچا مار ڈالا، یا اس کا گھرجلا کر اسے گاؤں بدر کردیا۔ اس ضمن میں مختلف اداروں کی جانب سے ریسرچ بھی کی گئی ہیں، جن کے نتائج میں اس بات کا دعویٰ کیا گیا ہے کہ جادوگرنیوں سے متعلق فلمیں اور ڈرامے خواتین کے خلاف تشدد اور دیہاتیوں کے ہاتھوں ان کی ہلاکت کے واقعات میں اضافے کا سبب بنے ہیں۔ تاہم ایکتا کپور اس امر کی تردید کرتی ہیں کہ ان کی فلم ان واقعات کو بڑھاوا دے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔