- ویسٹ انڈیز ویمن ٹیم کا پاکستان کو ون ڈے سیریز میں وائٹ واش
- کراچی میں ایرانی خاتون اول کی کتاب کی رونمائی، تقریب میں آصفہ بھٹو کی بھی شرکت
- پختونخوا سے پنجاب میں داخل ہونے والے دو دہشت گرد سی ٹی ڈی سے مقابلے میں ہلاک
- پاکستان میں مذہبی سیاحت کے وسیع امکانات موجود ہیں، آصف زرداری
- دنیا کی کوئی بھی طاقت پاک ایران تاریخی تعلقات کو متاثر نہیں کرسکتی، ایرانی صدر
- خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نمائندوں کا اختیارات نہ ملنے پراحتجاج کا اعلان
- پشین؛ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں3 دہشت گرد ہلاک، ایک زخمی حالت میں گرفتار
- لاپتہ کرنے والوں کا تعین بہت مشکل ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان
- سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کو سزا سنانے والے جج کے تبادلے کی سفارش
- فافن کی ضمنی انتخابات پر رپورٹ،‘ووٹوں کی گنتی بڑی حد تک مناسب طریقہ کار پر تھی’
- بلوچستان کے علاقے نانی مندر میں نایاب فارسی تیندوا دیکھا گیا
- اسلام آباد ہائیکورٹ کا عدالتی امور میں مداخلت پر ادارہ جاتی ردعمل دینے کا فیصلہ
- عوام کو ٹیکسز دینے پڑیں گے، اب اس کے بغیر گزارہ نہیں، وفاقی وزیرخزانہ
- امریکا نے ایران کیساتھ تجارتی معاہدے کرنے والوں کو خبردار کردیا
- قومی اسمبلی میں دوران اجلاس بجلی کا بریک ڈاؤن، ایوان تاریکی میں ڈوب گیا
- سوئی سدرن کے ہزاروں ملازمین کو ریگولرائز کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد
- بہیمانہ قتل؛ بی جے پی رہنما کے بیٹے نے والدین اور بھائی کی سپاری دی تھی
- دوست کو گاڑی سے باندھ کر گاڑی چلانے کی ویڈیو وائرل، صارفین کی تنقید
- سائنس دانوں کا پانچ کروڑ سورج سے زیادہ طاقتور دھماکوں کا مشاہدہ
- چھوٹے بچوں کے ناخن باقاعدگی سے نہ کاٹنے کے نقصانات
سندھ میں حفاظتی ٹیکے لگائے جانے کی شرح 50 فیصد سے کم ہے، ماہرین
کراچی: سندھ میں بچوں کو مختلف امراض سے محفوظ رکھنے کیلیے مفت حفاظتی ویکسین لگائے جانے کی شرح صرف50فیصد سے بھی کم ہے جو تشویشناک صورتحال ہے.
پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے ماہرین اطفال نے حفاظتی ٹیکہ جات کے عالمی ہفتے کی مناسبت سے جمعرات کو پریس بریفنگ سے خطاب کے دوران کہا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں 20 کروڑ بچے مختلف امراض سے محفوظ رہنے کیلیے بنیادی حفاظتی ویکسین سے محروم ہیں، سندھ سمیت ملک بھر میں حفاظتی ویکسین کی شرح کم ہونے کی وجہ سے اس بات کا خدشہ ہوگیا ہے کہ بچوں کے امراض دوبارہ جنم لے سکتے ہیں لہذا ہمیں بچوں کو محفوظ رکھنے کیلیے حفاظتی ویکسین کی شرح (کوریج) کو 90 فیصد تک لانا ہوگا اس میں والدین کا حصہ لینا بھی ضروری ہے۔
پاکستان میں مفت حفاظتی ٹیکے ای پی آئی پروگرام کے تحت لگائے جاتے ہیں جو 10 خطرناک بیماریوں کے خلاف ہوتے ہیں، اس کے باوجود سندھ میں بچوںکو حفاظتی ٹیکے لگائے جانے کی شرح 50 فیصد سے بھی کم ہے.
ماہرین اطفال کا کہنا تھا کہ بچوں کو حفاظتی ویکسین لگا کر ان کو مختلف امراض سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ حفاظتی ویکسین بچوں میں قوت مدافعت بھی پیدا کرتی ہے اور اینٹی بائیوٹکس پر انحصارکم کرتی ہیں۔
جنرل سیکریٹری پی پی اے سندھ ڈاکٹر خالد شفیع نے والدین پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بیماریوں، معذوریوں اور اموات سے بچانے کے لیے حفاظتی ٹیکوں اور ویکسینیشن پروگرام، امیونائزیشن سے فائدہ اٹھائیں،10خطرناک بیماریوں میں تپ دق، چیچک، پولیو، نمونیا، خسرہ، خناق، تشنج، کالی کھانسی، روبیلا(جرمن خسرہ)،ممپس(گلے کا ایک مرض)، ہیپاٹائٹس بی اور ہیموفیلس انفلوئنزا ٹائپ بی شامل ہیں، ان امراض کوکنٹرول کرنے کا موثر طریقہ ویکسین وٹیکہ جات نہ صرف کامیاب ہیں بلکہ کم لاگت اور زیادہ موثر ہیں، بیماریوں سے ان تمام اموات کو حفاظتی ٹیکہ جات اور ویکسینیشن کے ذریعے روکا جاسکتاہے۔
ایک اندازے کے مطابق ہر سال 20 لاکھ سے 30 لاکھ زندگیوں کو حفاظتی ٹیکوں کے ذریعے بچایا جاتا ہے، اسی طرح اب بھی دنیا بھر میں تقریباً19کروڑ اور50لاکھ بچے بنیادی ویکسین سے محروم ہیں۔
ڈاکٹر ایم این لال نے کہا کہ یہ بات قابل ستائش ہے کہ حکومت نے روٹا وائرس ویکسین ای پی آئی پروگرام میں شامل کی ہے،ضرورت اس بات کی ہے کہ حفاظتی ٹیکہ جات کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔
ڈاکٹر جمیل اختر نے ویکسی نیشن کی ضرورت پر زور دیا، ان کا کہنا تھا کہ ویکسی نیشن اینٹی بائیوٹیکس ادویات کے استعمال میںکمی کا باعث بنتی ہے اور یہ اینٹی بائیوٹیکس کے خلاف پیدا ہونے والی مدافعت کا بہترین ذریعہ ہے، حفاظتی ویکسین اینٹی باڈیزکو استعمال میں لاکر بیماری سے مقابلہ کرتی ہیں اور مریض کو بیماری سے تحفظ دیتی ہیں۔
ڈاکٹر مشتاق میمن نے کہا کہ یہ بات قابل ذکر ہے پاکستان میں 1978میں حفاظتی ٹیکہ جات پروگرام پاکستان ایکسپنڈڈ پروگرام آن امیونائزیشن(ای پی آئی) شروع کیا گیا جو آج تک جاری ہے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں حفاظتی ٹیکہ جات لگوائیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔