مٹیاری NA-218: مخدوم امین فہیم کو پہلی بار سخت چیلنج کا سامنا

محرم راز  پير 15 اپريل 2013
مٹیاری ضلع میں پیپلز پارٹی کے بعد نظریاتی ووٹروں کی تعداد جے یو آئی ف کی ہے، جن کے مٹیاری ضلع میں 12 ہزار اراکین ہیں۔  فوٹو : فائل

مٹیاری ضلع میں پیپلز پارٹی کے بعد نظریاتی ووٹروں کی تعداد جے یو آئی ف کی ہے، جن کے مٹیاری ضلع میں 12 ہزار اراکین ہیں۔ فوٹو : فائل

 این آئی سی ایل کیس میں مخدوم امین فہیم کا نام شائع ہونے اور وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرین کے صدر اور سروری جماعت کے چیئرمین مخدوم امین فہیم کی سیاسی ساکھ کو تو ضرور دھچکا لگا ہے اور ملک بھر میں پیپلز پارٹی کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور یہ سلسلہ الیکشن کے دنوں میں کم ہونے کے بجائے بڑھ رہا ہے۔

مخدوم امین فہیم جو گزشتہ کئی عشروں سے مٹیاری سے قومی اسمبلی کی نشست یا تو بلا مقابلہ جیتے آ رہے ہیں یا پھر انتہائی بڑے مارجن سے جتیے آ رہے ہیں لیکن موجودہ صورتحال میں مٹیاری ضلع ان کے لیے اب اتنا آسان نہیں رہا، مٹیاری کی دیگر سیاسی جماعتیں فنکشنل مسلم لیگ، نواز لیگ، جے یو آئی، ایس یو پی آئی، ایس ٹی پی، ایس یو پی سمیت مٹیاری ضلع کی بہت سے سماجی تنطیموں اور بااثر افراد پی پی پی کے خلاف گزشتہ ایک برس سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

جن میں ان کو بہت سی کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں جیسا کہ مخدوم امین فہیم کے اپنے قریبی دوست رئیس علی احمد خان نظامانی، نذیر راہو، ایوب ہنگورو اور دیگر نے پی پی پی کو خیرباد کہہ کر مخالفین کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی، پی پی پی امیدوار مخدوم امین فہیم ، ان کے صاحبزادے مخدوم جمیل الزماں اور بھائی رفیق الزماں کے سامنے الیکشن میں بھی کھڑے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے پی پی پی کے ووٹ تقسیم ہونے سے یقینی طور پر پیپلز پارٹی مخالفین کو فائدہ پہنچے گا۔

الیکشن فارمز کی نامزدگی کے موقع پر مخدوم امین فہیم نے اپنے جن مخالفین پر اعتراض داخل کرائے اور انہیں نااہل قرار دینے کی کوشش کی تو مخالفین نے بھی امین فہیم اور ان کے بیٹے اور بھائی کو نہیں بخشا اور ان پر اعتراضات دائر کر دیئے جو مسلسل 3 دن تک ریٹرننگ آفیسر مٹیاری کے پاس جاری رہے، جس کے دوران مخدوم امین فہیم کو بھی 3 گھنٹے تک عدالت کے کمرے میں بیٹھنا پڑا، جس پر مٹیاری کے لوگوں نے کہہ دیا کہ وہ مخدوم جو عام لوگوں کو 2 منٹ بھی نہیں دیتے تھے آج عدالت کے کمرے میں 3 گھنٹے تک خاموش اپنے اوپر لگائے گئے الزامات سننے پر مجبور تھے۔

مطلب یہ کہ این آئی سی ایل کیس سے مخدوم صاحب کی ساکھ متاثر ہونے کے بعد مٹیاری ضلع میں پی پی پی کے ووٹ بینک کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے، ہالا، سعید آباد سے رئیس نظیر راہو، انعام اللہ راشدی، شاہ محمد شاہ، زمان شاہ، مخدوم شہزاد، مخدوم فضل حسین، عامر بہزاد میمن، مٹیاری سے الن پیر، فقیر ولی محمد، عبدالغفور میمن، محمد علی شاہ جاموٹ، ایوب ہنگورو، خان ابڑو، پرویز میمن سمیت کئی معززین پی پی پی مخالف اتحاد کا حصہ ہیں، جن میں سے ہر ایک کا اپنا علیحدہ ووٹ بینک ہے ۔

جو مخدوم امین فہیم کے خلاف کاسٹ ہوا تو ان کو کافی پریشان کر سکتا ہے، موجودہ صورتحال میں مٹیاری کی قومی اسمبلی کی نشست این اے 218پرپی پی پی کے مخدوم امین فہیم، پی پی مخالف اتحاد کے عبدالغفور میمن، ایس یو پی کے شاہ محمود شاہ، جے یو آئی کے مفتی ولی محمد لغاری اہم امیدوار ہیں جبکہ متحدہ کے وسیم حسین نے بھی اسی نشست پر کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ اگر آگے چل کر ایس یو پی اور جے یو آئی پی پی پی مخالف اتحاد کے عبدالغفور میمن کے حق میں دستبردار ہوتے ہیں تو پی پی پی کو بہت بڑی شکست کا سامنا ہوگا۔

مٹیاری ضلع میں پیپلز پارٹی کے بعد نظریاتی ووٹروں کی تعداد جے یو آئی ف کی ہے، جن کے مٹیاری ضلع میں 12 ہزار اراکین ہیں اور اگر جے یو آئی ف اس مرتبہ پیپلز پارٹی کو سپورٹ کرتی ہے تو امین فہیم کی وہ مشکلات ختم ہو جائیں گی، جو رئیس علی احمد نظامانی اور نظیر راہو نے ان کے لیے پیدا کی ہوئی ہیں۔ لیکن مسلم لیگ نون، مسلم لیگ فنکشنل، جماعت اسلامی، جے یو آئی ف، جے یو پی، این پی پی، سندھ ترقی پسند پارٹی ، سندھ یونائٹیڈ پارٹی، قومی عوامی تحریک پر مشتمل دس جماعتی اتحاد نے این اے 218 پر جے یو آئی کے امیدوار مفتی ولی محمد لغاری کو اپنا مشترکہ امیدوار نامزد کر دیا ہے۔

یوں اب مخدوم امین فہیم کے سامنے دو بڑے امیدوار ایک عبدالغفور میمن اور دوسرے مفتی ولی محمد لغاری کھڑے ہیں تاہم این اے 218 کے لیے دس جماعتی اتحاد کے امیدوار ولی محمد لغاری اگر عبدالغفور میمن کے حق میں بیٹھ گیے تو این اے 218 پر زبردست مقابلہ دیکھنے میں آئے گا۔ کہتے ہیں کہ امین فہیم پرانے سیاسی کھلاڑی ہیں جنہوں نے مخالفین کو مزا چکھانے کے لیے بھٹ شاہ درگاہ کے گدی نشین کے بھائی سید نازن شاہ پیر اور مٹیاری کے سید جلال شاہ جاموٹ جو پہلے ارباب گروپ کے ایم پی اے تھے ان دونوں کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔

جس سے پی پی کو مٹیاری ضلع میں اچھی خاصی سپورٹ بھی حاصل ہوئی ہے، یہاں کے سنجیدہ اور سیاسی شعور رکھنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ مخدوم امین فہیم کے خلاف جو ماحول پیدا ہوا ہے وہ ان کے اپنے بیٹے جمیل الزماں نے پیدا کیا ہے، جو ہالا کے پی ایس 43 سے جیتے تھے اور صوبائی وزیر بنے لیکن ان کے مشیروں نے سرکاری نوکریوں میں کرپشن کر کے مٹیاری، ہالا کے عوام کے ساتھ جو سلوک کیا اس سے لوگ بہت متنفر ہو گئے ہیں۔ خصوصی طور پر مٹیاری، ہالا و سعید آباد شہروں میں جہاں پیپلز پارٹی کو سپورٹ کرنے والی میمن برادری اور تاجر برادری جو اپنا کافی ووٹ بینک رکھتے ہیں ان کی دکانوں اور گھروں سے چوری کی وارداتوں نے لوگوں کو پیپلز پارٹی سے بہت مایوس کیا، جس کی وجہ سے مٹیاری ضلع میں میمن اتحاد بنا جو اس وقت یقینی طور پر ایک بڑی قوت رکھتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مٹیاری ضلع سے ہر بار الیکشن میں فتح سے ہمکنار ہونے والی پیپلز پارٹی کو بہت سے مسائل درپیش ہیں۔ پیپلز پارٹی کے مخدوموں سے یہاں کے بااثر اور دیگر سیاسی، مذہبی تنظیمیں اس لیے بھی نا خوش ہیں کہ یہاں پر ہمیشہ مخدوم خاندان کو ہی پیپلز پارٹی نے ٹکٹ دیا ہے، باپ اگر وفاقی وزیر ہے تو بیٹا صوبائی وزیر اور بھائی ضلع ناظم بن جاتا ہے، اس لیے دیگر پارٹیاں اس مرتبہ عہد کر چکی ہیں کہ جیسے تیسے بھی ہو اس بار مخدوم خاندان کو شکست کا مزہ ضرور چکھائیں گے۔نہ صرف پی پی پی مخالفین این اے 218 پر پیپلز پارٹی کو شکست دینے کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں بلکہ پی ایس 44 پر پی پی پی کے رفیق الزماں اور جلال شاہ جاموٹ، پی ایس 43 پر مخدوم جمیل الزماں کو بھی شکست دینے کی حکمت عملی تیار کی گئی ہے۔ پیپلز پارٹی مخالفین اگر یقینی طور پر متحد ہو کر پی پی پی کا ون ٹو ون مقابلہ کریں اور مٹیاری میں جے یو آئی ف مکمل طور پر پی پی پی مخالفین کو سپورٹ کرتی ہے تو اس سال نتائج ماضی سے بہت مختلف ہو سکتے ہیں ۔

کیونکہ مٹیاری ضلع میں بھی پی پی کی کارکردگی پچھلے 5 برسوں میں ملک بھر کی طرح بہت مایوس کن رہی ہے، پیپلز پارٹی مخالفین کو ابھی تک بھی امید ہے کہ مخدوم امین فہیم چونکہ این آئی سی ایل کیس میں ہیں جنہیں ممکن ہے کہ سپریم کورٹ نااہل قرار دے دے ، ایسی صورتحال میں پیپلز پارٹی کو مٹیاری ضلع میں شدید دھچکا لگے گا اور پی پی مخالفین کو فائدہ ہو گا، باشعور لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پی پی مخالفین خصوصی طور پر سید شاہ محمد شاہ، رئیس نذیر، رئیس علی احمد، مخدوم شہزاد، محمد علی شاہ جاموٹ اگر آخر تک متحد ہو کر الیکشن لڑتے ہیں تو پی پی پی کی شکست یقینی ہو گی ۔

جبکہ امین فہیم کے الیکشن نہ لڑنے کی صورت میں قومی اسمبلی کی نشست پر ان کے بیٹے مخدوم حبیب اللہ الیکشن لڑیں گے، جن کا جیتنا آسان نہیں ہوگا۔ مٹیاری، ہالا، سعید آباد کی 19 یونین کونسلوں کی 7 لاکھ کی مردم شماری میں ایک لاکھ سے زائد ووٹرز موجود ہیں، جن کی اکثریت ہمیشہ پی پی کے ساتھ رہی ہے، لیکن اس مرتبہ پی پی پی مخالفین جنہوں نے شروع میں ہی پی پی پی کا گھیرا تنگ کر دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنے نوجوانوں میں شعور کی لہر پیدا کی ہے جو ان کی فتح ثابت ہو گی۔

مٹیاری میں دیگر امیدواروں میں نواز لیگ کے گل حسن راجپوت، متحدہ کی نرگس ناز، جے یو آئی کے وقار احمد خاصخیلی، آزاد امیدوارمولا بخش سموں، متحدہ کے طفیل راجپوت اور دیگر شامل ہیں۔ مٹیاری ضلع میں این اے 218 پر 17، پی ایس 44 پر 37 اور پی ایس 43 پر 32 امیدواروں کے نامزدگی فارمز بحال ہو گئے ہیں۔ الیکشن کے دن قریب آ رہے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ اس بار مٹیاری ضلع جو ہمیشہ پی پی کا قلعہ رہا ہے، کیا پی پی پی اپنے اس قلعے کوبچاپائے گی یا مخالفین کامیاب ہو کر ایک نئے انقلاب کا آغاز کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔